مشمولات

Monday, 21 May 2012

Census and Responsibilities of Local Leadersمردم شماری اور مذہبی جماعتیں


مردم شماری - مذہبی جماعتیں ، ائمہ مساجد اور مقامی لیڈران
                                                                                                                                                                                               
 مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے۔ سرکاری خبروں کے مطابق یہ اب تک کی سب سے بڑی مردم شماری ہوگی جس میں ملک کے ہرشہری کی تفصیلی طور پرانفرادی معلومات کے علاوہ رنگین تصویر اور دسوں انگلیوں کے نشانات(Finger Prints) بھی لیے جائیں گے۔ مردم شماری ہر دس سال پر ہوتی رہی ہے۔ اس سے قبل جو مردم شماریاں ہوئی ہیں ان کے بارے میں ایسے بلند بانگ دعوے نہیں ہوئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مردم شماری بالکل درست ہوگی اور کسی قسم کی فروگذاشت نہیں ہوگی۔ اس سے قبل جو مردم شماریاں ہوئی ہیں ، ان میں مسلمانوں کی جو تعداد بتائی جاتی ہے اس سے پرے غیر سرکاری اعداد کچھ اور بتاتے ہیں۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مردم شماری کے عمل میں کوتاہی برتی جاتی ہے یا کسی طرح کا امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔
                مردم شماری کا عمل ملک وقوم کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس سے ملک کے باشندوں کی صحیح صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے اور ملک کی اصل پوزیشن معلوم ہوتی ہے ۔ ایک خوش حال ریاست کے لیے ضرور ی ہے کہ اس کے تمام افراد یکساں طور پر خوش حال ہوں اور ان کے لیے یکساں مواقع بھی موجود ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی ملک خوش حال نہیں ہوسکتا ہے۔ مردم شماری سے ملک کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اور پھر اسی کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل تیار ہوتا ہے ۔ مختلف قسم کی سماجی ومعاشی منصوبہ بندیا ں کی جاتی ہیں اور اس کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک وقت متعین ہوتا ہے اس کے بعد کی مردم شماری سے یہ پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ اس میں کس قدر کامیابی حاصل ہوئی۔ اور ملک پچھلے دس سالوں کے مقابلہ کس قدر آگے بڑھا ہے۔
                اس وقت دوکمیشنوں وزیر اعظم کی اعلی سطحی کمیٹی(سچر کمیٹی) ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی ومعاشی اور تعلیمی صورت حال اور قومی کمیشن برائے مذہبی ولسانی اقلیات (رنگناتھ مشرا کمیشن) کا خاص ذکر ہے ۔ کیوں کہ ان میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ننگے ، بھوکے ، بے گھر،بے گار(بے روزگار ) ، سرکاری محکموں میں ان کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے بہت پیچھے ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ان کی تعداد اچھی نہیں ہے، فوج اور پولس محکمہ میں ان کی تعداد نہ کے برابر ہے۔ کاہل ، جاہل ، سائنسی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں ان کی تعداد 3فیصد بھی نہیں ہے ،سیاسی اداروں میں ان کی شراکت ایک فیصد سے بھی کم ہے اور پسماندوں سے بھی پسماندہ ہیں۔جب کہ جرائم میں یہ بڑھے ہوئے ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کا تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔یہ بات کسی ملک کے لیے بھلی ہو یا بری۔ لیکن ملک کے ایسے طبقہ کے لیے جو ملک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، بلاشبہ اچھی ہے۔ کیوں کہ اس سے جہاں مسلمانوں میں کمتری کا احساس پیدا ہوگا اور انہیں اپنی قوت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکے گا ۔اپنی طاقت پر اٹھنے کی بجائے حکومت کے رحم وکرم کی بھیک کے محتاج ہوں گے۔ وہیں دوسری طرف مخالف طبقہ میں قوت برتری کا احساس بڑھے گا۔ انہیں یہ اندازہ ہوگا کہ ملک کی برتری انہی کے دم خم سے قائم ہے۔ اس کے برخلاف دوسری قومیں ملک کی جبین پر بد نما داغ ہیں۔ انہی رپورٹوں میں 2001کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعدا دکا تناسب 13.4فیصد ہے اور ہندؤوں کا 80.5فیصد ۔ یہ تعداد کس حد تک حتمی ہے ،اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب کہ 1991کے مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کا تناسب 12.1فیصد تھا اور ہندؤوں کا تناسب 82.0فیصد تھا۔ یعنی ہندو ملک میں کم ہوتے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مخالف گروہ میں منفی رجحانات سر اٹھائیں گے۔ جب کہ خاندانی منصوبہ بندی کے اثرات دونوں پر یکساں طورپر پڑے ہیں۔ البتہ بات ایسی ہے تو ایسا ہوسکتا ہے کہ اس قبل کی مردم شماریوں کے برخلاف مذکورہ مردم شماری میں اتنے ان مسلمانوں کا احاطہ ہوا ہے جن کو اس سے قبل چھوڑ ا جاتا رہا ہے۔
                دوسری طرف اس رپورٹ کی بنیاد پر مسلمان ریزرویشن اور دیگر قسم کی ترجیحات کے حقدار ہوتے ہیں۔ حیرت ہے جو لوگ آزادی سے قبل سماجی پسماندگی کے شکار تھے ( اور جو سب کے سب ایک ہی مذہب ہی تعلق رکھتے ہیں) ریزرویشن حاصل کرکے سماجی مساوات بلکہ برتری کے حامل ہوچکے ہیں ۔ اب حقیقی صورت حال یہ ہے کہ جو اعلی ذاتیں تھیں اعلی ہیں ہی اور جو پسماندہ تھیں پسماندہ نہیں رہیں۔ اس کے باوجود ان کے لیے ریزرویشن کی میعادمیں اضافہ ہی کیا گیا ہے اور اس کے لیے آئین میں گنجائش بھی نکلتی ہی جارہی ہے۔ دوسری طرف مسلمان جو آزاد ی سے قبل ۱۸۵۷سے ہی معاشی اور سماجی سطح پر پسماندگی کے شکار ہوتے گئے بلکہ ان کو پسماندہ کرنے کی کامیاب کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ خود حکومت کے ذریعہ بحال کمیشنوں کے مطابق آج بھی معاشی پسماندگی اور پھر اس کی وجہ سے سماجی پسماندگی کے شکار ہےں ، ریزرویشن کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ ان کے ماتھے پر مذہب کی سرخی لگی ہے اور آئین کے مطابق باشندوں کے درمیان کسی مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق یا امتیاز نہیں برتاجاسکتاہے۔ باوجودیکہ پورا طبقہ معاشی پسماندگی کا شکار ہے جو سماجی پسماندگی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
                پنچ سالہ منصوبے جو عام شہری اور ملک کی ترقی کے لیے تشکیل دیئے جاتے ہیں ان میں مردم شماری پر بڑا انحصار ہوتا ہے۔ ان منصوبوں میں مختلف قسم کی ترقیاتی اسکیموں کا نفاذ ، تعلیمی ادارے اور ہاسپیٹل کے قیام وغیرہ کے لیے علاقوں کا تعین اور ترجیحات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔ آزادی کے بعد سے ہی منصوبے تشکیل دیئے جاتے رہے ہیں ، علاقوں کا تعین ہوا ہے ترجیحی بنیاد پر کام ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آزادی کے ساٹھ (۰۶)سال بعد بھی مسلمان مختلف محاذ پر پسماندہ ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سرکاری ڈاٹا کلیکشن میں مسلمانوں کا صحیح ڈاٹا دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔اس لیے بھی ان کو بہت سی سرکاری سہولیات حاصل نہیں ہوسکی ہیں یا انہیں قصدا نظرا انداز کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر مردم شماری میں صحیح اعداد وشمار اور مسلمانوں کاصحیح رتبہ (Status) مندرج نہیں ہوں گے تو مستقبل میں مختلف قسم کی ترقیاتی اسکیمیں ان علاقوں تک نہیں پہنچ پائیں گی جہاں ان کی ضرورت ہے ۔ اسکول ، کالج اور ہاسپیٹل کا قیام انڈسٹری اور گھریلو صنعتوں کو فروغ کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنے گا۔ یہ بات بھی شبہ سے بالا تر نہیں کہ مردم شماری یا ووٹر لسٹ کی تیاری میں مامور سرکاری ملازمین کچھ تو سوچی سمجھی سازشوں کے تحت تو کچھ اپنی کوتاہی کی وجہ سے اور کچھ بھولے بھالے عوام کی کم علمی کی وجہ سے غلط اندراج کردیتے ہیں یا انہیں چھوڑ ہی دیتے ہیں۔ اس طرح پسماندہ علاقوں کی بڑی آبادی بہت سی ترقیاتی اسکیموں اور سرکاری سہولیات سے محروم رہ جاتی ہے۔
                اس وقت سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے آنے کے بعد مسلمانوں کا ایک طبقہ بیدار ہوا ہے ۔ اسے اپنی پستی کا احساس ہوا ہے اور وہ حکومت سے اپنا حق مانگ رہے ہیں ۔ چونکہ یہ رپورٹیں پچھلی مردم شماریوں پر ہی مبنی ہیں ، اس لیے ان کے اندراجات بالکل درست ہوں گے ، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اور ایسا ہوسکتا ہے کہ موجودہ اعداد وشمار کے مطابق جو حق انہیں ملنا چاہیے وہ اس سے بھی زیادہ کے حقدار ہوں۔
                اس لیے ضروری ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ مردم شماری کے پہلے مرحلہ کا آغاز ہوچکا ہے ، مسلمانوں کو اپنی بیداری کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ عوام کو ان کی حالت سے با خبر کراکر مردم شماری کے فارم میں صحیح اندارج کرانے کی نشاندہی کرانی چاہیے۔ اس کام میں بطور خاص مذہبی جماعتیں ، ائمہ مساجد اور مقامی مسلم لیڈرا اور دانشوروں کو بطور خاص حصہ لے کر اپنی بیداری کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ اچھا ہوگا کہ مردم شماری کا جو فارم موجود ہے ، اسے حاصل کرکے گھر گھر تک پہنچایا جائے اسے سمجھایا جائے کہ کس خانہ میں کیا پر کرانا ہے۔ زبان کی جگہ کیا دینا ہے۔ مذہب کی جگہ کیا دینا ہے۔ انہیں سرکارکی کونسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بچوں کو پڑھانے میں انہیں کیا دشواریاں حائل ہیں۔ معاشی طور پر ان کے لیے کیا مواقع ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ جو سرکاری اسکیمیں چلائی جارہی ہیں ، ان تک ان کی رسائی ہورہی ہے یا نہیں ۔
                تقریبا ہر صوبے میں مختلف مسالک کی مذہبی جماعتیں کام کررہی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ جماعتیں اپنی سرگرمیوں میں ہر شخص تک اپنی پہنچ بنالیتی ہیں۔ ان کو اپنا پیغام پہنچاتی ہیں۔ اس وقت ان کا ایک مثبت قدم یہ ہوگا کہ مردم شماری کے عمل میں اپنے عوام کی رہنمائی کی جائے۔ مردم شماری فارم کے ہر خانہ کی صحیح اطلاع لوگوں کو فراہم کی جائے۔ اس کے لیے مساجد کے ائمہ کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ خود مساجد کے ائمہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ کیونکہ ان ائمہ کی حیثیت رہنما کی ہے۔
                مردم شماری کا کام ایسا ہے کہ جس میں ان مذہبی جماعتوں کو خود بھی اپنے طور پر ملکی سطح پر کام کرنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کام غیر سرکاری طور پرانہی مذہبی جماعتوں کے ذریعہ ممکن بھی ہے۔جس بستی یا علاقے میں کسی خاص مسلک کی پہنچ نہیں ہے یا ان علاقوں میں افراد بہت کم ہیں وہاں دوسری جماعتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کی مدد کریں۔
                یہ کام مقامی مسلم لیڈران کو بھی کرنا چاہیے ۔ کیوں کہ جب مسلمانوں کی حالت اور تعداد کا صحیح منظرنامہ سامنے آئے گا تو اس کے مطابق مختلف قسم کی سرکاری حکمت عملیاں بھی نفاذ پائیں گی جن کا فائدہ ان ہی کو پہنچے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ مذہبی جماعتیں ائمہ مساجد اور مقامی مسلم لیڈران پہلی فرصت میں اس کام پر توجہ دیں گے۔
ززز
نوٹ:       یہ مضمون قومی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوچکا ہے۔

No comments: