اردو زبان میں پیشہ ورانہ اور اعلی تعلیم کے مسائل
وامکانات
(بہار
کے حوالے سے)
اعلی تعلیم اور تحقیق سے وابستگی کے بغیر کسی بھی
زبان کی ترقی اور اس میں ٹھہراؤ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو زبان میں بھی پیشہ
ورانہ ، اعلی تعلیم،تحقیق، انکشافات، ایجادات اور دریافت کے مسائل وامکانات کے حوالے
سے کئی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اردو ہندوستان کی مقبول اوراہم ترین
زبانوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی بہت بڑی آبادی بلا لحاظ مذہب وعلاقہ اسے بولتی اور
سمجھتی ہے۔ پاکستان کی تو خیر قومی زبان ہی ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں حتی کہ یورپین ممالک
میں بھی اس زبان کے سمجھنے اور بولنے والے اچھی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن موضوع کی
مناسبت سے سب سے اہم مسئلہ زبان بحیثیت ذریعۂ تعلیم ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان کے ذریعہ
تعلیم ہونے کے لیے صرف اس کا سمجھا اور بولا جانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے رسم الخط
(Script)اور علمی زبان کا جاننا بھی ضروری ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی زبان
علمی زبان کہلانے کی حقدار اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس میں دنیا بھر کے مروجہ علوم وافکار
کے مسائل وموضوعات کی ہر کیفیت کو اس زبان کے مزاج وروایات کے مطابق بیان کرنے کی قدرت
موجود ہو۔
یہ امر بھی ملحوظ
رہنا چاہئے کہ عام طور پر جو زبانیں علمی کہی جاتی ہیں ان میں علوم کی اشاعت میں ایک
تسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ اگر کسی زبان میں علوم کی اشاعت کا تسلسل
ٹوٹ جائے تو علوم کی ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک وقفے کے بعد اس کے بیان پر عبور
مشکل ترین معاملہ بن جاتا ہے۔ اس وقفے میں جتنی توسیع ہوتی ہے مشکل اتنی زیادہ بڑھتی
چلی جاتی ہے۔
ماہرین کا خیال
ہے کہ مؤثر تعلیم وہی ہوگی جس کا میڈیم مادری زبان ہو۔جو لوگ تعلیم وتعلیم کے مسائل
سے واقف ہیں وہ اس حقیقت کا انکار بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ابتدا ہی سے دور رس اور
گہر ی نظر رکھنے والے ماہرین زبان نے کوشش کی کہ ہماری زبان اردو کو اس لائق بنایا
جائے کہ اس میں ہر طرح کے خیالات کا اظہار ہوسکے اور وہ تعلیم کا میڈیم بن سکے۔ اس
سلسلے میں چند شخصیتوں اور چند اداروں کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ خاص طور پر
دلی کالج جس میں سائنسی اور علمی مضامین کی تعلیم کا ذریعہ ہندوستانی تھا۔اس وقت ہندوستانی
یہی اردو زبان کہلاتی تھی۔ اس ادارے میں ماسٹر رام چندر کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ انہوں
نے جہاں بچوں کو اردو زبان کو میڈیم بناکر تعلیم دی وہیں اپنے زیر ادارت نکلنے والے
اخبار میں ایسے علمی اور سائنسی مضامین کی اشاعت کی جن سے ہماری زبان علمی اور سائنسی
مضامین کے اظہار کا ذریعہ بن سکے ۔اس کام کے لیے ورنا کلر سوسائٹی قائم کی گئی تھی
اور منصوبہ بند طریقے سے سائنسی اور دیگر عصری علوم پر مضامین لکھے گئے۔ اس حوالے سے
علی گڑھ تحریک اور سرسید کی شخصیت بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ سرسید نے اس ضرورت
کو شدت سے محسوس کیا اور اپنے رفیقوں کے ساتھ خودبھی اس کام کو بخوبی انجام دیا ۔ فورٹ
ولیم کالج کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں لیکن وہاں محض زبان سے سروکار تھا۔ان حضرات
کی گراں قدر خدمات سے ہماری زبان میں اتنی طاقت آگئی کہ وہ اس وقت کی رائج علمی مضامین
کو بخوبی بیان کرسکے۔اردو زبان کو علمی مضامین کا میڈیم بنانے میں جامعہ عثمانیہ حیدرآبادی
کی خدمات بھی انتہائی وقیع ہیں جس کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس ادارے میں دارالترجمہ
کا ایک شعبہ ہی اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ دوسری زبانوں کے مفید علمی مضامین کو اردو
کے قالب میں ڈھالا جاسکے ۔ اس کا یہ شعبہ اردو کے فروغ میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا
ہے۔ اس ادارے کے ذکر میں وحید الدین سلیم کا نام بھی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
ان کی کتاب وضع اصطلاحات خود اپنے فن میں طاق ہے۔
مذکورہ شخصیات نے محسوس کیا کہ کوئی زبان جب تک وقت
کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔اگر اس کی بنیاد علمی نہ ہو
تو محض شاعری اور ادب کی بنیاد پر ترقی کے بہت امکان نہیں ہوسکتے ہیں۔ البتہ اس سے
بھی چنداں انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ادب ؛علمی زبان کو خیالات کے اظہار کے لیے جن
ترسیلی قوتوں کی ضرورت ہے؛ ان کو سہل اور سریع الفہم بناتا ہے ۔ اس میں ایسی لفظیات
کا اضافہ کرتا ہے جو پیچیدہ خیالات کی ترسیل میں معاون ہو ں اور ان کی کیفیات کا بخوبی
اظہار ہوسکے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ جو قومیں علمی بنیاد پر جتنی ترقی یافتہ ہیں
ان کی زبان دوسری زبانوں پر اتنی ہی زیادہ فوقیت رکھتی ہے۔ لیکن انگریزجو ”پھوٹ ڈالو
اور راج کرو“ کی پالیسی پر عمل کرتے تھے زبان کی بنیاد پر بھی ہندوستانیوں کے درمیان
تفریق ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں برادران وطن کا رجحان سنسکرت کی طرف
ہوگیا اور ہندی زبان کو فروغ حاصل ہوا ۔ دوسری طرف تقسیم کا سانحہ سامنے آیا اور پاکستان
کی زبان اردو ٹھہر ی ۔ اس کے رد عمل کے طور پر ہندوستا ن کی زبان ہندی ہوگئی ۔ اس پر
طرہ یہ کہ اردو بولنے والی ایک بڑی آبادی پاکستان منتقل ہوگئی۔ اس طرح اردو میں جو
علمی سرمایہ اور علمی دماغ تھا وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔پھر لازما یہ ہوا کہ اردو
رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہوگئی۔ زمانے کے تقاضوں سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیااور اس کی ارتقائی
کڑیاں بکھر کر رہ گئیں۔ اس طرح ایک علمی زبان میں ترسیل کی جو قوت درکار ہوتی ہے اس
میں کمی آگئی ۔
لیکن ہماری زبان
کے علما زبان کے اس فلسفے پر غور وخوض کرتے ہوئے اپنی زبان کو علمی اور سائنسی زبان
سے جوڑنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں موجودہ دور میں دو اداروں کی خدمات نہایت
اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ہے جس کا قیام ۱۹۹۶ میں عمل
میں آیا۔ یہ ادارہ جہاں اپنے پرانے سرمائے کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے فروغ واشاعت
کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے وہیں اپنی زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے
سائنسی اور تکنیکی علوم کی کتابوں کو ترجمہ کراکر شائع کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اردو
والوںکو تکنیکی تعلیم سے قریب لانے کے لیے کمپیوٹر کورس کا آغاز کیا ہے جو بڑی کامیابی
سے ملک بھر میں فروغ پارہا ہے۔اسی کے ساتھDREAM نام کا بھی ایک حرفتی(Vocational) کورس شروع کیا گیا ہے ۔
دوسرا ادارہ
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ہے جس کا قیام ۱۹۹۸میں قومی یونیورسٹی کی حیثیت سے
عمل میں آیا۔ یہ ادارہ روایتی اور فاصلاتی دونوں طرز پرابتدائی ، ثانوی، اعلی ثانوی،
اعلی اور پیشہ وارنہ تعلیم کے اردو زبان کو ذریعہ بنارہی ہے۔ اس یونیورسٹی میں
سماجی اور روایتی علوم کے علاوہ پالی ٹیکنک کے چار برانچ ، آئی ٹی آئی کے تین برانچ
، ایک برانچ میں بی ٹیک، ڈگری سطح پر بی ایس سی، بی کام ، اعلی تعلیم میں تاریخ ،پیشہ
ورانہ تعلیم میں بی ایڈ، ایم ایڈ، جرنلزم اور ماس کمیونی کیشن وغیرہ کے کورس اردو میڈیم
میں موجود ہیں۔ ان کورسوں کا اردو آبادی کی طرف سے بھر پور استقبال بھی ہورہا ہے۔
یہ دونوں ادارے
قومی سطح کے ہیں۔ لیکن ان دونوں اداروں سے بہار میں بھی بڑے پیمانے پر فیض پہنچ رہا
ہے۔ پورے بہار میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے چوالیس (۴۴) کمپیوٹر مراکز(MAIN) اور دس (Phase
Out)سی اے بی
اے ایم ڈی ٹی سینٹر کے نام سے قائم ہیں جہاں سے ہر سال تقریبا ساڑے چار ہزار طلبہ وطالبات
کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کر رہے۔ اسی طرح گھریلو الیکٹرانک اشیا کی مرمت کے مراکزم ڈریم
سینٹر کے نام سے پورے ملک کے ۵۰ مراکز میں سے ۴
بہار میں بھی قائم ہیں۔ ان میں سے ایک دربھنگہ میں بھی قائم ہے۔ بہار
میں قائم ان چار مراکز سے تقریبا ۳۲۰
طلبہ وطالبات ہر سال اس کورس کی تکمیل کر رہے ہیں۔
ان سارے کورس
کا میڈیم اردو زبان ہے۔ دونوں کورسوں کے اسٹڈی مٹریل اردو اور انگریزی دونوں زبانوں
میں موجود ہیں۔ان میں ڈریم کا ترجمہ کمپوٹر کورس کے ترجمے سے بہتر اور مکمل ہے۔کمیونیکیشن
اور الیکٹرانک کے اصطلاحات کو بھی اردو زبان میں وضع کیا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل کمپیوٹر
کورس کا ترجمہ انگریزی مٹریل کی تلخیص ہے اور اصطلاحات کا ترجمہ اس طرح نہیں ہوسکا
ہے جس طرح بعد میں ڈریم میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک زمینی سچائی
کی طرف بھی اشارہ کردینا بے جا نہیں ہے کہ عمومی طور پر کلاس روم میں طلبہ اور اساتذہ
کے درمیان ترسیل کی زبان اردو تو ضرور ہوتی ہے لیکن تعلیم کی زبان اردو نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا صدر دفتر حیدر آباد میں ہے لیکن فاصلاتی ذریعہ تعلیم
میں جمو کشمیر کے بعد سب سے زیادہ بہار میں طلبہ ان کورسوں سے مستفید ہورہے ہیں ۔بہار
کے ضلع دربھنگہ میں اس کا ایک کیمپس بھی موجود ہے جس میں کالج آف ٹیچر ایجوکیشن کے
تحت بی ایڈ اور ایم ایڈ اور بی ایڈ (فاصلاتی) پالی ٹیکنک کالج کے تحت سول، الیکٹرانکس
اینڈ کمیونیکیشن اور کمپیوٹر میں ڈپلوما انجینئرنگ ، آئی ٹی آئی انسٹی چیوٹ کے تحت
تین ٹریڈوں میں آئی ٹی آئی اورسی بی ایس ای بورڈ کے تحت ۲+ تک تعلیم دی جاتی ہے۔ ان سارے
کورسوں کا ذریعہ تعلیم اردو زبان کو ہی قرار دیا گیا ہے اور سارے کورسوں کا امتحان
لازمی طور پر اردو زبان میں لیا جاتا ہے۔
اردو زبان کو
میڈیم بنانے میں قومی کونسل اور مولانا آزاد یونیورسٹی کی کوششیں یقینا لائق صد تحسین
ہیں۔ لیکن یہاں تمام تر انحصار ترجمے پر ہے۔ ترجمہ ایک ایسا تازہ خون ہے جوکسی زبان
کے لاغر اور نحیف جسم میں توانائی اورچہرے پر سرخی لادیتا ہے۔ فکر سیراب ہوتی ہے۔ نئے
افکار وخیالات سے شنائی روح کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔ ترجمے کے عمل سے زبانوں کی عمر
میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ خون جو باہر سے
جسم میں ڈالا جاتا ہے اور جو خون جسم میں خود بخود پیدا ہوتا ہے دونوں کی توانائی میں
فرق ہوتا ہے۔ ترجمہ دوسری زبان میں سوچنے کا عمل ہے۔ جبکہ ترقی کرنے کے لیے ہمیں اپنی
زبان میں سوچنا ہوگا۔چراغ سے چراغ تو جلتا ہے لیکن مانگے ہوئے چراغ پر انحصار آنکھوں
کو اسی روشنی کا اسیر بنادیتا ہے۔ جب تک اپنی زبان سے فکر کے سوتے نہیں پھوٹیں گے تحقیق،
انکشافات، ایجادات اور دریافت کی دنیا میں قدم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری
ہے کہ ترجمے کا دروازہ اپنے اوپرہمیشہ کھلا تو ضرور رکھا جائے تاکہ اس سے فکر کو سیرابی
اور روح کو بالیدگی ملتی رہے لیکن اس کا استعمال چڑھائی ہوئی توانائی کے طور پر نہیں
بلکہ علمی تغذیے کو طور پر ہونا چاہئے تاکہ یہ اندر سے خون بنانے اور فکر کے نئے چشمے
ابالنے میں معاون ہو۔
ذریعہ تعلیم
کی زبان اور عام زبان میں قدرے فرق ہوتا ہے۔ ذریعہ تعلیم ایک علمی زبان ہوتی ہے جس
میںہر فن سے متعلق اپنی اصطلاحات ہوتی ہیںجو کسی بھی مضمون کو بڑی بڑی تشریحات سے بچاتی
ہیں۔وہ اصطلاحات اپنے فن کی نمائندگی کر تی ہیں۔ جب دلی کالج، علی گڑھ تحریک اور جامعہ
عثمانیہ نے اس ضمن میں پیش رفت کی تو اصطلاح سازی پر بھی بھر پور توجہ دی گئی۔ اس سلسلے
میں عثمانیہ یونیورسٹی کی ناقابل فراموش خدمات رہی ہیں۔ اسی زمانے میں اصطلاح سازی
کے لیے کامیاب اصول بھی بنائے گئے۔ الغرض کسی زبان کو علمی زبان بننے کے لیے جس ترسیلی
صلاحیت کی ضرورت ہے اس میں اصطلاحات کی اہمیت مسلم ہے۔ بلا شبہ اردو میںیہ صلاحیت موجودرہی
ہے۔ البتہ وقت کے ساتھ نہیں چلتے رہنے کی وجہ سے اس میں ایک خلا ضرور پیدا ہوگیاجس
نے چند ایسے مسائل کو جنم دیا ہے کہ اگر ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو امید بھر کامیابی
نہیں مل سکتی ہے۔
اس کے بالمقابل
موجودہ وقت میں جب کبھی اپنے یا غیر اردو زبان کی خوبیوں پر گفتگو کرتے ہیں تو صرف
اس کے رومانی وصف کو بیان کرتے ہیں۔ اردو محبت اورشاعری کی زبان ہے۔ اردو دلوں پر محبت
کرتی ہے اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔ یہ غزل ، قصیدہ اور مرثیہ (عاشقی، خوشامد اور
نوحہ و ماتم ) کی زبان ہے۔ہندوستان کی کامیاب فلموں کا راز بھی اردو زبان کی چاشنی
ہے۔اردو زبان کے نغمات مسرور کردیتے ہیں۔ یہ باتیں سننے میں بھلی لگتی ہیں اور ہم خوش
ہوجاتے ہیں اور ان کے منفی پہلوؤں پر
غور نہیں کرتے۔ لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ کیا رومانی جذبات دائمی ہوتے ہیں؟ رومانیت
ایک قسم کی جذباتیت ہے جو دیر تک قائم نہیں رہتی۔ یہ بات صحیح ہے کہ جس زبان میں مٹھاس
ہوتی ہے وہ دلوں پر حکومت کرتی ہے لیکن ہمیں دلوں کے ساتھ ساتھ جہاں داری وجہاں بانی
کا کام بھی کرنا ہے جس میںصرف عاشقی کی زبان بہت دیر تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکے گی۔
ہمیں صرف رقص وسرور کی نہیں علم وسائنس کی زبان بھی درکار ہے۔ ہماری زبان کی بد قسمتی
یہ بھی رہی ہے کہ اس میں علوم کی اشاعت کا تسلسل بھی ٹوٹا ہے۔ ہماری شاعری اور ادب
میں زبان کا ایسا تجربہ بھی اب نہیں ہو رہا ہے جو علوم کے پیچیدہ افکار وخیالات کے
بیان پر قادر ہوسکے۔در اصل شاعری کاکام صرف تفنن طبع اور مسرت کے لمحات کی تلاش نہیں
ہے بلکہ یہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ بلکہ اس کو زبان کی سائنس کا نام دینا زیادہ بہتر ہے
جس میں الفاظ کو نئی نئی ترکیبوں اور فقروں میں ڈھال کر، ایک مضمون کو سو سو رنگ سے
باندھ کر، کچھ نئے الفاظ وضع کر کے اور اخذو قبول کے ذریعہ تجربہ کیا جاتا ہے کہ کس
طرح بیان میں نئے افکار وخیالات کی پیچیدگی دور ہو۔ اظہار اور ترسیل میں روانی، آسانی
اور جامعیت پیدا ہوسکے۔ کلاسیکل شعرا کے دواوین اسی دریافت کی مثالیں ہیں۔ جبکہ نثر
زبان کی ٹیکنالوجی ہے۔ شاعری زبان میں جو تجربہ کرتی ہے نثر اس کو استعمال میں لاتی
ہے اور رفتہ رفتہ یہ اہل زبان کی خراد پر چڑھ کر زبان کا حصہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ جب
ہم عام اور مستعمل ترکیبوں سے الگ کوئی ترکیب دیکھتے ہیں تو اہل زبان اور اساتذہ کے
کلام میں اس کی مثالیں ڈھونڈکر سند تلاش کرتے ہیں۔
اردو زبان کو
ذریعہ تعلیم بنانے میں کچھ اور مشکلات ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔ مثلاآج لوگوں کا
رجحان انگریزی میڈیم کی طرف ہے۔ اس لیے اردو مادری زبان رکھنے والے اردو کی تحریری
اور علمی زبان سے نا بلد رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف پرائمری اور مڈل سطح پر اردو میڈیم
کے جو اسکول ہیں ان میں مناسب تعلیم نہیں ہونے کی وجہ سے عوام کا رجحان ادھر نہیں ہوتا
ہے۔ بہار میں وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کے ذریعہ دی گئی معلومات کے مطابق بہار میں
کل ۳۶۴۲ اردو اسکولوں میں ۲۵۹۷
اسکول سرکاری ہیں۔حالانکہ یہ جو ۱۰۲۷
غیر سرکاری اردو میڈیم اسکول
بچتے ہیں وہ بہار کے کن علاقوں میں موجود ہیں اور کیونکر موجود ہیں یہ بات سمجھ میں
نہیں آتی ہے۔اردو میڈیم کے تمام سرکاری اسکول بھی صرف نام کے اردو اسکول رہ گئے ہیں۔
ایسے اردو میڈیم اسکولوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد ایسا محسوسس ہوتا ہے کہ اب ایک فیصد
اسکول بھی نہیں ہیں جو اردو میڈیم میں تمام مضامین پڑھانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ایک
وجہ ہے تو یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ایسے اسکولوں سے اردو داں اساتذہ ختم ہورہے ہیں۔ جو ارد
وداں اساتذہ ہیں وہ خود بھی سائنس اور ریاضی وغیرہ جیسے مضامین کو اردو میں جاننے سے
قاصر ہیں۔ المیہ یہ ہے سرکاری سطح کے اقلیتی اسکول بھی اب اردو زبان کو میڈیم نہیں
بنارہے ہیں اور یہ شعوری طور پر کیا جارہا ہے۔ یہ تو پرائمری اور مڈل سطح کے اسکول
کا معاملہ ہے۔ ثانوی سطح پر اردو میڈیم اسکولوں کا بہار میں اور بھی فقدان ہے۔ سیکنڈری
کے بعد سینئر سیکنڈری سطح پر اس میں مزید کمی آجاتی ہے۔طلبہ ایسے اسکولوں میں اردو
زبان بحیثیت مضمون پڑھتے ہیں۔ لیکن اس کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایسے
بچے جب تکنیکی تعلیم میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنائیں گے تو یہاں پر زبان ان کی سمجھ
سے بالاتر ہوگی۔ ایسے میں ان کی وہ تعلیم بھی متاثر ہوگی۔
جیسا کہ اوپر
کہا گیا کہ موجود وقت میں دو اداروں نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے ۔ اگر مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو نظرمیں رکھتے ہوئے اس موضوع پر بات کی جائے تو سب سے
پہلے جوبات سامنے آتی ہے وہ مواد کی فراہمی کا ہے۔ نصاب کے مطابق اب بھی بازار میں
اردو زبان میں کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے جو کتابیں پڑھائی جارہی ہےں وہ انگریزی
میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ طلبہ اس سطح پر اتنی لیاقت تو رکھتے نہیں ہیں کہ وہ بہ آسانی ترجمہ
بھی کریں اور مواد کو بھی سمجھیں ۔ ایسی صورت میں لیاقت بھی متاثر ہوگی اور امتحان
میں نمبرات بھی کم آئیں گے۔ جو اساتذہ مامورکیے گئے ہیں گرچہ ان کے لیے اردو زبان جاننے
کی شرط رکھی گئی ہے لیکن خود ان کی تعلیم انگریزی یا دیگر کسی زبان میں ہوئی ہے اورسر
دست اردو میں تدریس کے لیے ان کی تربیت کا کوئی نظم بھی نہیں کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ
اردو سے ان کا تعلق بس ذریعہ اظہار کی حد تک ہے ۔ وہ بھلا اردو میڈیم میں بخوبی کس
طرح تدریس کا کام انجام دے سکتے ہیں۔جبکہ بعض اساتذہ کا تو اردو زبان سے ایسا بھی تعلق
نہیں ہے۔ خود یونیورسٹی کی پالیسی یہ ہے کہ بازار کے ڈیمانڈ کو نظر میں رکھتے ہوئے
اصطلاحات (Terms)کو انگریز ی ہی میں پڑھا یا جائے اور درمیان کی چیزیں اردو میں ہوں
۔ ایسی زبان کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ نہ اردو ہوتی ہے نہ انگریزی۔ یہ صحیح ہے کہ
زندہ زبان نئی ایجادوں کو قبول کرنے سے بھاگتی نہیں ہے لیکن ایک زندہ زبان نئی چیزوں
کو اپنے رنگ میں ڈھال کر ہی اسے استعمال میں لاتی ہے۔ اس کے لیے اصطلاح سازی کی ضرورت
ہے۔ ایک علمی زبان کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اصطلاح سازی کا کام ہمیشہ جاری رہے ۔
تب ہی ایک زندہ زبان کی اپنی خصوصیتیں باقی رہ سکتی ہیں۔ ہمارے لیے ہندی زبان اس کا
نمونہ ہے۔ وہ نئے الفاظ کو اپنا رنگ دے کر ہی استعمال کرتی ہے ۔خواہ وہ لفظ سنسکرت
سے ماخوذ ہونے کی وجہ سے کتنا ہی ثقیل کیوں نہ ہو۔ان دنوں دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ
علمی موضوعات تو درکنار ادبی زبان میں بھی انگریزی الفاظ ہو بہو استعمال کئے جانے لگے
ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اردو میں انجذابی صلاحیت ہے ۔اگر یوں ہی نئے الفاظ اپنی تمام
تر خصوصیتوں کے ساتھ لیے جانے لگےں تو بہت جلدیہ زبان دوسری زبان میں ضم ہو کر رہ جائے
گی۔
مولانا آزاد
نیشنل اردو یونیورسٹی نے جب اس پیمانے پر اردو کو میڈیم بنایا ہے توجامعہ عثمانیہ کے
طرز پر اسے بھی شعبہ ترجمہ میں اصطلاح سازی پر توجہ دینی چاہیے۔ اور لازمی طور پر ہر
کیمپس میں دار الترجمہ کے تحت ایک فرد مامور کرنا چاہیے جو اصطلاح سازی کی خدمت انجام
دے اورتدریس میں آنے والی ترجمہ کی پریشانیوں کو حل کرے۔ گرچہ اصطلاح سازی کا کام گروہی
(Group work)ہے انفرادی نہیں۔
ایک دوسرا مسئلہ
یہ ہے کہ مولانا آزاد قومی یونیورسٹی میں اس وقت تکنیکی تعلیم میں ڈپلوما سطح تک تعلیم
جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ طلبہ تکمیل کے بعد روزگار سے لگ جائیں گے ایسا ضروری تو نہیں ہے۔
ان میں بہت سے طلبہ ڈگری اور پی جی سطح تک بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھنے
کے بعد کیا اس سطح پر ان کے ساتھ مسائل نہیں کھڑے ہوں گے۔ ابھی تو نچلی سطح پر کتابیں
مفقود ہیں تو آگے کی سطح کا کیا کہنا۔ مستقبل قریب میں ان کے مواد کی دستیابی ممکن
بھی نظر نہیں آتی ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم
کے حوالہ سے بھی بات کی جائے تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ آج صارفیت کا دور ہے ۔ بازار
میں اس کی کھپت ہے جو بازار کے لائق ہے۔ تعلیم اب بازار کے تقاضے اور ملازمت پر مبنی
(Market Based & Job Oriented)ہے۔ بازار کی زبان عالمی طور پر انگریزی ہے۔
کیا اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بازار میں ان کی کھپت دوسروں کی طرح ہوگی ؟ یونیورسٹی
نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر کورس کے ساتھ انگریزی کو بھی شامل کیا ہوا ہے۔ لیکن
کیا عام طور پر طالب علم اس لائق ہوتے ہیں کہ وہ دو اور تین زبانوں میںبولنے کی مہارت
(Communication Skill)پیدا کرسکیں؟ جب ان میں Communicationکی کمی ہوگی تو صارفی مزاج بازار کیا انہیں قبول کرلے گا اور قبول کر
بھی لے توکیا ان کی اہمیت بھی دوسروں کی طرح ہی ہوگی؟ ہوسکتا ہے کہ ملازمت ملنے پر
ذہین اور باصلاحیت طلبہ اپنی قابلیت ثابت کر لیں ۔ لیکن ابتدا میں ہی اردو میڈیم ہونے
کی وجہ سے ملازمت سے انکار ہوگا تو وہ اپنی قابلیت کا اظہار کہاں کریں گے؟ اور جب بازار
میں اردو زبان میں تعلیم کی وجہ سے ملازمت میں امتیازی سلوک سہنا پڑا تو اس کے منفی
اثرات ظاہر ہوں گے۔ آج جبکہ اعلی اور کم ازکم پیشہ ورانہ اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بنیادی
مقصدہی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے تو کیونکر کوئی محض زبان کی
وجہ سے یہ مواقع کھوئے گا؟
یہ ایک شبہ ہے
۔ لیکن شبہ کی بنیاد پر اس سے منہ موڑا نہیں جاسکتا ۔ ہاں یہ ضروری ہے جن طلبہ نے اس
سے رشتہ جوڑا ہے ان کے والدین جن کی مادری زبان اردو ہے اور جن کی تہذیب اس سے وابستہ
ہے وہ کو شش کریں کہ ان کے بچے بازارکے تقاضوں پر کھرے اتریں۔ کیوں کہ زمانے سے ہم
آہنگ نہ ہوکر ان کی زبان مرجائے گی تو ان کی تہذیب بھی ان کے ہاتھوں سے جاتی رہے گی
تب ان کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ کیوں کہ قومیں اپنی مخصوص تہذیب
، مسلمات اور عقائد ہی سے پہچانی جاتی ہےں۔
مختصر یہ کہ
اردو میں تکنیکی تعلیم دی جاسکتی ہے ۔ اس راہ میں چند رکاوٹیں ضرور ہیں۔ لیکن ہمیں
یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی یہ عمل تشکیلی حالت میں ہے۔ آئندہ بھی اسی صورت میں کام جاری
رہا ہے تو ان پر قابو پالیا جائے گا۔ اگر ابھی سے ہی شبہات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے
اس سے فرار اختیار کیا جانے لگے تو ہماری زبان کی ترقی نہیں ہوسکے گی۔
ان سب کے علاوہ
ہمیں زبان کے فروغ کے لیے ایک ہدف مقرر کے اپنی زبان کو تحقیق و ایجادات کی سطح تک
لے جانا ہوگا۔ جب ہم اپنی زبان میں نئی تحقیقات اور ایجادات لائیں گے تو دوسرے لوگ
بھی ہماری زبان پڑھنے پر مجبور ہوں گے اور تبھی جاکر زبان کو بھی بقائے دوام حاصل ہوسکتا
ہے۔ حالانکہ یہ مشکل اور دقت طلب امر ہے جس کے لیے خود آمادگی اور ذہن سازی کی ضرورت
ہے۔
ہمیں اردو زبان
میں علمی وسائنسی تحقیقات کو فروغ دینے کے لیے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایسے رائٹرز گلڈ
کلب کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جہاں طلبہ وطالبات، شوقین حضرات وخواتین اور
دانشوران ماہانہ یا سہ ماہی طور پر بیٹھ کر ادب کے ساتھ علمی و سائنسی زبانوں پر ٹوٹی
پھوٹی زبان میں ہی سہی پرچے پیش کریں۔جس طرح کہ ہر چھوٹے بڑے شہروں میں شعری نشستوں
کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس سے ہماری زبان میں لکھنے والوں میں تو اضافہ ہوگا ہی۔ انہی میں
سے کوئی آئندہ سائنس اور دیگر علوم کا ماہر ہوگا تو اردو زبان میں کوئی علمی خدمت بھی
انجام دینے کا حوصلہ رکھے گا۔ اس طرح کی نشستوں میں اگر ان میں ایک شخص ایسا ہو جو
زبان کا ماہر ہو اور پرچے پیش کردینے کے بعد زبان کو صحیح کرنے کے قواعد کے نکات بتادے
تو رفتہ رفتہ ان کی زبان بھی درست ہوجائے گی۔ انہی پرچوں میں اگر کسی کو اخبارات اور
رسالوں میں جگہ مل گئی تو حوصلہ بلند ہوگا اوراپنے مضمون کو موضوع اور زبان دونوں لحاظ
سے معیاری بنانے کی کوشش کرے گا۔
قابل توجہ امر
یہ بھی ہے کہ ہندوستان بھر میں موجود اردو اکاڈمیوں کی جانب سے ہر سال سیکڑوں سیمینار
منعقد کئے جاتے ہیں اور کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی تعاون دیا جاتا ہے لیکن ان میں
بیشتر ادب سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس میں اکاڈمیوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے
پاس سائنس وٹکنالوجی اور دیگر فکری علوم کے لیے منصوبے ہی موصول نہیں ہوتے ۔
اس سلسلہ میں اکاڈمیوں کی جانب سے یہ اقدام کیا جاسکتا
ہے کہ ۰۵ فیصدسائنسی وعلمی سیمیناروںکے انعقاد اور ۰۵ فیصد
سائنسی وعلمی کتابوں کی اشاعت کے لیے رقم مختص کردی جائے۔ ہر سال سائنس اور علوم کی
اعلی تحقیقات پر مبنی عمدہ کتابوں کا ترجمے شائع کرائے جائیں۔ ہر سال اردو میڈیم میں
سائنس ، ٹکنالوجی اور علوم کی اشاعت میں نمایاں کار کردگی انجام دینے والوں کو صوبائی
اور مرکزی سطح کا کوئی اعلی ایوارڈ دیا جائے۔
اردو میڈیم اسکولوں
میں پڑھنے والے بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ عام طور اس طرح کے اسکول بے
بسی و بدحالی کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کے چہرے سے مفلسی ٹپکتی ہوتی
ہے۔ ان اسکولوں کے طلبہ وطالبات میں نصابی وہم نصابی سرگرمیاں مفقود ہوتی ہیں۔ قومی
ریاستی وظیفوں میں ان پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
اس وقت پری پرائمری
تعلیم کے لیے سمعی بصری آلات استعمال کر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو حروف تہجی، اعداد ،
Rhymes اور کہانیوں کے ذریعہ ہلکی پھلکی اور بوجھ ڈالے بغیر تعلیم دی جارہی ہے۔
اردو زبان میں ایسے وسائل انکار کی حد تک محدود و ہیں اور جو ویڈیوز ویب سائٹ پر ملتے
ہیں وہ انتہائی ناقص ہوتے ہیں جبکہ دیگر زبانوں کے اتنے خوبصورت دلچسپ اور بہترین ہوتے
ہیں کہ جی خوش ہوجاتا ہے اور بچہ ان سے راغب ہوتا ہے۔ انگریزی کے علاوہ عربی وفارسی
میں بہت اچھی اچھی ویڈیو موجود ہے۔ اکاڈمیوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ بچوں
کو دوسری زبانوں کی طرح نئی ٹکنالوجی کے ذریعہ تعلیم دے کر اپنی مادری زبان سے وابستہ
وپیوستہ رکھا جاسکے۔ یہ وقت کے تقاضے ہیں اورخود کو باقی رکھنے کے ان تقاضو ں کو بھی
پورا کرنا ہوگا۔
٭٭٭
نوٹ: یہ مضمون پہلے اردو زبان میں اعلی، پیشہ ورانہ اور حرفتی تعلیم کے
عنوان سے پہلے لکھا گیا تھا۔ بعد میں دربھنگہ میں ایک سیمینار میں پیش کرنے کے لیے
کچھ اپڈیٹ کیا گیا تو کچھ نئی باتیں بھی شامل ہوگئیں۔ اس لیے اسے دوبارہ ڈال دیا
گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment