مشمولات

Monday, 16 May 2016

بلندی فکر کا فرق

بلندی فکر کا فرق

آج ۱۵؍ مئی ۲۰۱۶ کو فرید آباد کے اہم تعلیمی ادارے الفلاح یونیورسیٹی نے ‘‘تعلیمی کانفرنس’’ کے عنوان سے اپنے تشہیری پروگرام میں دربھنگہ  کے ڈان باسکو اسکول میں ضلع کے چند افراد اور شخصیات کو تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے صلے  میں اعزاز سے نوازا۔ یہ وہ افراد ہیں جن کو ہم معزز اور غیر معزز ، معتبر اور غیر معتبر لوگوں کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ افراد درجنوں کی تعداد میں تھے اور اعزاز اس طرح تقسیم کی جارہی تھی جیسے میلاد میں شیرنی تقسیم کی جاتی ہے۔
کسی کو دینے اور نہ دینے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ مجھے  اس  کا حق حاصل ہے۔ نہ ہی میں انتخاب کے معیار اور پیمانے پر کوئی سوال اٹھانا چاہتا ۔ کیونکہ یہ یونیورسیٹی کا تشہیری پروگرام تھا اور یہ یونیورسیٹی کا حق ہے کہ وہ اپنا اعزاز جسے چاہے دے اور جسے نہ دے۔ اعزاز حاصل کرنے کے بعد جو رد عمل سامنے آیا اس سے  اعزاز لینے والوں کے تعلیم کے فرق، فکر کی بلندی اور سوچ کا معیار ضرور سامنے آتا ہے۔میں نے دیکھا کہ اعزاز کی تقسیم کے بعد جب تاثرات کے اظہار کے لیے اعزاز دی گئی شخصیتوں میں سے ایک اہم شخصیت ڈاکٹر مشتاق احمد کو ،جو وہاں مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے، ڈائس پر بلایا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے تعلق سے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسے ٹرین میں مسافر سورہا ہو اور راستے میں ٹی ای ٹی اسے جگاکر ٹکٹ چیک کرے اور مسافر پھر سوجائے، اسے پتہ بھی نہیں چلے کہ کس اسٹیشن پر ٹی ای ٹی آیا۔ ہماری قوم کی آنکھیں نیند سے ایسی ہی بوجھل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا پروگرام ہمارے مسئلے کی ایک جہت ہے حل نہیں ۔ کیونکہ ہماری قوم میں بیداری کے لیے مسلسل تحریک کی ضرورت ہے۔ اپنے ایک واقعے کا ذکر  کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری بستیوں  میں محرم کمیٹی ، مسجد کمیٹی  اور قبرستان کمیٹی تو ہے لیکن تعلیمی کمیٹی موجود نہیں۔ جب تک گاؤں گاؤں میں  تعلیمی کمیٹی نہیں بنائے جائے گی ہماری قوم میں تعلیمی بیداری نہیں آسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا دو نشانہ ہونا چاہئے۔ ایک نشانہ تو یقینا معیار اور پیشہ ورانہ دورمیں بچوں کو مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے لیکن اس سے بڑا نشانہ وہ ۷۵ فیصد آبادی ہے جو گاؤں میں موجود ہے اور جو تعلیم کی اہمیت سے اب بھی بے بہرہ ہے اور جس کو جگانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ ان کی اس مختصر تقریر نے بہر حال پروگرام میں موجود کم وبیش ہر شخص  ان کی کسک اور درد کو محسوس کیا۔ ڈاکٹر مشتاق احمد نہ صرف کالج کے ایک استاد ہیں بلکہ اچھے صحافی  بھی ہیں (اخباری نمائندہ والا صحافی نہیں)۔ اپنے کالموں میں جہاں ملک میں مسلمانوں کو در پیش مسائل او ران کے حل پر اظہار خیال کرتے ہیں وہیں وقفے وقفے سے ملت کے تعلیمی مسائل پر بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اعزاز دینے والی انتظامیہ سے کہا کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ سرکاری ملازم ہوں اس لیے پڑھاتا ہوں۔ تعلیم کے میدان میں میری دوسری کوئی قابل ذکر خدمت نہیں۔ آپ خلوص کے ساتھ اعزاز دے رہے ہیں تو میں نے قبول کرلیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اس اعزاز کا اہل نہیں ہوں۔ یقیناً یہ ان کا انکسار تھا۔ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف ایک استاد کی حیثیت سے بلکہ ایک دانشور اور صحافی کی حیثیت سے تعلیم کے میدان میں جو خدمات انجام دے رہے ہیں اس کے وہ بجا طور پر حقدار ہیں۔ خود ان کی تاثراتی گفتگو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملت کی تعلیم کے سلسلے میں کتنے سنجیدہ ہیں اور ان کی فکر کیا ہے؟
اسی مجلس میں بعض احباب اعزاز کے نام پر میلاد کی شیرنی سے فیضیاب ہوئے جن کو میں نااہل تو کسی طور پر نہیں کہہ سکتا ہے اور نہ ایسا ہے ۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا  کہ تعلیم کے میدان ان کی خدمات ‘ت’ کے برابر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے بعد میں مختلف ذرائع ابلاغ  کے ذریعہ اس کی تشہیر کرتے ہوئے  اس اعزاز کو ایوارڈ کا نام  دےدیا اور تعلیم کے بجائے دیگر شعبۂ حیات سے جوڑ دیا جس سے ان کا رسمی تعلق ہے۔ اسی پر بس ہوتا  تو نظر انداز کیا جاسکتا تھا کہ ‘‘دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے’’۔ انہوں نے اس اعزاز کی وصولیابی کے اعتراف کا اظہار بزبان  خود‘‘گراں قدر خدمات انجام دینے کے لیے ’’ سے کیا۔ مثلا ‘‘ص ح  ت کے شعبے میں گرانقدر خدمات کے اعتراف میں میں الفلاح یونیورسیٹی کے چانسلر جواد صدیقی نے ......................... (نام اور عہدہ) کو  ص ح ت  ایوارڈ سے نوازا’’۔
میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ ایک زمانہ تھا جب بڑے سے بڑا انعام پانے کے بعد ماہرین اس کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہتے تھے کہ ‘‘میں تو اس کا اہل نہیں ہوں لیکن منتخبہ کمیٹی نے مجھے اس کا اہل سمجھا جس کے  لیے میں ان کا شکر گذار ہوں’’، میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ آخر اس کو کیا نام دوں۔
اوپر میں نے اعزاز دینے اور نہ دینے کے اختیار کی بات کی تھی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس محفل میں شہر دربھنگہ کے مختلف اداروں کے سربراہان کو ان کی تعلیمی خدمات کے لیے اعزاز سے نوازا گیا۔ الفلاح یونیورسیٹی کی یہ کوشش یقیناً قابل قدر ہیں۔ اس حوصلہ افزائی سے کام کرنے والوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی درمیان جب کسی کام کرنے والے ادارے کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کی دل شکنی بھی ہوتی ہے۔
اس محفل میں جن اداروں کو فراموش کردیا گیا ان میں بعض ادارے صرف ادارہ ہی نہیں بلکہ تعلیم کی مسلسل تحریک ہیں۔ میں یہاں چند اداروں کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں جن کے ذکر کے بغیر دربھنگہ کی تعلیمی خدمات کو سامنے نہیں لایا جاسکتا ہے۔  

جہاں یہ اعزاز تقسیم کیا گیا عین اس کے بغل میں موجود اقرأ اکیڈمی کونہیں دیا گیا۔ اس شہر میں موجود انتہائی قدیم تعلیمی ادارہ سلفیہ اسکول ہے جس کا قیام ۱۹۶۵ میں عمل میں آیا اور آج دربھنگہ میں انجینئر اورڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد اس اسکول کے فارغین کی ہے۔ آئی اے ایس ٹاپرعامر سبحانی نے بھی اس اسکول سے اکتساب فیض کیا ہے۔ اس اسکول کے سربراہان نے نہ صرف سلفیہ اسکول اور سلفیہ یونانی میڈیکل کالج قائم کیا بلکہ مسلم اسکول اور ملت کالج کا قیام بھی ان کا مرہون منت ہے۔اس کے ساتھ ایک دینی مدرسہ شمالی ہند میں تعلیم کی شمع جلانے میں جس کی تاریخ بھی ناقابل فراموش ہے۔ اس کو بھی فراموش کردیا گیا۔مدرسہ امدادیہ اور مدرسہ حمیدیہ کی بھی اہم اور غیر معمولی تعلیمی خدمات رہی ہے۔ درس گاہ اسلامی پرانی منصفی جو کم وسائل اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں تعلیمی تحریک سے جڑا ہے وہ فراموش ہوا۔ صغری اسکول کے سربراہ میں کوئی اس کی فہرست میں شامل نہیں تھا لیکن اس کےموجودہ سکریٹری پروفیسر شاکر خلیق پروگرام کے درمیان موجود تھے تو بعض احباب کی نشاندہی پر آخر میں ان کو شامل کرلیا گیا۔مسلم گرلس اسکول جو گرچہ حکومت سے ملحق ہے مگر اس حکومت سے کوئی امداد نہیں ملتی۔ اس کے باوجود یہ لڑکیوں کو میٹرک تک بہتر تعلیم دے رہا ہے۔ لٹل اینجل، الحرا پبلک اسکول ، آپٹیمم انٹر نیشنل اسکول، راشدہ احسن اکیڈمی، امن اکیڈمی لوام، ووڈ بائن اور حمیرا پبلک اسکول دھموارہ علی نگر کو بھی فراموش کردیا گیا ۔

No comments: