مشمولات

Monday, 21 May 2012

بہار مدرسہ بورڈ صورت حال


دعویٔ اصلاح: جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
                                                                                                                                                                                
                ادھر چند دنوں سے بہار مدرسہ بورڈ کی اصلاح کے ضمن میں متعدد بیانات پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ بیان دینے والوں کے مطابق بہار مدرسہ بورڈ کی اصلاح طے ہے اور بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس پر عائد تعلیمی معیار کی پستی کا الزام فرو ہوجائے گا۔ پتہ نہیں بیان دینے والوں کے نزدیک مدرسہ کے تعلیمی معیار کی سطح کیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ملحقہ مدارس میں اتنی خامیاں ہیں کہ ان کی اصلاح کے لیے اچھا خاصا عرصہ درکار ہے اور جب تک پورے نظام پر نظر ثانی نہیں ہوگی اصلاح نا ممکن ہے۔
                مدارس کے توجہ طلب امور پر غور کیا جائے تو سب سے پہلے اساتذہ کی لیاقت پر نظر ٹکتی ہے۔بہت سے ملحقہ مدارس میں تعلیم یافتہ کے بجائے ڈگری یافتوں کو بحال کیا گیا ہے۔ اس میںاقربا پروری کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ ان میںکئی تو ایسے بھی ہیں جو کتابوں کی تدریس تو کجا خود عبارت صحیح صحیح پڑھنے اور سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ زیادہ تر تو نصاب اور اس میں شامل کتابوں سے بھی ناواقف ہیں۔ مدرسہ بورڈ میں مولوی، عالم اور فاضل کے لیے جو بحالیاں ہوتی ہیں ان میں تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ فاضل کو ہی ٹرینڈ بھی سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ تربیت اساتذہ اور چیز ہے اور اکاڈمک ایجوکیشن اور چیز ۔ فاضل میں طریقہ تدریس اور علم تدریس کے تعلق سے ایک کتاب بھی شامل نہیں ہے نہ ہی فاضل کے نصاب میں تدریس کے لیے کوئی جز وقتی ہی سہی عملی تربیت دی جاتی ہے۔بفرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیاجائے تو عملی طور پر ہر عہدے کے لیے اس کی تکمیل لازمی نہیں سمجھی گئی ہے۔ اسی طرح ماسٹر کے عہدوں میٹرک ٹرینڈ ، آئے ٹرینڈ اور بی ٹرینڈ کے لیے تربیت یافتہ ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ صرف وہ عہدے کے نام سے اگلی ڈگر ی حاصل کئے ہوئے ہوں۔ جبکہ ملک کی جدید تعلیمی پالیسی کے تحت اساتذہ کی تقرری کے لیے تربیت یافتہ ہونا لازمی ہے۔ یہ کوئی عبث اہلیت بھی نہیں کہ اس سے صرف نظر کرلیا جائے بلکہ مؤثر تدریس کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر طلبہ کی نفسیات کو سمجھا، مؤثر اور جدید طریقۂ تدریس کو اختیار اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا نہیں جاسکتا ہے۔ مدارس میں Teaching Aid طرح کی کوئی چیز بھی نہیں دی جاتی ہے۔ کیا مدرسہ کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔
                ظاہر ہے جب اساتذہ کا یہ معیار ہوگا تو تعلیم کا معیار کیا ہوگا۔ مدارس میں بنیادی ڈھانچہ کی بھی بڑی کمی ہے۔ یہ آج بھی بوریہ نشینی پر یقین رکھتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ ادوار کے بوریہ نشینوں جیسا معیار بھی نہیں رہ گیا ہے۔ بیشتر مدارس میںطلبہ اور اساتذہ کے لیے ٹیبل بنچ / کرسی اور تختہ سیاہ/ سفید وغیرہ نہیں ہیں۔ سماجی علوم، سائنس ، ریاضی ، اردو ، فارسی اور انگریزی وغیرہ کی کتابیں شکشا پری یوجنا کے تحت دی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ بھی وقت پر دستیاب نہیں ہوتیں یا تقسیم ہی نہیں کی جاتی ہیں۔ TLM کے نام پر جو کچھ رقم دی جاتی وہ بھی خرد برد کا شکار ہوجاتی ہے۔ عمارتیں مخدوش ہیں اور رنگ وروغن کے لیے ترس رہی ہیں۔ جدید عمارتوں کے لیے گرانٹ منظور نہیں ہوتے ہیں ۔ شکشا پری یوجنا سے بچوں کو دن کاکھانا دیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اکثر مدارس اس کو لینے سے کتراتے ہیں اور جہاں لیتے ہیں وہ بھی خرد برد کردیتے ہیں۔ سرکار نے سرکاری اسکولوں کو یونیفارم کے لیے گرانٹ دینا شروع کردیا ہے۔ مدارس کی سطح سے اب تک اس طرح کا کام نہیں ہورہا ہے۔ سائنس کے لیے کوئی تجربہ گاہ موجود نہیں ہے اور نہ اس کے لیے اخراجات ہی فراہم کئے جاتے ہیں۔
                مدرسہ بورڈ میں اساتذہ کی تعداد اور طلبہ کا تناسب بھی ملک کی تعلیمی پالیسیوں حتی کے عام شعور(Common Sense) سے میل نہیں کھاتا ہے۔ ملحقہ مدارس میں ملازمین کی تعداد وسطانیہ سطح پر ۶، فوقانیہ پر ۲۱ جن میں دو غیر تدریسی اور مولوی سطح پر ۱۵ جن میں تین غیر تدریسی ہیں۔ وسطانیہ سطح کے مدارس میں ایک مولوی، ایک عالم ، ایک فاضل (ہیڈ مولوی) ، ایک میٹرک ٹرینڈاور ایک آئی اے ٹرینڈ، کے عہدوں پر بحال ہوتے ہیں اور ایک عہدہ حافظ کا ہوتا ہے۔ وسطانیہ سطح کے مدارس میں ۵ تحتانیہ اور ۳ وسطانیہ کے درجے ہوتے ہیں۔ ان درجوں میں پڑھانے کے لیے حفظ کو چھوڑ کر ۸ درجے ہوتے ہیں۔ حافظ کا درجہ الگ ہوتا ہے اور الگ استاد ہوتے ہیں۔۸ درجوں کے لیے بشمول ہیڈ مولوی پانچ اساتذہ ہوتے ہیں۔ گویا ایک وقت میں یا تو صرف پانچ درجوں کے کلاس لیے جائیں یا چار درجوں میں دو دو درجوں کا مشترکہ کلاس لیا جائے۔ گزشتہ چیئر مین نے ایک اصلاحی قدم اٹھاتے ہوئے کسی درجہ میں طلبہ کی تعداد کی تحدید40 متعین کی تھی۔ ایسے مدارس بہت کم ہوں گے جن میں وسطانیہ کے بورڈ امتحان کے لیے 40سے کم طلبہ شریک ہوتے ہوں۔ اگر منقطعین (Dropouts) کی شرح 0% تسلیم کرلی جائے جو سرکاری جائزے کے مطابق غلط ہے تو طلبہ کی تعداد ۸ درجوں میں ۰۲۳ہوتی ہے۔ تعلیمی پالیسی کے مطابق ہر ۰۳ بچوںپر ایک استاد ہونا چاہیے۔ اگر اس تعداد کولازمی صورت دی جائے تو حفظ کو چھوڑ کر طلبہ کی تعداد ۰۵۱ ہوتی ہے۔اگر یہ تناسب برقرار نہیں رکھا جاتا ہے تو تعلیمی پالیسی کے مطابق معیار میں گراوٹ پیدا ہوگی۔ اس پر دلچسپ بات یہ ہے کہ وسطانیہ سطح کے بیشتر مدارس میں بعض کو فوقانیہ اور بعض کو مولوی تک پڑھانے اور فارم داخل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ایسے مدارس کی تعداد 0.25 فیصد سے بھی کم ہوگی جو اضافی اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہوں نہ ہی انہیں کوئی گرانٹ حاصل ہے کہ وہ ایسا کرسکیں۔ فوقانیہ کے درجوں کا اضافہ کر لیا جائے تو ۱۰ اور مولوی کا ہوتو ۱۲ درجے ہوجاتے ہیں۔ گویا یہی چار پانچ اساتذہ دس یا بارہ درجوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک درجہ میں ایک وقت میں تین یا چار درجوں کو ایک ساتھ ایک درجے میں مشترکہ طور پر تعلیم دی جائے تب ہی ممکن ہے۔ جو مدارس فوقانیہ تک گرانٹ پاتے ہیں انہیں عالم تک تعلیم دینے کی منظوری ہے اور جو مولوی تک ہیں انہیں فاضل تک تعلیم دینے کی اجازت ہے۔ مولوی سے زیادہ کسی مدرسہ کو گرانٹ نہیں ملتا ہے۔ اس طرح بالترتیب فوقانیہ سطح کے مدارس میں دو غیر تدریسی ، ایک حافظ اور ہیڈ مولوی کے ساتھ ۲۱ اسٹاف ہیں اور بشمول عالم درجوں کی تعداد ۱۵ او راس سے زائد ہے اسی طرح مولوی سطح پر تین غیر تدریسی ایک حافظ اور ایک ہیڈ مولوی کے ساتھ۱۵ اسٹاف ہیں جن میں بشمول فاضل درجوں کی تعداد ۷۱اور اس سے زائد ہے۔ جبکہ طلبہ پسند کے مطابق الگ الگ مضامین کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔اردو کے علاوہ عربی، فارسی، حدیث اور تفسیر وغیرہ میں عالم فاضل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی کم دلچسپی کا امر نہیں ہے کہ مدارس میں فوقانیہ کی سطح پر اسکولوں کی طرح سائنس ، سماجی علوم اور عالم سطح تک انگریزی پڑھانے کا انتظام ہے۔ اس کے لیے عہدے ہیں میٹرک ٹرینڈ، آئی اے ٹرینڈ اور بی اے ٹرینڈ۔ ان پر بحالی کے لیے سائنس یا متعلقہ مضامین میں اہلیت کی کوئی قید نہیں رکھی گئی ہے۔ اگر کسی مدرسہ میں میٹرک پاس جس نے آئے اے یا آئی کام کیا ہو، اسی طرح آے پاس ، جو بی اے (بشری علوم یا اردو ، فارسی، میتھلی کسی میں انگریز ی یا ہندی زبان کو چھوڑ کر )یا بی کام ہو۔ اسی طرح بی اے پاس، جو ایم اے (بشری علوم یا اردو ، فارسی، میتھلی کسی میں انگریز ی یا ہندی زبان کو چھوڑ کر )یا ایم کام ہو ، بحال کیا جاتا ہے تو وہی سائنس اور انگریزی پڑھانے کے اہل ہو گا۔
                یہ تو چند اصولی باتیں تھیں زمینی حقائق یہ ہیں کہ تعلیم کے لیے مدارس سے طلبہ کا رشتہ ٹوٹ چکاہے۔ ایسے با شعور جن کو تعلیم اور وقت کا احساس ہے مدرسہ بورڈ کی طرف اتنا رجحان بھی نہیں رکھتے جتنا ریاستی سرکاری اسکولوں کی طرف۔ اس کی وجہ مدرسہ کی تعلیم نہیں بلکہ نظام کی لاقانونیت ہے۔ بورڈ امتحان میں شریک ہونے والے ڈگری کے حصول کے لیے شریک ہوتے ہیں یا نظامیہ کے طلبہ ہیں جن کے لیے دوسرا راستہ مشکل ہے۔ ایسے بہت کم بلکہ نہیں کی حد تک مدارس ہوں گے جہاں نصاب کے مطابق روٹین تیار ہوتی ہو ،بچے آتے ہوں ، اساتذہ کلاس لیتے ہوں اور نصاب کی تکمیل ہوتی ہو۔ کم ازکم فوقانیہ اور اوپر کی سطح تک تو شاید بالکل نہیں ۔ ایسے مدارس جو بورڈ سے ملحق ہیں اور جہاں واقعی تعلیم ہوتی ہے وہ نظامیہ کے تحت ہوتی ہے بورڈ کے نصاب کے تحت نہیں۔
                جدید تعلیمی پالیسی کو نظر میں رکھتے ہوئے نصاب ، احاطہ، کلاس روم وغیرہ سے متعلق بھی بہت سی باتیں ہوسکتی ہیں اور اس کی مضحکہ خیز صورت حال کا اظہار ہوسکتا ہے مگر یہ پھر اور کبھی، ابھی اتنا ہی ۔ اللہ حافظ
٭٭٭

No comments: