تاریخ کوروڈیہ
مصنفہ
ڈاکٹر ارشد جمیل پر ایک نظر
ہر عہد کی اپنی
مخصوص شناخت ہوتی ہے۔اکثر تویہ اپنی روایت کے حصہ اور تسلسل کے طور پر ہی پہچانی
جاتی ہے لیکن جب کسی عہد میں اعلی اقدار وروایات کے سنہرے سلسلے سابقہ عہدوں کی
اقدار وروایات سے متمیز ہونے لگتے ہیں تویہ اس عہدکی انفرادیت بن جاتی ہے اورکبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں کسی عہد میں یہ تسلسل بھی باقی نہیں رہ پاتا
ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی عہد کی اہمیت اسی وقت تسلیم کی جائے جب اس کی باقیات
زمانے اور صدیوں بعد بھی آنے والی نسلوں کو نظر آتے رہیں یا تاریخ میں اس عہد کے
اجتہادی یا تحریکی کارنامے نظر آئیں۔ اکثر باقیات کا تعلق تو کسی عہد کے شخص یا
اشخاص معین ہی سے ہوا کرتا ہے لیکن ہر عہد میں ایسے بہترے اشخاص ہوتے رہے ہیں جو
ایسے تہذیبی آثار چھوڑجاتے ہیں جن کا احساس وادراک ان کی موجودہ نسلوں کے شعور کی
بالیدگی سے ہوتا ہے۔ در حقیقت تاریخ میں ایسے ہی افراد اصل اہمیت کے حامل ہیں۔
کیوں کہ یہ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جو انسانیت کی اس عظیم روایت کو آگے بڑھاتے رہے
ہیں جن سے حضرت انسان اشرف المخلوقات کے رتبہ پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن اس تلخ حقیقت
سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے افراد ہمیشہ پائیدار یادداشتوں سے نظر انداز
کئے جاتے رہے ہیں اور اگر ایسے کاموں کی طرف کبھی توجہ دی گئی ہے تو ایسے ہی افراد
کی طرف سے جن کی نگاہوں میں تہذیب واقدار کی تعمیر وتشکیل ، بقا اور حفاظت مہتم
بالشان کام ہو اور جنہوں نے سماج کے ارتقا کے لیے اسے لازمی خیال کیا ہو۔
’’کورو ڈیہ ‘‘ ضلع بھاگلپور کی ایک
ایسی ہی مردم خیر بستی ہے جو تاریخی اور علمی اہمیت کی حامل ہے۔ اس بستی اور اس کے
اہالیان کے اجتہادی، علمی اور تحریکی کارنامے تاریخ میں تو جگہ پانے کے لائق ہیں
ہی ساتھ ہی ایسی عظیم ہستیاں بھی یہاں ہر دور میں موجود رہی ہیں جنہوں نے نسل
انسانی کی وراثت کو اپنے اسلاف سے حاصل کرکے اسے نئے اور مزید بالیدہ شعور کے ساتھ
آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ہے۔
’’تاریخ
کوردو ڈیہ‘‘ جلد اول ڈاکٹر ارشد جمیل کی تازہ ضخیم کتاب ہے جس میں کوروڈیہ کے ۳۴۸ اشخاص
کو ان کے ناموں کی سرخی کے ساتھ مختلف عناوین کے تحت جگہ دی گئی ہے۔ ان میں وہ بھی
ہیں جن کے نقوش پا تاریخ میں اجتماعی جدو جہد کے لیے نظر آتے ہیں اور ایسے افراد
بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانیت کی اعلی قدروں کی حفاظت کی ہے اور اپنی آنے والی
نسلوں کا ان کا امین ومحافظ بنایا ہے۔
کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ موضع کوروڈیہ ایک قدیم بستی ہے جو عہد اسلامیہ
میں عصمت اللہ پور کے نام سے جانی جاتی تھی اور جس کے آثار وباقیات اب بھی اس مقام
پر پائے جاتے ہیں جو ”ڈیہ“ کے نام سے موسوم موجودہ آبادی سے متصل تقریبا سو بیگھ
کی غیر آبادیا ویران اراضی پر مشتمل ہے جس”کی باقیات میں عہد مغلیہ کے سکے، پختہ
مکان کی بنیادیں، ایک عدد پختہ کنواں، تالاب پر پختہ گھاٹ بطور آثار قدیمہ دریافت
ہوئے ہیں۔ ایک پختہ عمارت کی شکستہ دیواریں اب بھی اس کی عظمت رفتہ کی گواہ ہیں۔ مختلف قسم کے آلات،
ظروف اور دیگر آثار بھی وقتا فوقتا دستیاب ہوئے ہیں۔ “ شاہ عالم بادشاہ ثانی کے
عہد کے سکہ کو خود مصنف نے بھی دیکھا ہے۔ اس بستی کی عظمت ، قدامت اور تاریخی
حیثیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ اس بستی کی ایک معزز شخصیت قاضی نعیم اللہ شاہ
عالم بادشاہ ثانی (۱۸۰۶ء ۔ ۱۷۵۹ء) کے عہدمیں عہدہ قضاءپر مامور تھے اور ان کے
خاندان کے کئی افرادمثلا قاضی صبیح اللہ، قاضی فتح اللہ اور قاضی حبیب اللہ وغیرہ
اس عہدہ پر مامور ہوتے رہے تھے۔ اسی خاندان کی ایک اہم شخصیت مولانا محمد یونس کی
تھی جنہوں نے ابھی حال ہی ۳۰ جون۲۰۱۰ء میں
وفات پائی ہے ۔ مولانا موصوف کے پاس اس زمانے کی مہریں بھی موجود تھیں۔ دوسری
شخصیت مرزا عبد اللہ بیگ کی تھی جو عہد مغلیہ کے آخری دور میں کہیں صوبہ دار تھے،
ان کو سبک دوشی پر جاگیر میں تین سو بیگھ زمین عطا ہوئی جس میں۱۴۴ بیگھ
زمین کورد ڈیہ میں تھی۔
اس کے علاوہ اس بستی کی تاریخی اہمیت کا سب سے
سنہرا باب اس کا قومی وملی اور تعلیمی تحریکو ں میں حصہ ہے۔ یہ علاقہ معاشی طور پر
کسی طورسے ہمیشہ خوش حال رہا ہے ۔ اس لیے ابتدا سے ہی تعلیم کی طرف توجہ رہی ہے۔
اس گاؤں کے بیشتر افراد تعلیم
یافتہ ہیں۔ ابتدا سے تعلیمی رجحان مذہبی رہا ہے۔ لہذا اہالیان بستی کا دارالعلوم
دیوبند سے تعلیم کے تعلق سے ایک قدیم رشتہ ملتا ہے۔ اسی رشتہ کی وجہ سے جہد آزادی
میں بھی ان کی شرکت رہی ہے۔ چنانچہ مصنف علماءدیوبند خصوصا شیخ الاسلام مولانا
حسین احمد مدنی کے ضمنا ذکر کے بعد لکھتے ہیں ”آپ کی ذات سے بھاگلپور کا یہ مشرقی
علاقہ جمعیة العلما ءاور کانگریس کا ایک گڑھ بن گیا او ریہ علاقہ متحدہ قومیت اور
وطنی وحدت کا حامی رہا۔ اس علاقے نے دو قومی نظریہ کی کبھی حمایت نہیں کی۔ یہی وجہ
ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر اس علاقے سے ہجرت کے نام پر کوئی آبادی منتقل نہیں
ہوئی ۔“ جد وجہد آزادی کے ساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند سے اس علاقہ کے فیضیاب طلبہ
نے تعلیمی سرگرمیوں کو بھی اتنا تیز رکھا کہ علاقہ کی ہر بستی میں اچھے اچھے
اداروں کو قیام عمل میں آیا جنہوں نے اپنے عمدہ نظام تعلیم وتربیت کی وجہ سے اپنی
منفرد پہچان بنائی ۔ اور ان میں پڑھنے والے طلبہ نے اپنے اپنے وقتوں میں قوم وملت
کی عظیم خدمات انجام دیں۔ انہی خدمات کا صلہ ہے کہ حضرت مولانا محمد علی مونگیری،
مولانا محمد سہول عثمانی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، شیخ الادب مولانا
اعزاز علی امروہوی، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی،مولانا سید منت اللہ
رحمانی، مولانا سید اسعد مدنیؒ ، مولانا خلیل احمدرحمھم اللہ اور مولانا اشفاق
احمد جیسی ہندوستان کی متبرک شخصیتوںنے اپنے قدوم میمنت لزوم سے اس بستی کو زینت
ووقار بخشا ہے۔ ان اداروں میں اعلی تعلیم کا انتظام تھا۔ جن میں اپنے فن کے ماہر اور
طاق علماءمسند درس پر فائز تھے ۔ خود مصنف نے عالم تک کی تعلیم ان ہی مقامی اداروں
میں حاصل کی ہے۔
بہر کیف یہ کتاب کورو ڈیہ کے ساتھ ساتھ اس علاقہ
کے دوسری بستیوں کے بارے میں تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے ۔ جیساکہ مصنف نے خود
لکھا ہے ”تاریخ کورو ڈیہہ“ محض ایک علامت ہے ورنہ علاقے کی ہر ایک بستی مستقل اپنی
تاریخ رکھتی ہے۔“
مصنف
کا آبائی مکان کورو ڈیہ ہے ۔اور انہوں نے فاضل سے یونیورسٹی تک کی تعلیم پٹنہ ہی
میں حاصل کی اور اس کے دو تین سالوں کی ملازمت کے بعدتقریبا۳۰ سالوں
سے بحیثیت ریڈریونیورسٹی شعبہ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ میں ملازمت
کررہے ہیں۔گو کہ یہ کتاب کورو ڈیہ کی تاریخ بیان کرنے کے لیے لکھی گئی ہے لیکن اس
کتاب کا سب سے اہم اور دلچسپ باب ”داستاں میری“ ہے ۔ اس باب میں مصنف نے اپنے
احوال وکوائف کے ساتھ ان اداروں کے تذکرے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی، اساتذہ کے
حالات اور اپنی ملازمت کے عہد کے دربھنگہ کے حالات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ یہ
کتاب اس حیثیت سے بھی بہت دلچسپ ہے کہ ان کے دور طالب علمی کے پٹنہ اور اس وقت کی
علمی شخصیات کے بارے میں وافر معلومات حاصل کرنے باوثوق ذریعہ ہے۔ خاص طور پر وہاں
کے ادارے مثلا بہار مدرسہ بورڈ کے حالات تشکیل کے وقت سے تاحال تاریخی حیثیت سے
جاننے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدرسہ بورڈ
سے مصنف کانہ صرف بہت قدیم تعلق ہے بلکہ آج کا بہار مدرسہ بورڈ مصنف اور ان کے
رفقاءکی جدو جہد کاہی ثمرہ ہے۔ خود مصنف اظہار عالم (آئی پی ایس) رضوان الحق ندوی
کے بعد اولڈ بوائز ایسو سیئشن کا سکریڑی رہے ہیں۔ ساتھ ہی مدرسہ شمس الہدی پٹنہ،
عربک اورپرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، اور پٹنہ یونیورسٹی کے بارے میں جو معلومات
فراہم کی گئی ہے وہ بھی استنادی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ کتاب مصنف کے رفقا کے بارے میں
بھی معلومات فراہم کرتی ہے جو اعلی عہدوں پر فائز ہوئے ہیں اور روشن علمی وادبی
کارنامے بھی ان سے منسوب ہیں ۔
پٹنہ
کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اساتذہ کے بارے میں معلومات اور تاثرات کا اظہار
کیا ہے۔ گرچہ یہ شخصیتیں انتہائی معروف اور مستند ہیں اور ان کے بارے میں دوسری
کتابوں میں معلومات ملتی ہیں لیکن اس کتاب میں بیان شدہ معلومات کا تعلق مصنف سے
ذاتی ہے اور اس میں دوسرے شریک نہیں ہیں اس لیے بہت سی باتیںدوسری تحریروں میں
نہیں آسکی ہیں ۔ اس باعث ان شخصیتوں کے افکار وخیالات کو جاننے کا یہ ایک اہم
ذریعہ ہے۔
اسی
باب میں انہوں اپنے عہد ملازمت کے دربھنگہ کا ذکر کیا ہے ۔ اس میں دربھنگہ اور
دربھنگہ میں قیام پذیر پچاس سے زائد شخصیتوں کے حالات ، دربھنگہ کے اقلیتی ادارے ،
دربھنگہ سے نکلنے والے رسائل وجرائد کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا
ہے۔افراد واشخاص کے ذکر میں مصنف نے کسی تعصب سے کام نہیں لیا اور جس سے جس طرح
متاثر ہوئے ہیں بالکل اسی طرح بیان کردیا ہے۔ دربھنگہ سے مصنف کا لگاؤانتہائی گہرا ہے اس کا
اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے دربھنگہ علم وادب دوست شاعر شاداں فاروقی
کے سانحہ ارتحال پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”آپ کی موت نے اس شہر نگاراں
کو ایسا کم مایہ کردیا کہ کہیں نظر نہیں ٹھہرتی“۔ دربھنگہ ہی کے ذکر کے ساتھ انہوں
نے ایسی علمی وادبی شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے جن کا تعلق دربھنگہ سے نہیں رہا ہے
لیکن چونکہ ان کے عہد ملازمت میں ان سے مصنف کے تعلقات استوار ہوئے یا ملاقات ہوئی
یا ان کا انتقال ہو اجن سے مصنف متاثر ہوئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض واقعات اور
شخصیات سے متعلق انہوں نے اپنی یاد داشتیں شامل کی ہیں جنہوں نے انہیں متاثر کیا
ہے۔ یہ حصہ بھی بہر حال معلومات کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔
انہوں
نے دربھنگہ کا ذکر کرتے ہوئے ۱۹۸۷ اور ۲۰۰۴ کے
سیلاب بلاخیز اور ان کی تباہیوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ ایسے واقعات اپنے وقت
میں اخبارات میں نمایاں ہو کر شائع ہوتے ہیں لیکن جلد ہی بھلادیئے جاتے ہیں۔ کتاب
میں اس کا ذکر آنے والوں وقتوں میں ان حالات کے جاننے کے لیے یقینا اہم ہوگا۔
جب
اس کتاب پر ایک نظر ڈالی جاتی ہے تو سب سے پہلے کوروڈیہ کی سوسالہ قدیم تاریخی
مسجد کے اندر اور باہر کا منظر پیش کرتی ہوئی تصویریں ہیں۔ یہ تصویریں بتاتی ہیں
کہ مسجد فن تعمیر کے اعتبار سے بڑی خوبصورت اور قدیم فن کا نمونہ ہے۔اس کے بعد
مصنف کے استاد پروفیسر مطیع الرحمن کے ہاتھوں سے تیار شدہ اس کا علاقہ نقشہ دیا
گیا ہے۔اس کے بعد مصنف کا پیش لفظ ہے ۔ مقدمہ پروفیسر لطف الرحمن نے لکھا ہے اور
”یادوں کی جستجو کا سلسلہ “کے عنوان سے جناب حقانی القاسمی کی لکھی ہوئی تقریظ ہے۔
پھر ”یادوں کے چراغ “کے عنوان سے گاؤں کی ۴۱ اہم رفتگاں شخصیات کے بارے میں تاثرات ہیں ۔
”ذکر ہم نفساں“ کے تحت گاؤں کے موجودہ۷۰علما کے احوال وآثار دیئے گئے ہیں ۔ اس کے بعد
کا باب” داستاں میری “ ہے جس میں مصنف اور ان سے متعلق مقامات، حالات واقعات اور
شخصیات کا تذکرہ ہے۔ ”کاروان شوق “کے تحت ابجدی ترتیب میں گاؤں کے ۱۱۷حفاظ
کے نام مع ولدیت گنائے گئے ہیں۔’’گ حجاج کرام ‘‘ کے تحت گاؤں کے ۱۲۰ مرد
وخواتین حجاج کے نام مع ولدیت یا شوہر کے نام کے ساتھ پہلے ، دوسرے اور تیسرے حج
کے سنین اور سنہ وفات کے ساتھ گنائے گئے ہیں۔ پھر” سرچشمۂ ہدایت “کے تحت بشمول
بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیورسٹی اور عربک اینڈ
پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پٹنہ کے علاوہ ہ بہار اور بہار سے باہر دارالعلوم دیوبند
اور ندوة العلماءلکھنؤ جیسے گیارہ مدارس کے بارے میں واقفیت فراہم کی گئی جن
سے اس گاؤں
کے لوگوں نے اکتساب فیض کیا ہے۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور مولانا مظہر الحق
عربی وفارسی یونیورسٹی کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کے تحت رکھا گیا ہے ۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ اور MMAPUکی حیثیت مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کے ذکر کے
بغیر نہیں ہوسکتی ہے۔ دراصل ان کا قیام شمس الہدی کی تعلیمی سرگرمیوں کا ہی حصہ
ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کتاب میں علاقے کے جن مدارس کا ذکر ہوا ہے انہیں دارالعلوم
دیوبند اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ بہار
مدرسہ بورڈ کے حالات کے ذکر میں بورڈ کی تشکیل کے وقت بہار گزٹ کے جاری کردہ
نوٹیفیکیشنوں کے عکس بھی دیئے گئے ہیں۔ اسی میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کے ۵اور
عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے۱۰ نامور اساتذہ کا بھی تذکرہ
کیا گیا ہے۔ اس کے بعد” کورد ڈیہ ۔ جلوہ گاہ عارفاں“ کے تحت ۹ علماءربانیین
کا تذکرہ ہے جنہوں نے اس گاؤں کا مختلف اوقات میں معائنہ مشاہدہ کیا ہے۔ ”نقشہائے دگر“ کے تحت
بعض علمی وادبی اور سیاسی شخصیتوں کے خطوط اور دوسری تحریروں کے عکس ہیں جن میں
ایک استقبالیہ نظم بھی شامل ہے۔ ان خطوط میں سے بعض خود مصنف کے نام ہیں تو بعض
دوسری شخصیتوں کے۔ بعض خطوط مدرسہ بورڈ کی سرگرمیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی باب کے
آخر میں ڈاکٹر رضوان الحق ندوی کی تحریر ہے جو مصنف کی دختر کی شادی کے موقع سے اس
گاؤں کا سفر نامہ ہے۔یہ تحریر اس گاؤں کے تہذیبی رکھ رکھاؤاور آپسی لگاؤ کو
سمجھنے کے لیے بڑی اہم ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم ”باب رشتوں کی تلاش“ ہے۔ اس وقت جب
کہ انساب کی اہمیت ختم ہوتی جارہی مصنف نے اپنے گاؤں کے شجرے جو آٹھ خاندانوں
پر مشتمل ہیں ،بڑی محنت سے ترتیب دیئے ہیں بعض خاندان کے شجرے ۷ حصوں
میں بیان ہوئے ہیں۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی اخوت پیدا کرنے کے لیے علم
الانساب کی افادیت مسلم ہے۔ اور اخیر میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی اور ڈاکٹر منصور
عمر کے تاریخی قطعات ہیں۔
جیساکہ
اوپر ذکر ہوا یہ کتاب موضع کوروڈیہ کی تاریخ ہے اور بقول مصنف تاریخ کوروڈیہ تو
ایک علامت ہے ورنہ یہ کورو ڈیہ کے پورے مضافات کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے۔
اسی طرح داستاں میری میں انہوں نے اپنے حالات بیان کرنے کا التزام کیا ہے لیکن
حقیقت یہ ہے اس میں مصنف کا تذکرہ واقعات کے تاروں کو ملانے کے لیے ہی کیا گیا ہے۔
اگر ان کی شخصیت کو نکال دیا جائے تب بھی یہ کتاب یاد داشتوں یا ایک تذکرہ کی شکل
میں مکمل ہوسکتی ہے۔ کہیں بھی مصنف نے اپنی ذات کو فوکس نہیں کیا ہے۔
جہاں
تک اس کتاب کے تاریخی ہونے کی بات ہے تو اس کی حیثیت اس طرح تاریخی ہے کہ اس میں
بیان ہونے والے واقعات وحقائق بڑی حد تک تاریخی اور مستند ہیں۔ حالانکہ اختلاف کی گنجائش سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی نوعیت سہو کی ہے اور اس سے حقائق مسخ نہیں ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ کتاب تذکرہ ہے جس
میں ان کے دور طالب علمی کا پٹنہ اور دور ملازمت کے دربھنگہ کے اہم اداروں اور
شخصیتوں کا ذکر کہیں تفصیل سے تو کہیں اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس
میں مدرسہ شمس الہدی ، بہار مدرسہ بورڈ ، مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی
اور عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، پٹنہ کے بارے میں دی گئی معلومات انتہائی
مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر قومی وملی تحریک میں ضلع
بھاگلپور کے حصہ کا جائزہ لیا جائے تو جنوبی مشرقی بھاگلپور کے علاقہ کی سرگرمی
جاننے کے لیے یہی کتاب ایک واحد ذریعہ ہوگی۔
واقعی مصنف نے یہ کتاب لکھ کر اپنے اسلاف کی خدمات کو محفوظ کردیا ہے۔ مصنف نے یہ
کتاب اسی لیے لکھی ہے کہ ”موجودہ نسل اپنے ماضی اور اپنے بزرگوں کی خدمات سے دور
ہوتی جارہی ہے۔“ مصنف کا خیال ہے کہ ”قومیں اپنے ماضی سے زندہ رہتی ہیں جن کا کوئی
ماضی نہیں تاریخ اس کو فراموش کردیتی ہے۔ ”تاریخ کوروڈیہ“ کھوئے ہؤوں کی جستجو اور یادوں کی
بازیافت کا ایک سلسلہ ہے۔“
ززز
No comments:
Post a Comment