دیدہ وران بہار
تذکرہ نگاری کا ایک نایاب تجربہ
”دیدہ وران بہار“ اس دیدہ ور کی کتاب
کا سرنامہ ہے جس کے دیدۂ تیز بیں
نے بہار کے افق پر مزین علم وادب کی کہکشاں میں تیز ومدھم ضو فشاں تاروں کی شناخت کی
ہے ، ادب کے اس پارکھ کو دنیائے ادب میں پروفیسر عبد المنان طرزی کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ جناب طرزی نے اصناف ادب میں ایسا طرز بیان اپنایا ہے جو بالکل اچھوتا نہ ہوتے ہوئے
بھی افتادہ رہا ہے ۔ یہ طرز بیان طرزیکے منظوم تذکروں ، تنقید اور خاکوں کی شکل میں
سامنے آیا ہے اور ان تمام میں موصوف نے خود ہی اتنے نمونے پیش کردیئے ہیں کہ ان کے
درمیان منظوم تاثرات، تذکروں ، تنقید اور خاکوں کے قواعد وضوابط بھی متعین کئے جاسکتے
ہیں۔
دیدہ وران بہار بنیادی طور پر فن تذکرہ
نگاری سے تعلق رکھتی ہے اور چونکہ پوری کتاب منظوم ہے اس لیے اسے منظوم دیدہ وران بہار بنیادی طور پر فن تذکرہ
نگاری سے تعلق رکھتی ہے اور چونکہ پوری کتاب منظوم ہے اس لیے اسے منظوم تذکرہ نگاری
کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اردو ادب میں تذکرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے بلکہ اردو تنقید کے
ابتدائی خط وخال انہی تذکروں میں ملتے ہیں۔
تذکرہ عربی زبان کے لفظ ذَکَرَ یَذکُرُ کا مصدر ہے جو یاد دہانی اور یاد آوری کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور عام طور پر سرسری ذکر کو تذکرہ کہتے ہیں۔ اسی لیے اردو زبان میں یاد کرنے کے معنی میں ایک فقرہ ”برسبیل تذکرہ“ بولا جاتا ہے جس کا مطلب دوران گفتگو کسی شخص یا واقعہ کا یونہی ذکر کرنا یا ذکر آجانا ہے۔ اصطلاح میں یہ لفظ عمومی طور پر عربی ، فارسی اور اردو زبان میں ایسی کتاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں مشہور اشخاص کی زندگی اور ان کی خدمات یا فنکاری پر روشنی ڈالی جائے۔ جیسے تذکرة العلمائ، تذکرہ علمائے ہند، تذکرة الامراءوغیرہ۔البتہ فارسی اور زبان وادب میں خصوصی طور پر تذکرہ ایسی کتاب کو کہتے ہیں جن میں شعرا کے احوال اور ان کے کلام کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے کلام پر سرسری طور پر تنقیدی تبصرہ بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب اردو نثر کا فنی ارتقا میں لکھتے ہیں:
تذکرہ عربی زبان کے لفظ ذَکَرَ یَذکُرُ کا مصدر ہے جو یاد دہانی اور یاد آوری کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور عام طور پر سرسری ذکر کو تذکرہ کہتے ہیں۔ اسی لیے اردو زبان میں یاد کرنے کے معنی میں ایک فقرہ ”برسبیل تذکرہ“ بولا جاتا ہے جس کا مطلب دوران گفتگو کسی شخص یا واقعہ کا یونہی ذکر کرنا یا ذکر آجانا ہے۔ اصطلاح میں یہ لفظ عمومی طور پر عربی ، فارسی اور اردو زبان میں ایسی کتاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں مشہور اشخاص کی زندگی اور ان کی خدمات یا فنکاری پر روشنی ڈالی جائے۔ جیسے تذکرة العلمائ، تذکرہ علمائے ہند، تذکرة الامراءوغیرہ۔البتہ فارسی اور زبان وادب میں خصوصی طور پر تذکرہ ایسی کتاب کو کہتے ہیں جن میں شعرا کے احوال اور ان کے کلام کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے کلام پر سرسری طور پر تنقیدی تبصرہ بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب اردو نثر کا فنی ارتقا میں لکھتے ہیں:
”اردو میں تذکرہ نگاری
کا آغاز فارسی کے زیر اثر ہوا ہے اور اس فن کو بنیادی طور پر بیاض نگاری کے شوق نے
جنم دیا ہے۔ رفتہ رفتہ اس بیاض میں اشعار کے ساتھ صاحبان اشعار کے نام اور تخلص بھی
شامل ہوگئے۔ بعد ازاں، نام وتخلص میں خاص ترتیب پیدا کی گئی۔ کہیں حروف ابجد کے لحاظ
سے اور کہیں ادوار شاعری کے لحاظ سے۔ پھر ان ناموں کے ساتھ شعر کے مختصر حالات وکلام
پر سرسری تبصرے اضافہ ہوا اور اس کا نام تذکرہ ہوگیا۔“
فارسی زبان وادب میں مستعمل خاص معنی سے الگ عام
معنی میں تذکرہ کا استعمال کیا جائے تو اس حوالہ سے تذکرہ نگاری کو سوانح نگاری ، تاریخ
اور خاکہ نگاری کا جزو کہا جاسکتا ہے۔ دیدہ وران بہار بھی در اصل اسی زمرہ کی کتاب
ہے۔ سوانح نگاری یا تاریخ اور تذکرہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سوانح یا تاریخ میں شخصیت
کے مکمل ارتقا کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے جبکہ تذکرہ میں اس کی گنجائش کم ہے۔ اگر
تذکرہ میں کسی شخصیت کی پیدائش، اس کے خاندان، زندگی کے مختلف واقعات کا بیان اس طرح
کیا جائے اس کی تصویر میں جان آجائے اورتصویر بولنے لگے تو کہنے دیا جائے کہ وہ تذکرہ
”تذکرہ“ نہیں کچھ اور ہوگا اور اگر یہ سب کچھ تذکرہ میں ہی مل جائے تو پھر فن سوانح
نگاری کی حاجت بھی نہیں رہ جائے گی۔ اسی طرح سوانح نگاری اور تذکرہ نگاری کے درمیان
فرق کرنا بھی دشوار ہوگا کہ کس کو تذکرہ نگاری کا نام دیا جائے اور کس کو سوانح نگاری
کا۔ تذکرہ نگار ایجاز واختصار سے کام لیتا ہے اور مشمولہ شخصیت کے بارے میں معروضی
انداز سے بنیادی معلومات بیان کرکے اس کے علم وفن پر سرسری انداز میں مگر نپا تلا تبصرہ
کردینا چاہتا ہے۔ اگر ایجاز واختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے تذکرہ کا جائزہ لیا جائے
تو اسے خاکہ نگاری کے قریب دیکھا جاسکتا ہے جیسا کہ آب حیات، جو ایک تذکرہ ہے اور بقول
ماہرین کے تذکرہ نگاری نکات الشعرا سے شروع ہوکر آب حیات پر ختم ہوجاتی ہے، اس میں
خاکہ نگاری کی بھی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خاکہ نگاری
میں وحدت تاثر کا پایا جانا ضروری ہے۔ جبکہ تذکرہ میں ایسی تحدیدلازم کرنے سے تذکرہ
نگار سے اس کی آزادی چھین لینے کے مترادف ہوگا اور یہاں بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے
کہ تب خاکہ نگاری کے صنف کی علاحدہ ضرورت کیوں آن پڑے گی۔ان سب کے باوجود دیدہ وران
بہار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض نظموں میں خاکہ نگاری کا تاثر ضرور پایا جاتا
ہے اور وہ لطف جو خاکہ نگاری کا خاصہ ہے ہمیں چند نظموںمیں ضرور ملتا ہے۔ اس حوالہ
سے اس امر پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ ادب وتنقید کی جن کتابوں میں تذکرہ نگاری کے
تئیں منفی رجحانات پائے جاتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ تذکرہ کو تنقید یا سوانح کا متبادل
سمجھ لیا گیا ہے۔ان سے بھی وہیں تقاضے کئے گئے ہیں جو تنقید یا سوانح سے کئے جاتے ہیں۔
یا پھر اس لیے کہ اس میں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اردو تنقید کی بنیاد تذکروں
پر رکھی گئی ہے یا تذکروں کی تنقیدی اہمیت کے دعوے کو باطل کرنے کی وجہ سے تردیدی بیان
میں شدت آگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنقید کی باضابطہ بنیاد رکھی جانے کے بعد ان تذکروںکی
اہمیت بالکل ختم یا کم کردی گئی ہے اور اس کے بعد تذکرہ نویسی بھی اس طرح سے نہیں کی
گئی جس طرح ابتدا میں اس سے کام لیا گیا۔ لیکن اگر تذکرہ کو سوانح اور تاریخ کا ذیلی
جزو مان کر تذکرہ لکھا جائے تو آج بھی اس کی تاریخی اہمیت اور اس کی ضرورت کا انکار
نہیں کیا جاسکتا ہے جس کو دور حاضر میں بہار کے حوالہ سے ”دیدہ وران بہار“ نے پورا
کرنے کوشش کی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی علما ئے کرام کے ایسے تذکرے لکھے
جارہے ہیں جو سوانح حیات ہے ، نہ خاکے اور نہ ہی تنقید۔
”دیدہ وران بہار“ تین
جلدوں
کو شامل پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے جس میں
مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے ماضی وحال اور استقبال کے ایسے تین سو اکیاون ادبا، شعرا، اطبا، وکلا، دانشوران، علماء،
صحافیوں،انجینئروں اور ماہرین علوم وفنون کا منظوم تذکرہ ہے جن کا علم وادب سے تعلق
قائم ہے۔ ان میں مشمولہ شخصیات کی حیات اور ان کی خدمات کو اجالا گیا ہے۔ جلد اول میں
ایک سو چھیاسی شخصیتیں شامل ہیں۔
ان میں اکیس بہارکی ایسی شخصیتیں
ہیں جو امریکہ، پاکستان، قطر، کناڈا اور کویت میں مستقل یا وقتی طور پر رہ کر علم وادب
کا چراغ روشن کئے ہوئی ہیں ۔ ایسی شخصیتوں کو” روشن دیار غیر ہے اپنے چراغ سے“ کے عنوان
سے ممیز کیا گیا ہے۔دوسری جلد میں ایک سو سولہ شخصیتیں
ہیں اور تیسری جلد میں انچاس شخصیتیں
ہیں۔ شخصیتوں کا بیان حروف ابجدی اعتبار سے کیا گیا ہے۔ جناب طرزی نے تیسری جلد کی
اشاعت کے ساتھ پہلی دونوں جلدوں کو بھی شامل کردیا ہے ۔
طرزی کی تذکرہ نگاری اور خاکہ نگاری کا طریقہ یہ
ہے کہ عنوان کے طور پر مشمولہ شخص کا نام دیتے ہیں اور کسی کسی میں ذیلی عنوان دے کر
کوئی مصرعہ یا تصریح کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس کے سلسلہ میں مختلف معلومات دیتے ہیں۔
بیشتر کے پہلے شعر میں نام، قلمی نام اور تخلص وغیرہ بتاتے ہیں۔ پھر اس کی تاریخ پیدائش
، جائے پیدائش وسکونت،ولدیت، پیشہ سے وابستگی اور اس کی خدمات کی نوعیت اور اس کے دائرہ
وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر مشمولہ شخص مصنف یا شاعر ہے تو اس کے مجموعہ کلام یا کتاب
کا نام ، شاعری یا نثر کی نوعیت اور اس کے رنگ پر اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ
اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:
نجم الحق ہے نام اصلی اور صبا اکرام ہے قلمی
٭
نام ان کا جودھیا پرشاد تھا تو بہار اپنا
تخلص رکھ لیا
تاریخ پیدائش
میں اگر اختلاف ہے تو اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں:
وہ ہے انیس سو چالیس کا پیدا
کوئی انیس سو اڑتیس بھی کہتا
(ولی عالم شاہین ، ج ۱)
اسلاف
سے وابستہ علمی وادبی ، اخلاقی کارنامہ اگر منسوب ہے تو اس کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔
اس کے فنکارانہ کمال کو واضح کرتے ہیں۔ وہ نظم میں تنقیدی مراحل سے بڑی خوبصورتی سے
گزرتے ہیں۔ جہاں فن کی تحسین اور گرہ کشائی کرتے ہیں وہیں فن کار کے فر وگزاشت کی گرفت
بھی کرتے ہوئے اس سلسلہ میں شاعری اور دیگر اصناف کے اصول اور نظریے بھی بیان کرجاتے
ہیں۔
مختلف نظموں سے اس کی مثالیں دیکھی
جاسکتی ہیں:
چار کم اٹھارہ سو جو عیسوی کا سال تھا
جنوری کی سات کو بیشک یہ پیدا بھی ہوا
دادیہال اور نانیہال ان کی تھی دونوں معتبر
قیمتی گنجینۂ سادات کے ہی تھے گہر
(شاد عظیم آبادی)
پرانی وضع کے فنکار ٹھہرے
کلاسیکی روش کے شعر کہتے
اثر تھا داغ ہی کا شاعری پر
وہی لہجہ، وہ شوخی اور تیور
(مبارک عظیم آبادی)
ڈھائی سو غزلیں اگر ہیں فکر وفن کی پاسباں
نظمیں کل دو سو پچیس ان کی ہیں اعجاز بیاں
دونوں ہی صنفوں میں دکھلایا تپش نے ہے کمال
انتخابِ الفاظ کا کرتا ہے وا، باب جمال
(عبد الصمد تپش)
شاعری ہو آئینہ، علم وادب تہذیب کا
وہ نہ بن جائے جواز اقدار کی تکذیب کا
دوراں سے پاتے ہیں ایسی شاعری کی ہم مثال
یعنی اک ارضی حقیقت، اس کے فن کا ہے کمال
اویس
احمد دوراں
”بازناں گفتن سخن“
غزلوں سے اب جاتا رہا
زندگی کے مسئلوں سے اس کا رشتہ بندھ گیا
شاعری اظہار ٹھہرے واردات عشق کا
مقصد فن اب کسی صورت نہیں یہ رہ گیا
ان کی غزلوں سے نتیجہ ہوتا ہے ظاہر یہی
عشقیہ باتوں سے ہے اس کی فضا بندی ہوئی
علم سے ہوتی ہے فکر میں گہرائی بھی
آپ کے فن میں کھٹکتی ہے کچھ ایسی بھی کمی
منصور
خوشتر
بعض
شخصیتوں پر کہی گئی نظموں میں ان کی مادر علمی اور اساتذہ کے نام بھی شامل کئے گئے
ہیں۔
کتاب کے مطالعہ سے یہ خصوصیت بھی واضح ہوتی ہے کہ
شاعر کی نگاہ مشمولہ شخص کی عام یا معمولی سرگرمیوں میں منفرد خاصیت کو پہچان لیتی
ہے ۔ لیکن بعض نظموں میں ان کا خاص التزام نہیں ملتا ہے۔
مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہ
اشعار بھی دیکھے جاسکتے ہیں:
ہے اگر انسان کوئی صالحیت آشنا
وہ محافظ ہے یقینا غایتِ تخلیق کا
بگزارد زندگی اکرام با طورِ چنیں
بر کفے دنیا بدارد، برکفے اعمالِ دیں
سر، فروغ علم کا سہرا بندھا اکرام کے
زندگی کی کامرانی کے ہیں در اُن پر کھلے
مستند شد خواجگیش ہم ز خدمات عظیم
گونہ دارد خرقہ و دستار بردوشے گلیم
(ڈاکٹر خواجہ اکرام
الدین)
طرزی ایک وسیع القلب زبا ن داں اور
فنکار ہیں ۔اپنی شاعری میں دیگر زبانوں کے الفاظ کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے
ہیں۔ ہندی کے الفاظ بھی انہوں نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیے ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ
ہو:
غزلوں میں ہے ان کا لہجہ سندر، تیکھا اور انوکھا
تذکرہ کے سلسلہ ماہرین نے جن خامیوں کا ذکر کیا ہے
دیدہ وران بہار ان تمام خامیوں سے بالکل مبرا تو نہیں ہے تاہم جو تقاضے تذکرے سے کئے
گئے ہیں ان میں سے بہت سے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ یہ کتاب شاعروں
کا تذکرہ نہیں بلکہ جملہ علوم وفنون کے ماہرین کا تذکرہ ہے اس لیے اس کتاب سے شاعروں
کے تذکروں کے تمام تقاضے پورے بھی نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
حالانکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرجناب طرزی نے
ان تین جلدوں کے ساتھ اس کتاب پر فل اسٹاپ لگادیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کا انکار تو
نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان کے علاوہ بہار میں دیدہ ورنہیں ہیں یاآئندہ پیدا نہیں ہوں
گے۔ کیونکہ بہار کی سر زمین ابھی دیدوروں کی تحمیل سے مایوس ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی
کوکھ نے دیدہ وروںکی تولید سے عاجزی کا انکار کیاہے اور نہ ایسا ہے کہ جناب طرزی کے
قلم کی روشنائی ابھی سوکھی ہے۔ علم معاشیات کی زبان میں جناب طرزی کے شاعرانہ کمالات
پر اظہار خیال کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شرح پیداوار اتنی تیز ہے کہ ادھر
طلب ہوئی اور ادھر رسد حاضر ہے۔ بس ذہن میں سودا سمانے کی بات ہے اور پھر ہوسکتا ہے
کہ چوتھی جلد حاضر۔ پراڈکشن کا سانچہ بھی اتنا پختہ ہوچکا ہے وہاں رجیکٹ ہونے والے
پراڈکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ انہیں اشعار کی تخلیق پر غضب کی قدرت ہے۔ شعر
کہنے کے لیے نہ کسی موزوں مقام کی حاجت ہے نہ موزوں وقت اور موڈ کی ضرورت۔ نہ ہی ایسا
ہے کہ اگر شعر ہونے لگے تو لکھنے پر مجبور ۔ اپنی خواہش سے جب چاہا شعر لکھ لیں اور
حسب خواہش جہاں پر چاہیں علامت اختتامیہ ڈال دیں جو گوکہ شاعری میں استعمال نہیں ہوتی
ہے۔
نوٹ:
دسمبر ۲۰۱۵ میں دیدہ وران بہار کی چوتھی جلد بھی انہوں نے لکھ دی ہے اور وہ زیور
طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر بھی آچکی ہے۔ اس میں کل ۵۰؍ شخصیات کو شامل کیا
گیا ہے۔ اس جلد میں جو شخصیتیں شامل کی گئی ہیں ان پر گذشتہ تینوں جلدوں کے برعکس
قدرے تفصیل سے نظمیں کہی گئی ہیں۔
الفاظ وتراکیب اور بندش پر بھی انہیں
کمال قدرت حاصل ہے۔ یوں تو جوش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ شعر کہتے تھے تو الفاظ
دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ یہ بات جناب طرزی کے ساتھ بھی صادق آتی ہے جس کی تصدیق کئی
صاحبان نظر بھی کرچکے ہیں۔ روانی سے شعر کہتے ہیں اور جب چاہیں اور جیسے چاہیں الفاظ
وتراکیب اور بندش میں ردو وبدل پیدا کریں۔بڑی خوبصورتی سے نظم کے درمیان ایک نہیں کئی
کئی اشعار فارسی کے نظم کردیتے ہیں تو عربی کی خوبصورت ترکیبیں بھی جا بجا نظر آجاتی
ہیں۔ تو کبھی دیگر اردو اور فارسی شعرا کے اشعار بطور تضمین یا دلیل نظم میں کھپا دیتے
ہیں۔ یہ اشعار وتراکیب بھی ایسے ماہر جوہری کی طرح مثل نگینہ فٹ کردیتے ہیںکہ قاری
کو اس کے ابھار یا دباؤکا احساس بھی نہیں ہوتا اور اہل نظراس کی لطافت سے لطف اندوز
ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ان کی فارسی دانی اور اس پر ملکہ کے قائل اہل ہند ہی نہیںاب اہل
فارس بھی ہوچکے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے شاعری کو تفنن طبع کی بجائے ایک چیلنج
کے طور پر قبول کیا ہے۔
ان سب کے باوجود چونکہ کلام پر اتمام
وکمال صرف وصف ربانی ہے ۔ اس لیے شاعر ی اپنے خالق کو مجبور کر کے اس کی عبدیت کا احساس
دلاتی رہتی ہے۔ بعض مواقع پر ایسی مجبوریوں کا شکار طرزی کو بھی ہونا پڑا ہے جس کا
اظہار دوسری جلد کے پیش لفظ میں وہ خود یوں کرتے ہیں:
”معذرت خواہ ہوں کہ مجبوری
بیان کے سبب بعض نقائص بھی پیدا ہوگئے ہیں مثلا عیسوی ، عسوی، چالیس ۔ چالس، پورنیہ
، پرنیہ وغیرہ۔ “
کتاب کی پہلی جلد کو پروفیسر وہاب
اشرفی، دوسری جلد کو پروفیسر منصور عمر اور تیسری جلد کو ایس ایم اشرف فرید اور ایس
ایم اجمل فرید کے نام معنون کیا گیاہے۔ کتاب کے ٹائٹل پربہار کے جغرافیائی نقشہ کے
ساتھ غالب کا فارسی شعر
گفتمش، چہ بود عظیم آباد؟ گفت، رنگیں تر
از فضائے چمن
درج کیا گیا
ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب دبستان عظیم آباد کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے اوراگر
اسے اس کی توسیع بھی قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کتاب کے آخر میں شاعر کے تعلق
سے ناقدین ادب کی آرا دی گئی ہیں جن میں شاعر کے فکر وفن کا مختصر مگر جامع انداز میں
جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کے مطالعہ سے یہ احساس ہوتا ہے
کہ شخصیتوں کے انتخاب میں ذرابھی تعصب سے کام نہیں لیا گیا ہے نہ ہی کسی کو کمتر یا
حد سے زیادہ برتر بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردینا نامناسب نہیں
ہوگا کہ ان جلدوں میں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جو علم وادب کے میدان میں نجوم و ماہتاب
کی طرح ابھی درخشاں تونہیں ہیں لیکن شاعر کی تیزو خردبیں نگاہ ان کے روشن مستقبل کے
آثار دیکھ رہی ہے اور ایسا ان کا اندازہ ہے کہ مستقبل میںان سے کوئی بڑا علمی وادبی
کارنامہ سرزد ہوگا۔ جناب طرزی ان کی شمولیات کا جواز خودکچھ اس طرح فراہم کرتے ہیں:
”نئی نسل کے کچھ ایسے افراد اس میں
شامل ہیں جن کے اطوار وشعار خوش آیند نظر آتے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو ان کو دیدہ وری
میسر ہوگی۔ یہ عقب نشیں شہ نشیں بھی ہوسکتے ہیں۔“
آخر میں اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ
یہ کتاب نہ صرف مطالعہ کی چیز ہے بلکہ اساتذہ اور طلبہ کے لیے حوالہ جات کے کام آنے
والے والا سرمایہ بھی ہے۔باوجودیکہ یہ کتاب تذکرہ سے تعلق رکھتی ہے اور شعرا کے تذکرہ
میں ان کے کلام کے نمونہ سے صرف نظر کیا گیا ہے لیکن پوری کتاب منظوم ہونے کے سبب کام
ودہن کو لذت بخشتی ہے۔ بہت سے اشعار مختلف نظموں میں ایسے ملتے ہیں جو اردو شاعری کے
اعلی انتخاب میں شامل ہونے اور زبان زد خاص وعام ہونے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ باتیں
طویل ہوچکی ہیں ورنہ اس طرح کی بھی کچھ مثالیں بطور نمونہ پیش کی جاتیں۔ امید کی جاتی
ہے کہ دیدہ وران بہارسوانحی تذکرہ نگاری کے فن میں ایک نایاب تجربہ اور اضافہ ہوگا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment