مدارس میں اردو زبان وادب کی تعلیم
چند زاویئے
زبان یعنی گویائی
اللہ کا عطیہ اور انسان کا اعزاز ہے۔ زبان( علاماتِ اصوات واشکال اور اشارات کا وہ
نظام جومخصوص لسانی سماج کے اظہار خیال کا عام ذریعہ ہیں) سماج کی ضرورت ہے ۔ ہر سماج
کی کوئی نہ کوئی زبان ہے اور سماج ہی سے کسی زبان کی بقا ہے۔ کسی زبان کا ادب خواہ
کتنا ہی توانا کیوں نہ ہو اگر اس زبان کا رشتہ سماج سے کٹ جائے یا سماج اس زبان سے
رشتہ توڑنے لگے تو ادب لاکھ سر مارے اس زبان کو باقی نہیں رکھ سکتا ہے۔ جب کوئی زبان
زندگی کی ترقی کی رفتار کے ساتھ نہیں چلتی ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ سماج کا رشتہ اس سے
کمزور ہوتا جاتا ہے۔ البتہ ادب زبان کو ترقی دیتا ہے ، اسے علوم وفنون کے بیان پر قادر
کرتا ہے۔سماج اور زبان کا رشتہ استوار ہے تووہ اس کی بقا اور فروغ کا ذریعہ ہے۔ہاں
اگر کسی زبان میں ادب وجود میں نہ آئے یا ادبی سرگرمیاں سرد پڑجائیں تووہ زبان قوت
ترسیل کی کمی کی وجہ سے زوال کا شکار ہوجائے گی حتی کہ ایک دن اس کا وجود بھی مٹ جائے
گا۔
اردو
ہندوستانی سماج کی زبان ہے۔ اتنا تو ہر شخص ، جو اردو کی تاریخ کا ذرا بھی علم رکھتا
ہے ، جانتا ہے کہ اردو کی پیدائش ، فروغ اور سماج سے اس کا رشتہ استوار کرنے میں مبلغین
اسلام کی غیر معمولی اور ناقابل فراموش خدمات رہی ہیں۔جب اردو میں لوگوں نے غوغا کرنا
شروع کیا تھا اس وقت ان مبلغین نے اس زبان کو انگلی پکڑائی،لڑکھڑاتے قدم کو سہارا دیا
اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دلوں پر تو حکومت کی ہے زبان کے
دھارے کو بھی نئی سمت میں موڑنے میں سہارا دیا۔ اسلام اور اخلاقی تعلیمات کے لیے انہوں
نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہی سہی جو رسالے ، کتابچے لکھے اور دوہے کہے وہی بعد میں ادب
کا پیرایہ اختیار کرگئے۔ یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ زبان کے تئیں ان کی یہ کوشش
شعوری نہیں تھی ۔ ان کا مقصد تو اسلام کی تبلیغ اور تعلیم تھا ، زبان تو بس ذریعہ اور
واسطہ تھی۔ پھر زبان نے جب ترقی کی اور ادبی صورت اختیار کرلی اس وقت سے تا حال ان
مبلغین نے اسی زبان کو ذریعہ بنایا اور اسی زبان کے واسطہ سے عوام سے ان کا رشتہ آج
بھی مضبوط ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس میں مذہب کے حوالہ سے اردو زبان میں جو کام
ہورہا ہے دوسری سطح پر وہ بات نہیںہے۔ آج بھی اردو میں لکھی اور شائع ہونے والی کتابوں
میں مذہبی کتابوں ، اردو میں شائع ہونے والے رسالوںمیں مدارس سے نکلنے والے رسالوں
کی تعدادقابل لحاظ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کتابوں اور رسالوں کو بڑی تعداد میں قارئین
بھی دستیاب ہیں۔ جبکہ ادبی رسالے اور کتابیں قارئین کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔
لیکن اس حقیقت
کے اظہار میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ چند ابتدائی صوفیا سے قطع نظر ان مبلغین اسلام
کی خدمات کو اردو زبان وادب کے جائزے اور تاریخ لکھتے وقت نظر انداز کرنے کی کوشش کی
گئی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ایک ہی ادیب جو مذہبی علوم میں بھی قدر اول کی تصنیفات کا
خالق ہے اور جو تصنیفات ادب کی چاشنی سے بھی خالی نہیں ہیںاور ہو بھی نہیں سکتیں، اسی
کی غیر مذہبی یا فکشن اور شاعری میں بھی تخلیقات ہیں ، تو فکشن اور شاعری کو تو تاریخ
لسان اور جائزے کا موضوع بنایا جاتا ہے لیکن ان کی مذہبی تصنیفات کو قلم انداز کردیا
جاتا ہے۔ حالانکہ ان مبلغین اسلام کا رشتہ آج بھی اس زبان سے اس سے زیادہ مضبوط ہے
جتنا کہ ابتدا میں رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سلسلہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو
اردو پڑھنے اور اردو سے اپنا رشتہ باقی رکھنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔کیونکہ تہذیب کا
رشتہ صرف ملک وقوم سے نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں گہرا مذہب اور عقائد سے ہے۔تہذیب کی
تشکیل میں عقائد ومسلمات ہی اہم عناصر ہیں۔ اگر ہندوستانی مسلمان کسی دوسری زبان میں
جس سے سماج کا مضبوط رشتہ ہوجائے، اسلامی تعلیمات اور تہذیب وتاریخ کے سرمائے کو اس
طرح منتقل کرلیتے ہیں کہ موجودہ نسلوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں بھی اس زبان کے
توسط سے اپنے مذہب وتہذیب سے پوری طرح وابستہ رہ سکیں تواس کے بعد کوئی ضرورت نہیں
رہ جاتی کہ وہ اردو پڑھیں اور اس کو باقی رکھیں ۔ظاہر ہے ان کی جو زبان ہوگی جو ان
کی سماجی اور مذہبی ضرورتوں کو کماحقہ پوری کرے گی وہی ان کی تہذیب کی محافظ اور معلم
بھی ہوگی۔ حالانکہ یہ کام بالکل آسان نہیں ہے ۔ ایسا ہوتا بھی ہے تو غیر شعوری طور
پر اور کئی نسلوں اور صدیوں کے بعد فطری انداز میں۔
ان مبلغین کا
رشتہ خانقاہوں کے ساتھ ساتھ مدارس سے بھی بہت مضبوط رہا ہے۔ ابتدامیں جب باضابطہ مدارس
نہیں تھے تو دراصل یہی خانقاہیں تعلیم وتدریس کا ذریعہ تھیں۔ بعد کے ادوار میں جب مسلمانوں
کے تہذیبی زوال، علمی تنزل اور شناخت کی گمشدگی کا مسئلہ پیدا ہوا تو ملک بھر میں مدارس
ومکاتب کا قیام عمل میں آیا تاکہ مسلمانوں کو اپنے مذہب سے جوڑے رکھا جائے۔ اس کے لیے
کتابیں لکھی گئیں، عوام کے دلوں پر دستک دینے کے لیے وعظ ونصیحت کا کام شروع کیا گیا
۔ ان کاوشوں کے نتیجے میں مسلمانوں میں تہذیبی بیداری آئی اور اپنے مذہب سے ان کی وابستگی
مضبوط ہوئی۔ آج بھی مسلم عوام کا ان مدارس سے رشتہ مضبوط ہے۔ اپنے شرعی مسائل کے حل
کے لیے انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ چنانچہ ان مدارس میں اردو زبان کا جائزہ لیتے ہوئے
یہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعتایہ لوگ اردو زبان کا رشتہ عوام سے اس طرح مضبوط رکھے ہوئے
ہیں کہ شاید اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو زبان سے ان کا رشتہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا کہ
ابھی ہے۔
مدارس
میں اردو کی صورت حال کا جائزہ درج ذیل حوالوں سے لیا جاسکتا ہے:
۱۔ مدارس میں اردوزبان وادب کی تعلیم
۲۔ مدارس میں اردو بحیثیت میڈیم
۳۔ علمی خدمات: تصنیف وتالیف اور مضمون نویسی
کے حوالہ سے
۴۔ وعظ ونصیحت حیثیت سے
۱۔ مدارس
میں اردو زبان وادب کی تعلیم: اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ
مدارس میں ابتدائی(مکاتب) سطح پرہی زبان کی تعلیم دی جاتی تاکہ طلبہ اردو لکھ پڑھ سکیں
اور اپنے خیالات کی ترسیل کرسکیں۔ اعلی سطح پر اردو کی تعلیم زبان یا ادب کی حیثیت
نہیں ہوتی ہے۔خاص طور پر وہ مدارس جو نظامیہ کہلاتے ہیں ان میں اردو زبان وادب کی تعلیم
کا نظم نہیں ہے۔ اس کی تعلیم کے لیے جگہ نکالنا بھی خاصا مشکل ہے۔ البتہ بہار کے تناظر
میں وفاقی مدارس میں ،جو بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں ،اردو کی تعلیم تحتانیہ، وسطانیہ
اور فوقانیہ کی سطح پر ایک زبان کی حیثیت سے،سینئر سکنڈری (مولوی) کی سطح پر 200 نمبرات
کی اردو پڑھائی جاتی ہے ۔اوپر کی سطح پر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی سے
عالم اردو (ڈگری) اور فاضل اردو (پی جی) میں کورسز موجود ہیں۔لیکن یہاں بھی اب جبکہ
پی جی میں سیمسٹر سسٹم آگیا ہے مولانا مظہر الحق یونیورسٹی نے پرانا دھرا باقی رکھا
ہے۔ یہاں وائیوا ۔ووسی کا کوئی نظم نہیں کیا گیا جو تمام پی جی کے رسمی تعلیمی نظام
میں موجود ہے۔ اسی طرح اسپیشل پرچوں کے انتخاب کو بھی جگہ نہیں دی گئے۔ پوری طرح سے
مدرسہ بورڈ کے نصاب کو اپنا لیا گیا ہے جس میں وقت کے لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت
محسوس نہیں کی گئی ہے۔ ان کورسوں کے نصاب کو بہار کی دیگر یونیورسٹیوں کے بی اے (اردو)
اور ایم اے (اردو) مماثل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ان میں تعلیم کی صورت حال کا
بیان ناگفتنی ہے۔مدرسہ بورڈ سے ملحقہ مدارس جو عالم اور فاضل کے لیے منظور ہیں وہاں
بھی عالم اور فاضل کی تعلیم کا باضابطہ نظم عام طور پر نہیں ہے۔ خاص طور کی گنجائش
بھی بدقت تمام ہی نکالی جاسکتی ہے۔ البتہ اعلی سطح کے نظامیہ مدارس میں کلاسیکل شعرا
کے دواوین طلبہ کے عام مطالعہ میں رہتے ہیں۔ ان مدارس میں طلبہ کے اندر مافی الضمیر
کی ادائیگی اور اظہار خیال کی صلاحیت پیدا کرنے کی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے۔اس کا
میڈیم اردو ہی ہے۔اس میں خالص زبان پر بہت زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ الفاظ اور ان کی جنس
کا صحیح استعمال، تلفظ اور حروف کے مخارج کی صحیح ادائیگی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گفتگو
کو مؤثر
بنانے کے لئے اچھے اور سلیقہ مند اظہار کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ اس سے طلبہ کی زبان
میں ادبی چاشنی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ دوران گفتگو اشعار کا بر محل استعمال بھی کرتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت
کردی جائے کہ مدارس میں افسانوی ادب کے مطالعہ کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ طلبہ میں ان کے مطالعہ کی زیادتی کی وجہ سے مطلوبہ علوم کے حصول میں بے توجہی
اور غیر اخلاقی موضوعات کی طرف رغبت کا امکان رہتا ہے۔ البتہ ان میں ادبی مذاق پیدا
کرنے کے لیے بیت بازی وغیرہ کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے جس میں طلبہ بڑی تعداد میں
اردو، عربی اور فارسی اشعار یاد کرتے ہیں۔
مدارس میں عربی
ادب کی با ضابطہ تعلیم ہوتی ہے ۔ لیکن عربی ادب کے حوالہ سے بھی تنقید اور زبان کی
تاریخ نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ اس جگہ پر طلبہ میں تجزیاتی اور تنقیدی ذہن پیدا کرنے کے
لیے اردو تنقید کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ اردو بحیثیت میڈیم: مدارس
میں تعلیم کا میڈیم اردو ہے ۔ خواہ جو علم پڑھایا جائے اس کا میڈیم اردو ہی ہوتا ہے۔
جبکہ اکثر کتابیں عربی یا فارسی میں ہوتی ہیں لیکن ان کی تدریس صرف اردو میں ہوتی ہے۔
اسی میڈیم کا فیضان ہے کہ مدارس کے فیض یافتہ کی زبان کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی ریشم
کی طرح ملائم، نرم سیر دریاؤں
کی طرح رواں، موسم بہارکی ہلکی ہلکی ہواؤں
کی طرح مسام جاں کو تروتازہ کرنے والی اور خوشبودار ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مدارس کے
متعلقین محض میڈیم کی سطح پر ہی اردو کی واقفیت رکھنے کے باوجود علم وادب کی سطح پر
لازوال نقوش چھوڑتے ہیں۔
۳۔ علمی خدمات: مدارس میں جس طرح کی کتابیں لکھی جاتی
ہیں انہیں اسلامی علوم ، اسلامی تحقیقات، فتاوی نویسی،حاشیہ نویسی،شروح، مکتوب نگاری،
تذکرة العلمائ، منظوم تراجم وتفاسیر، خطبات، تصوف، تعلیم ، درسیات، سیر وسوانح ،ترجمہ
(عربی وفارسی سے)، ملفوظات اور تواریخ کے خانوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ عام طور پر مدارس
میں لکھی جانے والی کتابیں اسلامی علوم سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔تاریخی کتابیں بھی مذہبی
پس منظر رکھنے والے واقعات وعلاقوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان میں تاریخی بصیرت مذہبی پس
منظر میں ہی قوم کی برتری وتنزلی کے اسباب وعوامل کا ادراک کرتی ہے۔یہ بات صحیح ہے
کہ مدارس میں کتابوں کی اشاعت کی رفتار سست ہے۔ اس کی وجہ ان کے وسائل کی کمی ہے۔ کتابوں
کی طباعت کے لیے انہیں کہیں سے کوئی تعاون نہیں ملتا ہے اور نہ ملازمت میں اس کو وزن
دیا جاتا ہے نہ ہی ان کی اپنی مالی حیثیت مستحکم ہوتی ہے کہ وہ کتابیں شائع کراسکیں۔
اگر اس طرح کا انتظام ہوجائے تو گراں قدر اور معرکتہ الآرا کتابیں منظر عام پر آسکتی
ہیں۔
چونکہ مدارس
میں ادبی اصناف اور ان کے اجزائے ترکیبی کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اس لیے وہاں جو سیرت
اور سوانحی خاکے جیسی ادبی اصناف میں کتابیں یا مضامیں لکھے جاتے ہیں ان میں فنون کے
اصولوں کی پاسداری کا پورا پورا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ لیکن اگر مدارس سے نکلنے والی
دیگر سیرت کی کتابوں اور سوانحی خاکوں سے موازنہ کیا جائے تو ان میں اصولی طور پر قدرے
یکسانیت ضرور ملتی ہے ۔ اس سے ایسا لگتا ہے ان کے ذہن میںکوئی مشترک اصول ضرور کام
کرتا ہے۔ مدارس کے اساتذہ اور طلبہ میں مضامین لکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔یہ مضامین
، اصلاحی ، صحافتی، تجزیاتی اور تعلیمی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔
بہت سے مدارس
سے اردو زبان میں اصلاحی وتربیتی اور علمی رسالے نکلتے ہیں۔ ان کی تعداد اردو میں کثیر
ہے۔ مدارس سے نکلنے والے رسالوں میں لکھنے والے مدارس کے متعلقین ہی زیادہ ہوتے ہیں۔
ان میں شائع ہونے والے مضامین میں ملک وملت کے مسائل ومشکلات کے ساتھ ساتھ عوام کی
اصلاح وتربیت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی سماج کا وہ طبقہ جن کے حقوق سلب کرلیے گئے ہیں
ان کی بازیافت کی کوشش کی جاتی ہے نیز تعمیری واصلاحی ادبیات بھی ان میں جگہ پاتے ہیں۔
شاعری کاذوق
ان پر مستزاد ہے ۔ اکثر مدارس میں ایک دو ایسے اشخاص ہوتے ہیں جو شاعری سے ذوق رکھتے
ہیں۔ یہ حضرات غزل، نظم، حمد ونعت اور منقبت جیسی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ لیکن
یہ ذوق محض ذائقہ بدلنے کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ اس میں زبان پر تجربہ کا مقصد کارفرما
نہیں ہوتا ہے۔
چونکہ مدارس
کے متعلقین فارسی اور عربی زبان سے واقف ہوتے ہیں اس لیے ان کے ہاں الفاظ کی بچت نظر
آتی ہے ، جہاں انہیں مستعمل لفظ میں ترسیل کی کمی کا احساس ہوتا ہے وہ بہ آسانی نئے
الفاظ وضع کرلیتے ہیں۔ ان کے ہاں الفاظ کا استعمال بالکل صحیح ہوتا ہے اور چونکہ عربی
زبان کے مصادر میں کئی طرح کے افعال کی خاصیتیں پائی جاتی ہیں اس لیے کئی لفظوں کی
جگہ ایک اور مناسب لفظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس طرح اردو لفظیات میں اضافہ ہوتا ہے۔البتہ
وضع اصطلاحات کے اصولوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے نئے الفاظ واصطلاحات میں بسا اوقات
قدرے مشکل پسندی نظر آتی ہے۔ جملوں میں عربی وفارسی کے الفاظ کے کثرت استعمال سے کبھی
کبھی تصنع کا احساس ہوتا ہے ۔ اسی طرح عربی و فارسی سے زیادہ وابستگی کی وجہ سے زیادہ
تر الفاظ کی عربی وفارسی جمع استعمال ہوجاتی ہیں جو ثقالت کا سبب ہوتی ہیں۔اس طرح زبان
کا وہ ٹھیٹ لہجہ پیدا نہیں ہوپاتا ہے جو ٹکسالی زبان کی خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے
ہاں روز مرہ اور محاروں کے صحیح استعمال کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ یہ غلطیاں اردو زبان
کی قواعد سے ناوابستگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ادبیات سے عدم وابستگی کی وجہ سے مضامین
نویسی کے جدید اسلوب کو بھی دیر سے اپنا یا جاتا ہے۔ یہ غالب رویہ کا بیان ہے ۔مستثنیات
کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ علامہ شوق نیموی جیسے باکمال اور ماہر
زبان کا تعلق بھی انہی مدارس دینیہ کے خرقہ پوشوں اور بوریہ نشینوں سے رہا ہے اور پھر
آخری ادوار میں یہاں بھی معیار میں گراوٹ آئی ہے اس کے اثرات سے بھی انکار ناممکن ہے۔
۴۔ وعظ ونصیحت: اہل
مدارس اورعوام کے رابطے کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ یہی ہے۔ عوام اور معاشرہ کی اصلاح
کے لیے وعظ ونصیحت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک مستقل ذریعہ خطبہ جمعہ ہے اور
دوسراغیر مستقل ذریعہ وہ پروگرام ہیں جو وقتا فوقتا کبھی مدارس اور کبھی عوام کی جانب
سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ خطبہ جمعہ کا موضوع اصلاح وتربیت ہوتا ہے جبکہ غیر مستقل پروگراموںمیں
تربیت اور اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ اسلامی علمی موضوعات کا احاطہ بھی کیا جاتا ہے۔
ایسے خطابات علمی موضوعات پر منعقد سیمیناروں کے مقالوں سےکم نہیں ہوتے۔ یہ قرآن واحادیث
، محدثین ، فقہا اور علمائے سلف کے چھوٹے چھوٹے اقوال سے مدلل ہوتے ہیں ۔اقوال اکثر
اردو زبان ہی میں مقتبس ہوتے ہیں۔ ان کی زبان علمی اور عالمانہ ہوتی ہے۔یہ اردو ہی
میں ہوتے ہیں گرچہ علمی موضوعات کے خطابوں کی زبان عربی وفارسی زدہ ہوتی ہے۔ان سب کے
باوجود اگر ان بیان شدہ خطابوں کو تحریری شکل دے دی جائے تو یہ اردوزبان میں اضافے
کی حیثیت رکھیں گے۔
علمی
موضوعات پر ہونے والے خطاب سنجیدہ ہوتے ہیں جبکہ اصلاحی وتربیتی خطاب سنجیدہ اور فکاہیہ
دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔اکثر فکاہیہ انداز بیان اختیار کرنے والے مبلغین کی وہی شناخت
بھی ہوتی ہے۔ روز مرہ کے کھردرے واقعات میں طنز ومزاح کا رنگ پیدا کرنا اور اس میں
اصلاح کا پہلو نکالنا بہر حال ایک فنی مہارت ہے۔ یہاں کے فکاہیہ خطابوں میں ابتذال
و سوقیانہ پن بالکل نہیں ہوتا ہے۔
غیر
مستقل پروگراموں کے بعض اجلاس کے ساتھ اسلامی علمیوتحقیقی موضوعات پر سیمیناروں
کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔ ان میں پڑھے جانے والے مضامین اردو میں ہوتے ہیں۔ یہ سنجیدہ،
مدلل، پرمغز،تحقیقی اور عالمانہ ہوتے ہیں۔ ایسے کچھ بسا اوقات مقالے شائع ہوکر عوام
تک پہنچتے بھی ہیں۔
یہ امور بھی
قابل ذکر ہیں کہ مدارس کے حساب وکتاب اور انتظامی ودفتری امور اردو ہی میں انجام پاتے
ہیں جبکہ فروغ اردو کے لیے قائم یونیورسٹی، کونسل اور اکادمیوں میں بھی یہ بات نہیں
ہے۔ اسی طرح یہاں رابطے کی زبان بھی دوسری زبانون کے اختلاط سے پوری طرح محفوظ ہے۔
ظروف ومکان، علامات واشارات اور روز مرہ کے بنیادی افعال کے نام بھی اردو ہی میں مستعمل
ہیں۔ اس کو ان کی مجبوری کا نام دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ جہاں ہندی
یا انگریزی میں لکھنا پڑھنا ضروری ہوجاتا ہے تو انہی کے افراد اس کام کو انجام دیتے
ہیں۔ان کی ایک اور بڑی خدمت یہ ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ جو عصری علوم کی طرف
رغبت رکھتے ہیں اکثر اردو ہی کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ رمضان، قربانی اور پروگراموں
کے اشتہارات باضابطہ اردو ہی میں شائع ہوتے ہیں۔ یہ مجبوری نہیں بلکہ نیک نیتی، خلوص
اورزبان کے تئیں والہانہ محبت ہے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment