از دربھنگہ
بتاریخ ۲۲؍ اگست ۲۰۱۵
ڈیئر ہما
امید
ہے صحت و سلامتی کے ساتھ گزر رہی ہوگی۔
کئی دن ہوئے ہمارے درمیان ڈھنگ کی
کوئی بات نہیں ہوئی۔ نہ کچھ کہا نہ کچھ سنا۔ آج صبح سے ہی موسم بڑا سہانا ہے۔
آسمان پر بادل منڈلا رہے ہیں۔ بس اب تب میں بارش ہونے ہی کو ہے۔ تیز بارش کے امکان
کی وجہ سے آج اسکول میں بھی چھٹی ہے۔ خالی بیٹھا کیا کروں؟ تم پاس ہو نہیں۔ جی میں
آیا خط
کے ذریعہ ہی دو چار باتیں کر لوں۔ کچھ سننے کے لیے کچھ بات
کہہ دوں۔
یہ دیکھو ابھی قلم
لے کر بیٹھا ہی تھا کہ نہ جانے کہاں سے ذہن میں یہ لا ابالی باتیں گردش کرنے لگیں۔
سارا مزہ کڑکڑا ہو گیا۔ بہت چاہا کہ ذہن سے جھٹک دوں اور یکسو ہو کر باتیں کروں
مگر یہ باتیں ہیں کہ مستقل ذہن پر اپنی گرفت سخت کرتی جا رہی ہیں۔ اب ایک ہی چارہ
ہے کہ کچھ بد مزگی برداشت کر کے تم بھی یہ
باتیں سن ہی لو۔ اس طرح میرا ذہن بھی ہلکا ہو جائے گا اور پھر شاید کچھ باتیں بھی کرسکوں۔
لو سنو!
رشتے مختلف طریقے سے بنتے ہیں۔ کچھ رشتے خون کے نہیں بول کے
ہوتے ہیں۔ ایسے دو ساتھی جب تک ایک دوسرے سے نزدیک رہتے ہیں انہیں شاید
اپنی قربت اور نزدیکی کا وہ احساس نہیں ہوتا جو ان دونوں کے درمیان ہوتی ہے۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے
دور ہوتے ہیں تو انہیں اپنی نزدیکی، قربت
اور ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ شدید احساس۔ جیسے جیسے کھچاؤ اور دوری بڑھتی ہے احساس کی شدت اور
قربت کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔جیسے ربڑ کہ اگر اس کے کسی مضبوط ٹکڑے کے دونوں سروں کو کھینچے تو دونوں ایک دوسرے سے قریب آنا چاہتے
ہیں۔ کھچاؤ کے ساتھ ان میں قربت کی ضرورت کی کشش بھی شدید ہوتی جاتی ہے۔
لیکن ربڑ تو ربڑ ہے۔ کھینچنے کی بھی ایک حد ہوگی۔ اتنی ہی
دور کھنچ سکتا ہے جنتی اس کی حد اور صلاحیت ہے۔ اس سے زیادہ کھینچنے پر ربڑ ٹوٹ
جاتا ہے اور اگر اس ٹوٹے ہوئے ربڑ کو جوڑ بھی دیا جائے تو اس میں گانٹھ پڑہی جاتی ہے۔
یا پھر کھینچا تو
اس کی حد ہی میں جائے لیکن اس کو کھنچی ہوئی حالت میں غیر معین وقت تک چھوڑ دیا
جائے ۔ ایسی صورت میں بھی وقت کی تیز دھوپ اور بارش اس کو جگہ جگہ سے سنڑانا شروع
کر دیتی ہے اور اسی کھنچی ہوئی حالت میں وہ
ہوا کے جھونکوں سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کی گانٹھ اور بھی کمزور ہوتی
ہے۔ گانٹھ لگاتے ہی ٹوٹ جاتا ہے یا ذرا
برابر بھی کسی مزید کھچاؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
بول کے رشتوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہے۔ اگر ان کے درمیان کے
کھچاؤ کو بہت بڑھا دیا جائے یا اسے کھنچی
ہوئی حالت میں لمبی مدت تک چھوڑ دیا جائے تو ٹوٹنا اس کا مقدر ہے۔
پھر ربڑ تو بے جان شے ہے۔ اس کی کشش ہمیشہ اپنے ہی حصہ
کی طرف ہوگی۔ رشتے جو جاندار کا حصہ ہیں اس میں اگر کھچاؤ بنا رہے تو انسان کی
اپنی فطرت ہے کہ وہ کشش کے بغیر جی بھی نہیں سکتا۔ ایسے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک
کھچاؤ کی دوری مستقل بنے رہنے کے بعد دوسری کشش اسے اپنی طرف لے لیتی ہے۔یا فولاد
کا کوئی دوسرا ٹکڑا اس کی مقناطیسی شخصیت کی پناہ میں جاں گزیں ہو جاتا ہے۔ اس طرح
بھی پہلے کھچاؤ کا رشتہ خود بخود کمزور ہو کر ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ کھچاؤ تعلقات اور زمان و مکان کا بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ
تعلقات کی کشیدگی اور زمانی و مکانی بعد کی کشش کے درمیان قدرے فرق ہوتا ہے۔ تعلقات
کی کشیدگی میں زیادہ تر کچھ وقفے یا لمحے کے لیے بالکل کشش نہیں ہوتی جبکہ زمانی و مکانی بعد کے درمیان کشش کا فقدان کم ہوتا ہے یا ہوتا
بھی ہے تو دونوں کی کیفیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ لیکن ہر حال میں کھچاؤ کے بعد کشش
ضرور ہوتی اور نظر انداز نہ کیا جائے تو
شد ت میں اضافہ کے ساتھ کشش برقرار رہتی ۔
دیکھو
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور میں کہاں سے اچاؤ کھچاؤ کو پھیر میں پڑ گیا۔ چلو اس
بات کو یہیں رہنے دو۔ لیکن ہاں اب تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ ساری باتیں میں نے تم سے
ہی کہیں ہیں۔ کیونکہ میرے اور تمہارے
درمیان میں بھی تو بول ہی کا رشتہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارا رشتہ بول کا ہے لیکن
ہمارے بول کے رشتے کے درمیان اب دو خون کے رشتے بھی تو آگئے ہیں جو ہمارے بول کے
رشتہ کو کچے دھاگے سے بندھا نہیں رہنے دیتے۔
‘‘ملے دل سے دل زندگی مسکرادی’’
فقط
بس تمہارا
احتشام الحق
No comments:
Post a Comment