مشمولات

Sunday, 21 October 2018

شاہد جمیل کی شاعری میں رنگوں کا آہنگ



شاہد جمیل کی شاعری میں رنگوں کا آہنگ
                شاہد جمیل ایسے کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہیں جنہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف میں نہ صرف طبع آزمائی کی ہے بلکہ استادانہ مہارت اور کمال ہنر کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے غزل، نظم، ماہیے، کہہ مکرنی اور دوہے بھی کہے ہیں اور بارہ ماسے کی طرز پر مہینوں کو عنوان بنا کر نظمیں کہی ہیں۔ان سب میں الگ شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس کا ناقدین نے اعتراف کیا ہے۔
                شاہد جمیل کے کلام میں کئی چیزیں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ان میں سے ایک رنگوں کا استعمال بھی ہے۔ رنگ در اصل پینٹنگ یا مصوری کا ذریعہ ہے لیکن شاعری میں بھی رنگ کی اپنی اہمیت رہی ہے۔شعرا منظر کشی اور تصویر کشی کے لیے رنگوں کا استعمال کرتے رہے ہیں جسے پیکر تراشی اور محاکات وغیرہ کہا جاتا ہے۔ جو شعر پیکر تراشی کے عمل سے گزر تا ہے وہ قاری میں وجدان کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ شاعر کے لیے پیکر تراشی کے عمل کو رنگوں کاصحیح استعمال نہ صرف سہل بناتا ہے بلکہ پینٹ اور برش کے مقابلہ میں لفظوں سے بنائی جانے والی تصویر میں ابھار اور جان پید ا کردیتا ہے۔ رنگوں کے درست Combination سے جو Shadeبنتا ہے اور اس سے شاعر جو منظر کشی کرنا چاہتا ہے اس کی زندہ و سلامت تصویر قاری کے سامنے پھرنے لگتی ہے اور ذہن پر اس کا دیرپر اثر مرتسم ہوتا ہے۔
                شاہد جمیل نے بھی اپنے کلام میں رنگوں کے استعمال سے خیال کی منظر کشی اور تصویر کشی کے رنگ بھرنے کی جوکوشش کی ہے وہ کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کا اعتراف ماہرین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق لکھتے ہیں :
                ‘‘شاہد جمیل نئی اور منفرد آواز کے مالک ہیں۔ ہلکے اور گہرے رنگوں کی شاعری کی بنت کاری کا تانا بانا تیار کرنے کا فن انہیں آتا ہے۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سرمئی جسم، جاں سرمئی
درد کے سب جہاں سرمئی
....
بھنور میں قوسِ قزح
ہر ایک ساحل سیاہ
....

غم کو دونوں معتبر!
سرخ دل کہ داغ سرخ
....
گل پہ خزاں تھی تو کیا؟
باغ، شجر، آب سبز
دل کا کھنڈر زرد زرد
یاد کی محراب سبز
فلک سے پوچھئے آداب مقتل
شفق کی شام کا مطلب گلابی
تماشے دیکھنا پھر آسماں کے
سفیدی ہو رہی ہو جب گلابی
....
میں دل کی دھند پہ الحاد لکھ دوں
گلابی شب کا ہر مذہب گلابی
میں اک رات ہر رات بے خواب
تو اک خواب ہر دم سنہرا
....
تو ازل ہے یا ابد کچھ نہیں
آسماں! سب تیرے منظر نیلگوں
                مذکورہ اشعار جو یونہی جہاں تہاں سے اٹھا لئے گئے ہیں ان میں بھڑکیلے رنگ کے ساتھ اودے اور پھیکے رنگوں کا یہ امتزاج شاہد جمیل کی شاعری میں معنوی تہ داری پیدا کرتے ہیں اور ایک فکر اور بیان کے ظاہری سطح کے پیچھے احساس کا ایک سلسلہ اور در وبست ہے جو قاری کو دور تک لے جاتا نظر آتا ہے۔   
لہو کا سبز پرندہ! گماں کا سرخ آکاش
یقیں کے پاؤں میں زنجیرِ درد، جھوٹ کہ سچ؟
....
یاد سی چیز کوئی لا کے شفق پر رکھ دی
شام کو شام سے اس طرح جدا ہم نے کیا
....
سفید تو، میں سفید
ترے مرے دل سفید
....
                شاہدجمیل رنگوں کو علت اور معلول کے ساتھ اس طرح الٹ پھیر کرتے ہیں کہ قاری ایک نتیجہ تک ضرور پہنچتا ہے لیکن کسی ایک مقام پر ٹھہر کر نہیں رہ جاتا ہے بلکہ دیرتک سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ شاعر ہم سے آخر کیا کہنا چاہتا ہے ؟ خود قاری زندگی کے کئی تجربات میں کھوجاتا ہے اور اس سے قبل اس کو اپنے تجربہ سے جو بصیرت ملی ہوتی ہے اس سے پرے بھی اس کی نظر جاتی ہے اور اس کی نظروں میں ایک نئی روشنی پھیل جاتی ہے۔ صبح سفید دھند لکی روشنی اس کے ذہن کو روشن ومنور کئے دیتی ہے۔
سفید خواب، خواب کی سحر سفید
دھنک ہوئی سیاہ، بحر و بر سفید
....
سرخ شب، چراغ سرخ
گل سیہ تھا، باغ سرغ
....
یوں نہیں لوٹی دعا
لب سیہ، فریاد زرد
دھار دار فکروں کا ایسے نمونے شاہد جمیل کی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔
                شاہد جمیل نے مہینوں اور ان کے مخصوص اوصاف اور تاثیر سے ابھرنے والے احساسات کو بھی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ایسے کلام میں بھی انہوں نے رنگوں کے امتزاج سے منفرد آہنگ پیدا کیا ہے جو محسوس کرنے کے قابل ہے۔
                شاہد جمیل کی شاعری میں رنگ کے آہنگ کے ساتھ ساتھ فکرکا آہنگ بھی بدرجہ اتم موجود ہے اور قاری کی توجہ مبذول کراتی ہے۔ عام طور پر غزلوں کے مقابلہ میں نظموں میں اس کی زیادہ گنجائش رہتی ہے ۔ شاہد جمیل کے یہاں بھی نظموں میں بڑی فکر انگیزی ہے اور وہ فکر کو فن کی سطح پر برتنے میں بھی مکمل کامیاب نظر آتے ہیں۔ ہر قوم اور ہر ملک میں نئے سال کو ایک نئے انداز میں دیکھنے اور خوشی کے پیام کے طور پر دیکھنے کی روایت رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ نیا ہے۔ اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوں اور حوصلہ ہو تو ہر صبح نئی مسرت کا پیغام لاتا ہے۔ لیکن نیا سال یا نیا دن اسی کے لیے نئی امیدووں کا پیغام بنتا ہے جو خود کو حالات کے دھارے کو موڑنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتا ہو۔ شاہد جمیل نے بھی اپنی طویل نظم نیا سال میں ان تمام امیدوں کو پیش کیا جاتا ہے جو نئے سال سے وابستہ کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے نئے سال پر امیدوں کی ابتدا کا آغاز کیا ہے اور انسان کے دل میں جس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہوں ان سب کو شاعری کے رنگ میں پیش کرتے ہوئے جو نتیجہ پیش کیا ہے وہ قاری کو چونکاتا اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
ہم جس دن خود بدلیں گے
اس روز نیا سال آئے گا
                مجموعی طور پر شاہد جمیل کی شاعری میں عصری حسیت فنی ہنر مندی کے ساتھ جگہ بناتی ہے اور روایتوں کی امین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک منفرد آواز اور منفرد شناخت بنانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔
٭٭٭

No comments: