مشمولات

Monday, 3 August 2015

ما بعد پھانسی

ما بعد پھانسی
احتشام الحق
یعقوب میمن کو پھانسی دی جانی تھی سو پھانسی کے ضابطوں اور قانونی کارروائیوں کو پورا کرتے ہوئے بالآخر اسے پھانسی دے دی گئی۔ عدلیہ یعقوب کو مجرم تسلیم کرتی ہے تو ایک شہری کی حیثیت سے ہمیں عدلیہ کا فیصلہ بسر وچشم قبول ہے۔ لیکن آخری ایام میں جس طرح سے ملک دانشوران اور قانونی ماہرین کے درمیان اس پر گرما گرم بحث ہوئی اور  یعقوب کی  خود سپردگی سے قبل  ایجنسیوں کے ذریعہ کئے گئے معاہدوں کے خلاف سزا کی کارروائی انجام دی گئی  اس کے بعد یہ کہنا بے شاید بے جا نہ ہوگا کہ جب کبھی ہندوستانی پولیس یا تفتیشی ایجنسیاں کسی واقعہ کی تہہ تک پہنچنے اور اصل مجرموں کی گردن تک قانون کا ہاتھ پہنچانے کے لیے کسی ملزم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گی تو ایسے ملزم کو یعقوب میمن یاد آئے گا۔
 یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح تفتیش کا دروازہ بند ہوجائے گا اور مجرموں تک پولیس یا تفتیشی ایجنسیوں کی رسائی نا ممکن ہوجائے گی یا مجرم بے نقاب نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہیمنت کرکرے جیسے غیر جانب دار افسران کے ہونے کی امید ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ ساتھ ہی اس  خوش فہمی کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ  ہماری ایجنسی ہماری ایجنسی ہے۔ وہ جانتی ہے کسی کو گناہ گار کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ گناہ گار ثابت کرنے کے لیے حقائق تک پہنچے یا نہیں پہنچے حقائق بنانا جانتی ہے۔ جرم ثابت کرنے کے لیے شواہد تلاش کرسکے یا نہ کرسکے شواہد تراش سکتی ہے۔ ملزم سے سچائی اگلوانے کا ہنر اسے آئے یا نہیں اپنی بات منوانے کے ہنر سے وہ ضرور واقف ہے۔
جب کبھی کسی واقعہ کے بعد کسی پولیس یا ایجنسی کے افسر کو اپنے شانہ پر تارے ٹنکوانا ہو یا تارے بڑھانا ہو وہ  کہیں نہ کہیں سے مجرم تلاش سکتی  اور مجرم تراش سکتی ہے۔ یہ اور بات کہ یہ مجرم ملے گا کہاں؟ سرکاری رپورٹ کے مطابق چونکہ جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد  اس کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے تو ایک بلی کا بکر اور سہی۔  اس کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند مسلمان اپنی ۸ سے ۱۰ سالہ زندگی کے خوبصورت ایام بے گناہی اور جرم ضعیفی کی سزا کاٹ کر بے قصور رہا ہوتے ہیں۔
اب ہمارے قانون میں اس کی گنجائش تو ہے نہیں کہ جن افسر ان نے ان بے گناہوں سے اس کی زندگی کے بہترین دن چھین لیے، اس کے گھر والوں کو سماجی ذلت اور اقتصادی اذیت سے دوچار کیا اس کے تارے چھین لیے جائیں ۔ اس مدت میں اس نے جو تنخواہ وصول کی اس کو واپس لیا جائے ، اس کو جو ترقی ملی اس کو واپس کرتے ہوئے اپنی پہلی جگہ سے نیچے یا برخاست کردیا جائے اور اس پر قانون کا شکنجہ کستے ہوئے بے قصوروں کو انصاف دلایا جائے۔ اس لیے کہ قومی سلامتی کے نام پر سارے دروازے کھلے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جن کے اچھے دن بیت گئے ، جن کے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ، جن کے گھرانے دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں سماج میں آنکھ اٹھاکر جینے کے لائق نہیں رہے جیل سے بے قصور رہا ہونے کے بعد بھی ان کی بھرپائی ناممکن ہے۔

No comments: