تبصرہ
نام کتاب:
ٹھہری ہوئی صبح (افسانے)
تصنیف:
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد
سن اشاعت:
۲۰۱۵
قیمت: ۲ سو روپے
صفحات:
۲۱۱
ملنے کا
پتہ: ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ
مبصر: احتشام
الحق
کہانی کہنا
اور کہانی سننا یہ انسانی زندگی کا شاید لازمہ ہے۔ انسان تب بھی کہانیاں سنتا اور کہتا
تھا جب زندگی محدود تھی۔ محدود زندگی کو گذارنے کے لیے وسائل بھی محدود اور تفریحات
کے ذرائع بھی مفقود تھے۔ ایسی محدود زندگی کو بسر کرنے کے لیے لا محدود تگ ودو کے بعد
اس وقت کا انسان رات کو جب بستر پر جاتا تھا یا تگ ودو کی زندگی میں جب کبھی فرصت کے
لمحات میسر ہوتے چھوٹی بڑی کہانیاں سنتا تھا۔ ظاہر ہے سننے والے تھے تو کہنے والا بھی
تھا۔ آج جب لامحدود زندگی کے لامحدود مشاغل ہیں اور اس لا محدود زندگی میں گذر اوقات
کے لیے مشکل اور آسان ہر طرح کے پیشے میسر ہیں اور تفریح کے ذرائع بھی لا محدود تب
بھی کہانیاں سنی اور پڑھی جاتی ہیں اور کہانیاں کہی بھی جاتی ہیں۔ کہانی وہ بھی ہے
جو اردو زبان کی کتابوں میں سود وزیاں کی پروا کیے بغیر لکھی جاتی ہے اور کہانی وہ
بھی ہے جو فلموں کے پردے پر پیش کی جاتی ہے اور باکس آفس پر گذشتہ فلموں کو پیچھے چھوڑتی
ہوئی کامیابی کی تاریخ رقم کرتی ہے۔ کہانی وہ بھی ہے جس کو قسط وار ہماری خواتینِ خانہ
یا ملازمت پیشہ خواتین امور خانہ داری کو ملتوی کرکے روزانہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر
سیریل کے نام پر دیکھتی ہیں۔
کہانیاں وہ بھی تھیں جنہیں ہماری نانی
، دادیاں یا محلہ کی خواتین سناتی تھیں اور محلہ کے بچے رات کی پڑھائی ختم کر کے سونے
جاتے ہوئے بستر پر سنتے تھے اور کہانیاں وہ بھی تھیں جن کو ہم کتابوں میں الف لیلہ،
طلسم ہوش ربا کے نام سے جانتے ہیں اور کہانی ہیری پوٹر کی بھی ہے جو لڑکوں کو اپنا
دیوانہ بناتی ہے۔
جب ہم کہانی پڑھتے ہیں ہمارے گرد تصورات
کا ہالہ بننا شروع ہوجاتا ہے اور ہم کہانی کے درمیان کھوجاتے ہیں۔ کہانی میں جو کچھ
بیان ہوتا ہے وہ شاید اس مقام پر موجود نہ لیکن ہم اس کو یقین کی آنکھوں سے دیکھتے
ہیں۔ یہ کہانی کار کے زبان کا جادو ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیان سے ہمیں خیالی دنیا سے
حقیقت کی دنیا میں پہنچادیتا ہے۔ ہمارے سامنے ابھی مجیر احمد آزاد کی کہانیوں کا مجموعہ”
ٹھہری ہوئی صبح“ ہے جو ہمیں ہماری زندگیوں کے ایسے حقائق سے واقف کراتا ہے جس سے ہم
روزانہ واقف ہوتے ہیں۔ ہم ان حقائق میں پنہاں کرب کو محسوس بھی کرتے ہیں لیکن انہیں
اپنے مستقل احساس کا حصہ نہیں بناپاتے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرے اور ہمارے رویہ میں
تبدیلی لادے۔
”ٹھہری ہوئی صبح “میں کل سولہ افسانے
شامل ہیں جن کے موضوعات ہماری آس پاس کی زندگی ہے۔ بیشتر کا تعلق دیہی یا نیم شہری
زندگی کے متوسط طبقہ سے ہے۔ کہانیوں کے موضوعات ومسائل گرچہ الگ لگ ہیں لیکن ان تمام
میں قدر مشترک کے طور پر تعمیر پسند فکر کا غلبہ نظر آتا۔افسانہ نگار نے جن مسائل کو
ان کہانیوں میں بیان کیا ہے اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں
اکثر کرتے رہتے ہیں۔ عام طور پر جب ایسے مسائل، سماج کے ایسے انتشار اور قدروں کا ایسا
زوال ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں تو ہم بڑی حد تک یک رخے ہوکر سوچنے لگتے ہیں اور اس
کے سلبی پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن افسانہ نگار ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے اپنی
فنکاری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے ایجابی پہلوؤں بھی نظر رکھی ہے اور ہر کہانی میں امید
کا دامن تھاما ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فنکار سماج میں لاکھ خرابیوں کو دیکھنے
کے باوجود اس میں بدلاؤ اور بہتری کے توقعات سے ناامید نہیں ہوا ہے۔
کتاب میں شامل کہانیاں بیانیہ کی تکنیک میں لکھی گئی ہیں
اور زندگی کے پیچیدہ مسائل کی ترجمان ہیں لیکن فنکار نے ان پیچیدہ مسائل کو بیان کرنے
کے لیے پیچیدہ اسلوب کو اختیار کرنے کے بجائے سادہ اور سپاٹ اظہار کو اختیار کر کے
بیان پر اپنی قدرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ورنہ ہمارے یہاں اس ناکامی کی پردہ داری یہ
کہہ کر کی جاتی ہے کہ زندگی کے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں ان کو بیان کرنے کے لیے پیچیدہ
اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد کا بیان کا یہ سادہ اور سپاٹ لہجہ
قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔
کتاب میں شامل سولہ کہانیاں اپنی اپنی
جگہ پر اپنا مقام رکھتی ہیں لیکن انہی کے درمیان و”یران آبادی“ ایک اہم مسئلے کو بیان
کرتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ترقیوں کا خواب ، دیہی زندگی کے محدود اقتصادی وسائل اور
قناعت پسندی کے فقدان نے شہری زندگی کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ اب گاؤں کے گھر اولڈ
ایج ہوم بنتے جارہے ہیں۔ وہیں ”عورت ہوں نا!“ میں سماج میں رائج عورت کی ملازمت کے
سلسلہ میں رد واختیار کے دونوں پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہوئے ایجابی سوچ کو اجالا گیا
ہے۔” سیاست“ میں موجودہ ہندوستانی سیاست اور ہندواور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی
کشیدگیوں کے پیچھے پنہاں سیاست کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ افسانہ” ٹھہری ہوئی صبح“ جس
کے عنوان سے کتاب کا نام بھی معنون ہے اچھا تناظر رکھتی ہے یاد ماضی کی کیفیت اور آبائی
ورثے سے وابستہ یادوں کو ظاہر کرنے والی نمائندہ کہانیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔جدید
اور اعلی تعلیم کے نام پر بے مہار آزادی، روشن خیالی کے نام پر عصر حاضر میں اعلی اقدار
کی پامالی کا جو منظر نامہ ہمارے سامنے ہے اس کی ایک جھلک ”ہم سائیگی“ میں دیکھی جاسکتی
ہے۔ دوسری شادی اورسوتیلی ماں کا تصور ہمیشہ سلبی پہلوؤں کے ساتھ ہمارے ذہن میں جالابنتے
ہیں لیکن افسانہ نگار نے ”میری ماں“ میں اس کے ایجابی پہلوؤں کو اس طرح روشن کیا ہے
کہ اس خیال کا ہم نوا ہونا پڑتا ہے۔” کلر پیج“ موجودہ صحافتی بدعنوانیوںکا بہترین اشاریہ
ہے۔”دل لگی“،” صبح کا بھولا “ اور ”روشنی“وغیرہ کہانیاں بھی قاری کو سوچنے پرمجبور
کرتی ہیں۔ اس طرح ہر کہانی اپنے تناظر میں منفرد معنویت رکھتی ہے اور زندگی کے ہر لمحہ
میں تعمیر کے امکان کو روشن کرتی ہے۔
کتاب میں جو افسانے شامل ہیں وہ ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۱ کے درمیان ملک وبیرون
ملک کے معیاری ادبوں رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔ افسانہ نگار نے منتشر افسانوں کو اس
کتاب میں یکجا کرکے اردو داں طبقہ کو ایک تحفہ دیا ہے۔
محکمہ راج بھاشا کے مالی تعاون سے
شائع ہونے والی اس کتاب کو افسانہ نگار ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر
محمد ضمیر الدین ضیاءکے نام معنون کیا ہے۔ کتاب کے بطن میں تحریر ظہری کے عنوان سے
افسانوں میں آنے والے مقامات اور کردا وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے
مختصر سے پیش لفظ میں اس کتاب میں شامل افسانوں کو جذبات و احساسات کی تیز رو سے مغلوب
اور کسی فنی ضابطے کی تلاش کے بغیر پیشکش کا دعوی کرتے ہوئے خود اعتمادی کے ساتھ قارئین
کی خدمت میں پیش کردیا ہے اور اپنی افسانہ نگاری پر کسی سے بلند وبانگ دعوے کرانے کی
ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ کتاب کا ٹائٹل عنوان کے لحاظ اور افسانہ کے موضوع سے قدرے
مناسبت رکھتا ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت بھی بہترین ہے جس سے افسانہ نگار کے ذوق جمال
کی عکاسی ہوتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ افسانہ نگار کا
یہ تیسرا افسانوی مجموعہ فن افسانہ نگاری کے میدان میں اپنی منفرد پہچان بنائے گا اور
سماج کے لیے آئینہ داری کا کام بھی کرے گا۔
٭٭٭
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا
No comments:
Post a Comment