مشمولات

Tuesday, 22 May 2012

Homo Sexuality ھم جنس پرستی ایک غیر فطری عمل


ہم جنس پرستی ایک غیر فطری عمل
ہم جنس پرستی کیا ہے؟ :         
ہم جنسیت ایک قدیم جنسی رویہ اور جدید تصور ہے۔ اس تصور کے مطابق دو ہم جنس افراد اگر چاہیں تو آپسی رضا مند ی سے جنسی خواہش کی تسکین کریں، اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور اسے قانونی حیثیت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
"Homosexuality is romantic or sexual attraction or behavior among members of the same sex. As a sexual orientation, homosexuality refers to "an enduring pattern of or disposition to experience sexual, affectional, or romantic attractions primarily to" people of the same sex; "it also refers to an individual’s sense of personal and social identity based on those attractions, behaviors expressing them, and membership in a community of others who share them." " (Wekipedia, Free Encyclopedia(
ہم جنسی میں” ایک ہی جنس کے دوافراد ، ایک دوسرے کے جنسی اعضا سے چھیڑ چھاڑ کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ یہ فعل عورت اور مرد دونوں ہی کرتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ مردوں میں یہ تعلق تقریبا مباشرت کی شکل رکھتا ہے۔ عورتوں میں یہ جسمانی قربت، جلق اور جنسی اعضا سے چھیڑ چھاڑ تک ہی محدود رہتا ہے۔ عموما یہ جیلوں ،ہاسٹلوں اور دیگر اقامتی اداروں میں زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسی وقت ہوتا ہے جب جنس مخالف سے تعلق نہیں ہوسکتا ۔ لیکن ایک نظریہ فکر یہ بھی ہے کہ یہ بالکل فطری ہے اور کچھ لوگ پیدائشی ہم جنس ہوتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں ان کے کلب ہوتے ہیں ، ان کی بے حد فعال تنظیمیں ہیں ۔ ان کا ادب ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شادیوں کو پوری طرح قانونی تحفظ مل چکا ہے۔ اپنے بیٹے کے پارٹنر کو داماد یا بیٹی کے ساتھی کو بہوکے کردار میں ان کا خاندان اور سماج قبول کر چکا ہے۔ “ (جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ج۳ ہم جنسی )
یہاں یہ واضح رہے کہ اغلام بازی اور ہم جنسیت دو الگ الگ رویے ہیں۔ اغلام بازی میں بچوں کو بہکاکر مفعول نسوانی کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جب کہ ہم جنسیت ایک جنسی تصور ہے جس میں دو بالغ افراد باہمی رضامندی سے شعوری طور پر اس بد فعلی کو انجام دیتے ہیں ۔
ہم جنسیت کی ابتدا:
ہم جنسیت کی ابتدا کب سے ہوئی قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہندوستان کی قدیم کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔لیکن صحیح یہ ہے کہ کم یا زیادہ کسی نہ کسی حد تک ہر سماج میں یہ موجود رہی ہے۔ قران مجید میں ایک ہی واقعہ سے متعلق کئی مقام پر اس کا ذکر ملتا ہے۔ صدوم کے علاقے میں ایک قوم آباد تھی جو اس فحاشی اور بد فعلی کا شکار تھی۔ اللہ نے حضرت لوط ؑ کو ان کی اصلاح کے لیے نبی بناکر مبعوث کیا ۔ حضرت لوطؑ نے ان کو سمجھایا کہ تمہارا یہ عمل فحاشی، ظلم اور سر کشی پر مبنی ہے، تم اس سے باز آجاؤ ۔ لیکن وہ قوم راہ راست پر نہیں آئی بلکہ ان کے مہمانوں پر ہی نیت خراب کربیٹھی ۔ یہ مہمان فرشتے تھے جن کو اللہ نے ان کی آزمائش کے لیے بھیجا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا اور پوری قوم ہلاک وبرباد ہوئی۔ قران کے اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ پہلی قوم تھی جو اس بد فعلی کا شکار ہوئی۔ اللہ تعالی فرماتاہے : ”ولوطا اذقال لقومھ انکم لتاتون الفاحشہ ما سبقکم بھا من احد من العالمین(سورہ عنکبوت ۸۲)
بہر حال اس کی ابتدا جب بھی ہوئی ہو یہ جنسی رویہ ہی رہا ہے ، بحیثیت تصور اس کا تعلق آزادی نسواں کی تحریک سے ہے ۔ اس تحریک کے علم برداروں کے نزدیک ہم جنسی کوئی برا عمل نہیں۔ وہ شادی کو استحصال کی شروعات سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک عورت اپنے آپ میں مکمل ہے اور بلاوجہ ازدواجی زندگی کے تحت غلامانہ زندگی گزارتی ہے۔ ان کے نزدیک شادی ایک غیر قدرتی بندھن ہے جس کی کوئی معاشرتی اہمیت نہیں بلکہ معاشی اہمیت ہے۔
ہم جنس پرستوں کے دلائل:
مغربی ممالک میں تو ہم جنسی کا تصور عام ہوہی چکا ہے اور وہاں کی حکومت اور سماج اسے بحیثیت تصور قبول بھی کرچکا ہے ۔ گرچہ ہندوستان میں اس رویہ کو عام لوگ ا ب بھی نا پسندیدگی کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔لیکن یہاں بھی یہ رجحان سر اٹھارہا ہے اور اسے قانونی حیثیت بھی دے دی گئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی بنچ نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعہ دو باہم رضامند بالغ افراد کے درمیان ہم جنس تعلقات کو ہندوستانی آئین کی ایک قدیم دفعہ 377کے برخلاف جرم سے مبرا قرار دے دیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ انڈین پینل کوڈ کا سیکشن 377 کیا کہتا ہے: ” قانون فطرت کے برخلاف جو کوئی بھی، مرد، عورت یا جانوروں سے تعلقات قائم کرے وہ سزائے عمر قید کا حقدار ہے یا سزائے قید کا جو دس سال کی مدت تک ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی جرمانے کا ۔ “
377. Unnatural offences: Whoever voluntarily has carnal intercourse against the order of nature with any man, woman or animal, shall be punished with imprisonment for life, or with imprisonment of either description for term which may extend to ten years, and shall also be liable to fine.
اس دفعہ کو 1860میں لارڈ میکالے نے تشکیل دیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس دفعہ کو دفعہ 15اور 21سے متصادم ٹھہرا یا ہے ۔ دفعہ 15کے مطابق ”ریاست (حکومت) ہندوستان کی حدود میں کسی بھی فرد کے لیے مساوات یا قانونی تحفظ کے لیے مساوی حقوق سے انکار نہیں کرے گی “اور سیکشن 21کے مطابق ”کسی بھی فرد سے زندگی یا شخصی آزادی کا حق نہیں چھینا جائے گا سوائے ان امور کے جو قانون کے ذریعہ نافذ کئے جائیں۔ “
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ہم جنسی کو جائز قرار دیا ہے ۔ یہ فیصلہ تین نکات پر مبنی ہے۔
۱۔            ہم جنس پرستی زنا بالجبر یا قتل کی طرح کوئی جرم نہیں ہے۔
۲۔           یہ فرد کی انفرادی آزادی کا معاملہ ہے کہ وہ جس سے چاہے تعلقات قائم کرے۔
۳۔          یہ شہری حقوق کا مسئلہ ہے کہ ایک ہم جنس پرست کو اس کے جنسی برتاؤکی بنا پر ستایا اور ٹارچر نہیں کیا جانا چاہیے۔
http://www.hindu.com/2009/07/03/stories/2009070358010100.htm
جنسی خواہش کی تسکین - ذریعہ اور مقصد:
                زندگی کی دیگر ضروریات کی طرح جنسی خواہش بھی ایک بنیادی ضرورت ہے جو مرد وعورت دونوں کے اندر بلاشبہ فطری طورپر موجود ہے اور اس کی تسکین کا ذریعہ فطری طورپر مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کو ایک دوسرے کا لبا س بتا یا ہے ۔ (ھن لباس لکم وانتم لباس لھن )موجودہ تمام تہذیب یافتہ سماج میں اس کا قانونی طریقہ شادی رہا ہے۔جو ایک مرد اور عورت کے درمیان ہی ہوتا رہا ہے ۔ اسلام نے شادی صرف عورت کے ساتھ ہی حلال قرار دیا ہے ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے فانکحوا ما طاب لکم من النساء(سورہ نساءآیت ۳) اس کی نظر میں شادی جو جنسی خواہش کی تسکین کا جائز ذریعہ ہے، اس کا مقصد انسانی نسل کی بقا اور ارتقا ہے۔اللہ رب العزت فرماتا ہے۔ یاایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء(سورہ نساءآیت ۱) اسی طرح اسلام نے شادی کے بغیر جنسی تسکین کو حرام اور قابل سزا جرم قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ” ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشة وساءسبیلا(سورہ بنی اسرائیل ۲۳) اور ”الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائة جلدة“ (سور نور ۲) اسلام میں زنا کی حد غیر شادی شدہ کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے جب کہ شادی شدہ کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے اور ہم جنسی کی سزا قتل ہے۔
جب ہم شادی اور اس کے عمل پر غور کرتے ہیں تو اس سے ایک خاندانی نظام اور سماجی عمل میں نظم وضبط کی بنیادی کڑی کا تصور صاف ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی شادی کے عمل سے ایک کنبہ پھر خاندان کا وجود عمل میں آتا ہے ۔کئی خاندانوں سے سماج بنتے ہیں ۔ سماجوں سے ریاست اور ملک کی تشکیل ہوتی ہے ۔ غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کروڑوںاربوں سال پرانی دنیا کے ارتقا اور اس کے نظم وضبط میں شادی کا عمل ہی بنیادی کڑی کا درجہ رکھے ہوا ہے۔ اس لیے اگر شادی کے بغیر جنسی خواہش کی تسکین کو آزادی دے دی جائے یا ہم جنسی کو جائز قرار دےدیا جائے تو کائنات میں ایک بڑا انتشار برپا ہوگا اور عالمی سماج کا توازن بگڑ جائے گا ۔ انسانی نسل کی افزائش بند ہوجائے گی۔ انسان انسان کا دشمن ہوجائے گا ۔ سارے رشتے ناطوں کا تصور بھی مٹ جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا تصور زندگی کے تقاضوں، سماجی نظم وضبط کی پابندیوں اور جوابدہیوں سے فرار کی راہ ہے۔
ہم جنس پرستوں کے دعوے اور ان کی حقیقت:
ہم جنس پرستوں کا پہلا دعوی یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں اور یہ فرد کی آزادی کا معاملہ ہے۔ یعنی ہم جنس پرستی میں کسی دوسرے شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی نہ اس کا کوئی جانی ومالی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ دو بالغ افراد کی باہم رضامندی سے انجام پاتا ہے ۔ اس لیے یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ ہم جنس پرستوں کایہ بھی دعوی ہے کہ یہ فطری اور جبلی عمل ہے جو انسانوں کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جرم وہی ہے جس سے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچتا ہو ۔ کیا جو عمل قوانین فطرت کے خلاف ہو ، فرد ، سماج یا قوم کی زندگی اور بقا کے لیے مضر ہو، جرم نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو خودکشی کو کس زمرے میں رکھا جائے گا جب کہ اس سے کسی دوسرے شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اگر اس طرح کی حرکتیں جن سے انسان کی اپنی جان تلف ہوسکتی ہے جرم ہے تو ہم جنسی بھی یقینا ایک جنسی جرم ہے جس کے اثرات انسان کی صحت اور اخلاقی قدروں وغیرہ پر پڑتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم جنس پرستی سے انسانی صحت پر کیا اثرات پڑے ہیں:
Centre of Disease Control and Prevention کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق 1998میں امریکہ میں پائے جانے والے جملہ AIDSزدہ مریضوں میں 54%ہم جنس پرست مرد تھے اور ان میں تقریبا 90%افرامیں یہ مرض ہم جنس پرستی کے نتیجے میں آیا ۔ امریکہ میں HIVاور AIDSکا بہت بڑا اثر ہم جنس پرست مردوں کے نیتجے میں ہے۔ “
” ایک سروے مطالعہ میں یہ معلوم ہوا کہ 200ہم جنس پرست مردوں میں تقریبا 67.5%جبکہ سو دیگر(Heterosexual)افراد میں محض 16فیصد آنتوں کی بیماری (intestinal Parasites) میں مبتلا پائے گئے۔ اس مطالعہ نے یہ ثابت کیا کہ ہم جنس پرست لوگ پیتھو جینک پروٹوزوا کے لیے بہترین مقام ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو پیٹ کے فلواور جگر کی بیماریوںکا سبب بنتے ہیں۔ “ (ہم جنس پرستی - دعوے اور حقائق (رفیق منزل اگست ۹۰۰۲)
ہم جنس پرستی سے نہ صرف جسمانی مرض بلکہ نفسیاتی مرض بھی لاحق ہوتا ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں چند رپورٹ :
” کئی مطالعہ جات نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم جنس پرستوں میں نفسیاتی بیماریاں ، ڈرگس کے استعمال ، اقدام خود کشی ، تناؤ اور دباؤ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی کے بعض حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ سماج ان کے جنسی رویہ کو قبول نہیں کرتا اور نتیجہ میں وہ تناؤ اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اس نام نہاد تعصب کو نوجوانوں کے اندر بڑھتی نفسیاتی بیماریوں کی وجہ گردانتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہم جنس پرستی کا عمل بجائے خود اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ General Psychiatry میں شائع کردہ ڈچ اسٹڈی نے یہ ثابت کیا کہ ہم جنس پرستوں میں نفسیاتی بیماریوں کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس ریسرچر کا ماننا تھا کہ ہم جنس پرستی کی بنا پر صرف جوانی میں ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی یہ امراض پائے جاتے ہیں۔“ (ہم جنس پرستی - دعوے اور حقائق (رفیق منزل اگست ۹۰۰۲)
یہ شواہد ہمیں بتاتے کہ ہیں ہم جنسی کے اثرات انسان کی صحت اور جان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ اس لیے یقینا اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے اور دفعہ 377کا نفاذ نہایت ضروری ہے۔
ہم جنس پرستوں کا دوسرا دعوی یہ ہے کہ یہ فرد کی آزادی کا معاملہ ہے ۔ آخر فرد کی آزادی کا کیا مطلب ہے ؟ کیا انسان کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے کہ وہ جو چاہے کریں ۔ کیا اس طرح آزادی دے دینے سے سماج،قوم اور ملک میں انتشار نہیں برپا ہوگا اور سماج کی سا لمیت نہیں بگڑے گی۔ اگر جنسی رویہ میں اسی طرح آزادی دے دی جائے تو کیا سماج پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس معاملہ میں ویسی ہی آزادی دے دی جائے جیسا کہ ہم جنس پرستوں کی خواہش ہے تو ہمارا خاندانی نظام ہی تحلیل ہوجائے گا۔ لوگ گھر بسانا چھوڑ دیں گے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ بچے پیدا کرنے سے انحراف کریں گے دوسری طرف جو بچے جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں پیدا ہوں گے ان کی پرورش کا مسئلہ بھی پیدا ہوگا۔ذرا سوچئے کہ کیا اس کے بعد ہماری کائنات کا رنگ ایسا ہی رہے گا جیسا کہ ابھی ہے۔
 فرد کی آزادی کے مسئلہ کے پیش نظر ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگا کہ کیا انسان اگر چاہے تو مقدس اور محترم رشتوں کے ساتھ بھی جنسی تعلقات کو قانونی حیثیت دےدی جائے۔کیا اس کے بعد ماں ، باپ، بھائی اور بہن جیسے دیگر مقدس رشتے باقی رہیں گے یا ان کی کوئی اہمیت رہ جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ ان رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی اور انسان اپنے بنیادی وصف ”انسیت “سے بھی محروم ہوجائے گا۔انسان وحشی ہوجائے گا۔اس میں جانوروں کی صفت پیدا ہوجائے گی۔ اگر کوئی معاشرہ اتنا گرجائے تو کیا اس کے بعد بھی اسے ہم تہذیب یافتہ ہی کہیں گے؟یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستوں کے نزدیک ہم جنس پرستی کا مسئلہ مذہبی یا اخلاقی نہیں ہے بلکہ وہ اس معاملہ میں مذہبی اور اخلاقی پابندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔
ہم جنس پرستوں کا دعوی ہے کہ یہ عمل انتخاب پرمبنی نہیں بلکہ فطری ہے ۔ حالانکہ کسی عمل کے اختیاری نہ ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ فطری یا اضطراری ہے بلکہ یہ ماحول اور افراد کی صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مثلا انسان اگر کسی نشہ آور چیز کا عادی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اس کی فطری خواہش ہے بلکہ یہ اس کی بری صحبت کا نتیجہ ہے ۔ اسی طرح اگر انسان ہم جنس پرستی کی ذہنیت رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اس کی صحبت ایسے ہی لوگوں کے درمیان ہے جو اس طرح کی بے راہ روی کے شکار ہیں۔ ہم جنس پرستی کی وجہ قرآن فحش کام اور نفسانی خواہشات کی پیروی کو قرار دیتا ہے۔
 ”اس کے علاوہ انسان کی جسمانی ساخت اور اناٹومی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے ہے کہ انسانی جسم کی تشکیل اس عمل کے لیے ہوئی ہی نہیں ہے ۔ اس کے لیے میڈیکل سائنس نے کئی ثبوت فراہم کئے ہیں۔ ہم جنس پرستی انسانی جینس (Genes)کا بھی نتیجہ نہیں ہوتی “ (ہم جنس پرستی - دعوے اور حقائق ،رفیق منزل اگست ۹۰۰۲)
ہم جنسی کے جواز میں ہم جنس پرستوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ جینیاتی ہے اور جانوروں میں بھی یہ عمل پایا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ مطالعہ سے یہ حقیقت بالکل واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ جینیاتی ہے۔ اگر جینیاتی ہوتا تو دنیا میں اکثر لوگ اس کو کرتے آتے ۔ جہاں تک جانوروں کا معاملہ ہے تو بعض جانور اپنے ہی ہم جنس کو اپنی رزق کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ کیا انسان کو بھی یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ اپنے جیسے کسی انسان کے خون اور گوشت سے اپنے شکم کی آگ بجھا ئیں۔
ان کے علاوہ ہر بالغ شخص بشرطیکہ وہ کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار نہ ہوجانتا ہے کہ مردوزن کے جسم میں جنسی حس رکھنے والے مخصوص اعضا ہیں اورجنسی خواہش کی تسکین کے لیے مرد کا عورت اور عورت کا مرد کے انہی اعضا کی طرف فطری رغبت اور میلان ہوتا ہے اور صحیح معنوں میں جنسی خواہش کی مکمل تسکین انہی اعضا کے ارتباط سے ہوسکتی ہے۔ اسی طرح نہ جنسی خواہش کی مکمل تسکین ان اعضا کے ملاپ سے ہوسکتی ہے جو اس کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں۔ مثلا دوعورتیں اپنے ان اعضا کو جن میں جنسی حس موجود ہے ، اگر ملاتی ہیں تو مکمل اور واقعتا تسکین ممکن نہیں ہے نہ ہی دو مردوں کے اس عمل سے جو تقریبا مباشرت کی شکل رکھتا ہے حقیقی رغبت اور میلان ختم ہوسکتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ تصور ہے کہ انسان کی فطرت میں جنسی خواہش ودیعت ہی اس لیے کی گئی ہے کہ اس سے انسانی نسل کی افزائش ہو جو نسل انسانی کی بقا اور ارتقا کا ذریعہ ہے۔ظاہر ہے کہ یہ مرد اور عورت کے فطری تعامل ہی سے ممکن ہے۔
جب انسان بالغ ہوتا ہے تو اس کے اندر جنسی خواہش جاگتی ہے اور اس کی تسکین کے لیے فطرتا اس کا میلان حقیقی ذریعہ ہی کی طرف ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے نظام میں جو اس کا جائز ذریعہ ہے یعنی شادی اس میں بلاوجہ تاخیر کی جاتی ہے۔ اور جب خوف خدا اور خوف آخرت وغیرہ کا تصور نہیں ہو تو انسان ناجائز ذریعہ کی طرف رخ کرتا ہے۔ گرچہ ہمارے ملک میں ناجائز طور پر اس کی تسکین کے لیے آئینی پابندیاں ختم کردی گئیں ہیں یعنی شادی سے قبل ازدواجی تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ اب انسان آزاد ہے کہ باہمی رضامندی سے جس سے چاہے جانوروں کی طرح اور جیسے چاہے جنسی خواہش کی تکمیل کرے اس کے باوجود ہر شخص کو ناجائز طور مواقع نہیں ملتے ہیں اور اگر ملتے بھی ہیں تو ضروری نہیں کہ جتنی خواہش ہو اتنا موقع بھی مل جائے۔ کیونکہ آئینی پابندی ختم ہونے کے باوجود عام آدمی ایسے لوگوں کو برا جانتا ہے پھر یہ کہ ایسی لڑکیوں کے لیے کچھ مسئلہ بھی ضرور پیدا ہوتا ہے ۔اس لیے اس طرح کے لوگ کچھ نہ کچھ سماجی پابندیوں سے ضرور خوف کھاتے ہیں۔ ان سب عوامل کی وجہ سے انسان غیر فطری طریقہ کی طرف رخ کرتا ہے۔پھر ایسے دو شخص مل کر اپنی جنسی انارکی کو پورا کرتے ہیں جو اسی طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہوتے ہیں۔ اس سے فوری طور پر جنسی جذبہ کمزور پڑجاتا ہے اور اس کو جبلی،جینیاتی عمل اور جنسی تسکین کافطری ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اس طرح کی خواہش چڑھتی عمر کے بچوں میں پائی جاتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا فطرتا ہوتا ہے بلکہ اس عمر میں جب بلوغت کی ابتدا ہوتی ہے انسان میں Physical Energyتیز ہوتی ہے ۔ اس لیے جنسی خواہش بھی تیز تر ہوتی ہے۔ جو بچے اس کا میلان رکھتے ہیں زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جن کی تربیت میں کمی ہوتی ہے اور ایسے ماحول میں پرورش پائے ہوتے ہیں جہاں برائیاں پھیلی ہوتی ہیں۔ عام طور پرصحیح تربیت اور نگہداشت کی کمی کی وجہ سے غلط صحبت ، فحش لٹریچر اور میڈیا کے اثرات ان کے ذہنوں میں جڑ پکڑ لیتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں ہم جنس پرستی کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے جو فحش کام ، نفسانی خواہشات ، تربیت کی کمی، شادی میں مشکل اور تاخیر کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ یہ اللہ ذوالجلال کے غضب وغصہ کا ذریعہ اور اس کے عذاب کا محرک ہے۔ یہ تصور سخت قابل مذمت اور انسانی برادری کے لیے مہلک ہے جس سے کلی اجتناب ضروری ہے۔ میرے خیال میں اس سے بچنے کاطریقہ یہ ہے کہ ہم اسلام کوبجائے رسم ایک تصور اور نظام حیات کے اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کوجو مسائل در پیش ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو ایک تصور اور نظام حیات کے طور پر نہ خود اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کیا نہ ہی اسے دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ آج زندگی متنوع ہوچکی ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ کی اپنی Ideologies جو مختلف تصوراتی طبقوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ کسی بھی شعبہ میں جب کوئی نیا نظریہ پیش ہوتا ہے ہر تصور اتی طبقہ اس سے متعلق اسی زبان میں اور اسی طریقہ پراپنا تصوراتی نظریہ پیش کرتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی جانب سے ایسے اقدام نہیں ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے اسلامی نظریات کو زندگی کے ہر شعبہ میں عالمی تقاضے کے مطابق پیش کیا جائے۔ہم جنسی سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نفس کی پیروی اور فواحشات سے بچا جائے۔ اپنے اوپر اللہ کا خوف طاری کیا جائے۔ اسلام نے رہنے سہنے اور معاشرت کے جو آداب بتائے ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے اور بچوں کی شادی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کی جائے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے علاقوں میں بود وباش اختیار کرنے سے پرہیز کریں جہاں یہ بدکاری عام ہو۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ایسے لوگوں سے نفرت کی جائے اور ان سے تعلق نہ رکھا جائے جو اس فحاشی کو جائز سمجھتے ہیں اور اسے سماج اور ملک میں عام کرنا چاہتے ہیں جو فساد کا ذریعہ اور بنی نوع انسان کی ہلاکت وبربادی کا باعث ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیوں کو عام کرنے میں میڈیا کا بڑا رول ہے ۔ وہ بہت سی بری خبروں کو بڑے ہی نمایاں انداز میں شائع اور نشر کرتی ہے اس کے علاوہ بہت سے برے تصورات کو خوبصورت نام دے کرذہنوں پران کا ایسا نقش مرتسم کرتی ہے جن سے معصوم ذہنوں میں برائیاں جگہ بنالیتی ہیں اور ان کا حصول ایک مقصد بن جاتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے پرنٹ میڈیا یا الکٹرانک میڈیا جو برائیوں کو نمایاں کرتے ہوں ان سے پر ہیز کریں تاکہ ان پراور ان کے معصوم بچوں پر ان کے اثرات نہ پڑیں۔
اسلام دین فطرت ہے ۔ اس نے جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے یقینا وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہےں ۔ جن میں کچھ کا احساس ہمیں ہوپاتا ہے اور کچھ کا نہیں ۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور جس کے برے نتائج آرہے ہیں اور آتے رہیں گے۔اگر اس بدکاری سے مذکورہ مسائل نہیں بھی کھڑے ہوئے تب بھی اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا فرض ہے۔
ززز
نوٹ: یہ مضمون صوبائی جمعیہ اہل حدیث بہار کے سیمینار کے لیے لکھا گیا اور پڑھا گیا اور الہدی دربھنگہ میں شائع ہوچکا ہے۔ 

No comments: