مشمولات

Sunday, 30 November 2014

مشاعرہ اور اردو زبان کی ترویج

از دربھنگہ
بتاریخ ۱۴؍ نومبر ۲۰۱۴ءبوقت ۱۱ بجے دن

برادرم منصور خوشتر صاحب!                                                                                            السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
                چند لمحے قبل  کی ٹیلی فونی گفتگو کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ مزاج گرامی تو بخیر ہی ہوگا۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ آپ کو مشاعروں کے تئیں میرے اعتراضات  کے ایک حصہ کا جواب حاصل ہوگیا۔ آپ کے شناسا ایک صاحب کا بچہ جو اردو سے ناواقف تھا آپ کے ذریعہ منعقد مشاعرہ کو سننے کے بعد اردو زبان سے اس کی رغبت ہوئی ۔ اس نے کئی اردو اشعار یاد کرلئے اور توقع ہے کہ وہ اردو زبان پڑھے گا بھی۔ جس سے آپ کو لگا کہ معاشرہ پر مشاعروں کا اثر ہوتا ہے اورمشاعروں سے اردو زبان کے بہت سے فائدے ہیں۔ آپ کو یہ جواب حاصل ہوا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس سے خوشی ہوئی ! اللہ کرے آپ کو ایسی خوشیاں ہمیشہ نصیب ہوتی رہیں۔
                بھائی! اس امر کو دل سے نہیں دماغ سے سوچئے۔ محض جواب سوجھ جانا ہی اہم نہیں بلکہ جواب ایسا ہو کہ اس میں جواب الجواب کی صورت پیدا نہ ہو۔ صرف یہ کہہ دینا کہ یہ آپ کی بات کا جواب ہوا اس سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا سائل اور معترض کو اس سے اطمینا ن ہوجائے گا۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ذہن میں آنے والا جواب معترض کے اعتراض کے سارے ابعاد کو شامل ہے یا نہیں ہے۔ جواب منطقی ہونا چاہیے جذباتی نہیں۔
                خیر اس بات کو جانے دیجئے آمدم بر سر مطلب کہ مذکورہ عزیز کی اردو زبان سے رغبت کی بنیاد تفریح ہے۔ جسے آپ Entertainment کہتے ہیں۔ یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے اور جذباتی فیصلہ کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے اس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے یہ کوئی اسی لڑکے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اب بیشتر مشاعروں کی بنیاد تفریحات پر ہی ہے۔سامعین ذوق سماعت سے زیادہ ذوق بصارت کی تسکین کے لیے مشاعرہ میں جاتے ہیں۔وہاں اب جمال سے زیادہ جمیل بلکہ جمیلہ پر نظر رہتی ہے۔  سامعین بصیرت حاصل کرنے نہیں چند لمحے خوش ہونے کے لیے آتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بصیرت کے حصول سے یک گونہ خوشی ہوتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اب مشاعروں میں بصیرت افروز اشعار سننے سے پہلے ہی رد کردئے جاتے ہیں۔ مشاعروں میں فوری اپیل کی شاعری کی سنی جاتی ہے ۔ عام طور پر فوری اپیل کی شاعری میں گہرائی کا امکان کم ہے۔ اس فوری اپیل میں بھی کچھ پتہ کی بات کہی جاسکتی ہے اور بسا اوقات کہی بھی جاتی ہے جو بیشتر سامعین کے ذہنوں کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔سامعین اب ایسے اشعار سننا چاہتے ہیں جو رومانی جذبات سے مملو ہوں۔وہ شعر خوب سمجھ میں آتا ہے جس میں اخلاقی قدر کی حد مٹ رہی ہو۔اس کے باوجود بیشتر شعرا کو داد وتحسین کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔اس پر بھی یہ حاصل نہ ہو تو دوبارہ شعر پڑھ کر داد مانگی جاتی ہے۔ بعض کو داد کے حصول کی خارش نظر آتی ہے۔
                 ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کے لیے تفریحات کی بھی ضرورت ہے۔ ادب تفریح بھی ہے اور دانشوری بھی ۔ لیکن آپ صحافی ہیں اور ادبی صحافت میں بھی دربھنگہ ٹائمس کی ادارت کے حوالہ سے شناوری کرلی ہے۔ آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اب مشاعروں میں دانشوری کا کوئی مقام نہیں رہ گیا ہے۔ یہاں اب صرف تفریحات کا ہی سکہ چلتا ہے۔ ایک زبان کا انحصار اگر صرف تفریحات پر ہو تو وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلے فلموں کی زبان خالص اردو تھی اب جبکہ رابطہ کی زبان ہی مخلوط ہوتی جارہی ہے فلموں کی زبان بھی مخلوط ہوتی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود اردو کا نشہ فلموں پر اب بھی ہے لیکن بتائیے کہ اس سے زبان کا کیا فائدہ ہوا۔
                زبان کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب وہ علم ، سائنس اور تحقیق وایجادات کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج پہلے زمانے سے کہیں زیادہ شاعری کی جارہی ہے۔ شاعری میں نئے مسائل بھی آرہے ہیں۔ فکشن کی رفتار بھی پہلے سے کم نہیں ہے۔ آج کے فکشن میں آج کے مسائل خوب پیش کئے جارہے ہیں۔ لیکن یہ دیکھئے کہ الماریوں کی زینت بننے کے سوا ان کتابوں کامقدر کیا ہے۔
                ادب اس وقت ہمارے لیے کار آمد ہوتا ہے جب وہ علوم کے مسائل کے اظہار میں آسانی کی راہ ہموار کرے۔ یہ ادب تجرباتی ہوتا ہے۔آپ کو بتادوں کہ اچھی شاعری سننے کی نہیں پڑھنے کی ہوتی ہے۔ جس سے صرف دل کی دھڑکنیں ہی بڑھتی گھٹتی نہیں بلکہ دماغ کے ساتوں طبق بھی روشن ہوتے ہیں۔ شاعری ایسی ہوتی ہے خواہ وہ غزل کی صورت میں ہو یا نظم کی یا شعری اصناف کی کسی مروجہ ہئیت میں یا تجرباتی ہئیت میں اگر اس میں شعریت موجود ہے، تو اس کے متن کی قرأت کے دوران قاری کے ذہن میں نور کا وفور ہوتا رہتا ہے ۔ اس منور دماغ سے مسلسل شعاعیں پھوٹتی رہتی ہیں  جیسے بجلی کے بلب سے شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ یہ شعاعیں ایسے چراغ یا بجلی کے اس بلب کی طرح نہیں ہوتیں جس کے عقبی حصہ تک روشنی نہیں پہنچتی۔ یہ وہ نقطہ نور ہوتا ہے جس سے شش جہات روشن ہوجاتے ہیں۔ کسی مقام پر انعطاف نور کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک آجاتی ہے اور چہرے پر بھی حسن وجمال کی لہریں چلتی رہتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی آلہ ایجاد کرلیا جائے جو اس  کیفیت کو محسوس کرسکے تو اس کو ثابت بھی کیا جاسکتا ہے۔ طبیعت میں بھی ایک سرور کی کیفیت رہتی ہے۔ کبھی کبھی تو  قاری کے بدن میں جھرجھری بھی طاری ہوجاتی۔ اس کے اثرات جسم کے روئیں پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیفیات اس وقت تک طاری رہتی ہیں جب تک قاری ایسی شاعری کا مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ اس درمیان قاری ‘وہ’ نہیں رہتا جو ‘وہ’ تھا بلکہ ایک نئی دنیا میں رہتا ہے۔ نظم ؍ شاعری کی قرأت ختم کرنے کے بعد بھی اس پر اس کے کچھ اثرات باقی رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے وہ اس کیفیت سے نکلتا ہے اور پوری طرح نکل جانے کے بعد بھی وہ وہاں نہیں پہنچتا ہے جہاں سے اس نے اس شاعری؍ نظم کی قرأت کا مطالعہ  شروع کیا تھا بلکہ ایک قدم آگے ہی رہ جاتا ہے۔
                میں آپ کو بتاؤں کو تنقیدی موشگافیوں سے نابلد اہل عرب نے محمد عربی ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن مجید سن کر جب ‘شاعر مجنون’ کہا تھا تو یوں ہی نہیں کہا تھا۔ ان کے کہنے کا مقصد مجنوں کی بڑ نہیں تھی۔ بلکہ وہ کلام کی تاثیر سے واقف تھے۔ میں جملہ معترضہ کے طور پر کہوں کہ احساس جمال کی بالیدگی کے باوجود آج بھی ہم  قرآن کی اس جمالیات سے محظوظ نہیں ہوسکے ہیں جس کی لذت ان بدوؤں نے محسوس کی تھی اور اسی کا اثر تھا جب انہیں کسی موقع پر قرآن کی تلاوت سن کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اب کلام کی تاثیر سے بچ نہیں پائیں گے تو اپنے کانوں میں انگلی ڈال کر نکل جاتے تھے۔ وہ عرب جانتے تھے کہ عمدہ کلام کس طرح زندگی پر اثر ڈالتا ہے۔  آپ اس دھوکہ میں نہ پڑیں گے کہ میں  معاذ اللہ قرآن کو شاعری سمجھتا ہوں یا اہل عرب اپنی باتوں میں درست تھے۔ میرا ایمان ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو نثر میں ہے البتہ اس میں موجود شعریت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ میں یہ بھی خوب  سمجھتا ہو ں کہ اہل عرب نے یہ بات کہہ کر قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تردید کی تھی۔بھائی!  مجھے صرف کلام کی تاثیر بتانے کے لیے یہ مثال لانی پڑی ہے اور بس۔
               بہر حال چھوٹی سی بات کے لیے اتنی  طویل گفتگو  ہوگئی۔ میں نے آپ کا اتنا قیمتی وقت صرف کیا۔ میں معذرت کرلیتا لیکن آپ کی زندگی میں دوستوں کا اتنا وقت تو بنتا ہے نا۔ چلئے اتنی بات ہوئی تو تھوڑی بات اور سہی ۔ چلتے چلتے اتنی بات اور گوارا کرلیجئے  ۔ معاف کیجئے تو آپ کا بڑپن، نہ  معاف کیجئے تو  دوستی میں  میرا حق۔ آپ کے جی میں بھی آئے  تو کچھ کھری کھوٹی سنا لیجئے۔ بدلہ برابر۔
لیجئے سنئے !مشاعرے کسی زمانے میں تہذیب سکھانے کا ذریعہ ہوتے تھے۔ لوگ اپنے بچوں کو مشاعرہ گاہ لے جاتے تھے تاکہ بچہ کو  نشست وبرخاست کے طور طریقے سکھانے کے ساتھ گفتگو اور طرز کلام پر قدرت دلائی جاسکے۔ زبان وبیان میں شگفتگی آئے اور مذاق عمدہ ہوسکے۔  اب مشاعروں میں اتنی گراوٹ آگئی ہے کہ نشست وبرخاست اور طرز کلام تو کجا ایک مشاعرہ میں مہذب گھرانے کی دو نسلوں کو ایک ساتھ بیٹھنا زیب نہیں دیتا۔
                                                فی الحال اتنا ہی۔ آپ کے جواب کا منتظر۔
                                                                                                                                          آپ کا مخلص
                                                                                                                                          احتشام الحق


No comments: