قتیل سے اکفل تک : یہ چوہے بلی کا کھیل کیوں ہے؟
تقریباً ۸ ماہ سے ملک کے مختلف صوبوں کی خفیہ ایجنسیاں دربھنگہ اور مدھو بنی پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جیسے خوان نعمت بچھی ہو اور جہاں سے چاہیں وہ اپنی مرغوب غذائیں چن لیں۔ اس مدت میں درجن بھر سے زائد مسلمان پکڑے گئے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے گرفتاری کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اپنے دعووں میں خود مشتبہ ہیں یا سرے سے جھوٹے ہیں۔ کیونکہ واضح اور سچے دعووں کے لیے اس چوہے بلی کا کھیل کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے جو وہ کھیل رہے ہیں۔ چنانچہ گرفتاریوں کے لیے آئینی طریقہ کار کی دھجی اڑا دی گئی اور کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں رہا کہ آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ یا پھروہ اس کا اشارہ دے رہے کہ مسلمانوں کو پکڑنے کے لیے وہ کسی بھی قانون، ضابطہ اور اخلاق کو با لائے طاق رکھ سکتے ہیں۔ انہیں اس کے لیے پوری آزادی ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس مدت میں جو بھی گرفتاریاں کی ہیں ان میں قانونی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کیونکہ تقریباً سارے کے سارے گرفتار شدگان ایک عام اور ملک کے مہذب شہری کی طرح سماج میں گھل مل کر اور ایک دوسرے کے ساتھ دکھ درد میں شریک رہنے والے تھے نہ ہی ان میں سے کوئی مجرمانہ پس منظر رکھتا تھا بلکہ ان کے گھرانوں میں بھی اس طرح کی کوئی خبر اب تک نہیں ملی ہے۔اب تک اس طرح کی کوئی خبر نہیں ملی ہے کہ ان میں سے کسی کے پڑوسی اور ساتھ میں رہنے والے لوگ ان کے وجود سے دہشت زدہ ہوئے ہوں یا خوف کھاتے رہے ہوں۔ تقریباً کسی کے خلاف بھی مقامی تھانوں یا مقامی عدلیہ میں کسی طرح کا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ سارے کے سارے اپنے اپنے جائے عمل یا اپنے گھروں میں عام لوگوں کے طرح کھلے عام رہتے تھے۔لیکن گرفتاری کے طریقہ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے یہ انتہائی خطرناک اور پرانے مجرم ہیں۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی گرفتاری مقتول قتیل احمد صدیقی کی تھی۔ قتیل دربھنگہ کے باڑھ سمیلہ گاؤں کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹی سی کنسٹرکشن کمپنی کا ادنی ملازم تھا۔ اسے دلی کے اسپیشل بر انچ کے تین چار افراد نے جب وہ اپنے بچے کو اسپتال لے جا رہا تھا رکشا سے اتار لیا اور چار دن بعد ایف آئی آر کے ذریعہ معلوم ہوسکا کہ اغوا نہیں دہشت گردی کے الزام میں اس کی گرفتاری ہوئی ہے۔ اس سے قبل اس پر کوئی وارنٹ بھی جاری نہیں تھا۔نہ ہی اس کے خلاف مقامی طور پر کبھی کا کوئی مقدمہ تھا۔ اس کے بعد اسی گاؤں کا گوہر عزیز خمینی گرفتار ہوا۔ یہ ایک انجنیئر ہے جو چھوٹی سی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک ہے۔ اس کے خلاف بھی ماضی میں کسی مجرمانہ کام کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے اور سماج میں ہمیشہ صاف ستھری شبیہ کا مالک سمجھا جاتا رہا ہے۔ پھر مدھو بنی کے سکری گاؤں کا باشندہ غیور جمالی اپنے گھر سے دلی کے اسپیشل برانچ کے ذریعہ گرفتار ہوا۔ غیور ایک مدرسہ کا طالب علم تھا۔ اس کے والد اپنے گاؤں میں ایک ہومیوپیتھی ڈسپنسری چلا کر اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ اس کے خلاف بھی ماضی میں کوئی مجرمانہ واقعہ کا کوئی مقدمہ نہیں رہا ہے۔ جس وقت اس کو گرفتار کیا گیا وہ اپنے گھر میں تھا۔ گرفتاری سے تھوڑی دیر قبل کسی طرح یہ معلوم ہو گیا تھا کہ پولس اسے ڈھونڈ رہی ہے اس کے باوجود وہ اپنے گھر میں تھا اور آواز دینے پر وہ بلا جھجک سامنے آگیا۔ ان تینوں کی گرفتاری کے کچھ دنوں بعد پولس انہیں ان کے گھر لائی اور کچھ دیر کے لیے انہیں ان کے گھروں پر چھوڑ دیا۔ دوسرے دن واپسی کے وقت انہیں سمستی پور شہر سے قریب دھرم پور سے گزرنے والی ندی کے کنارے لے گئی اور ہتھکڑی ڈال کر ان کی تصویر یں لی۔ اس موقع پر وہیں پر واقع ایک مسجد کے امام نے دیکھا تو اعتراض کیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک پراجیکٹ پر نکلے ہوئے ہیں۔ اتفاق سے امام صاحب کو ایک فائل پر آئی بی لکھا نظر آیا تو انہوں نے پوچھ دیا۔ اس کے بعد فورا وہ گرفتاروں کے لے کربھاگ نکلے۔ اس کے بعد دربھنگہ کے چک زہرہ کے عبد الرحمن کو چنئی سے اسی معاملہ میں گرفتار کیا گیا۔ عبد الرحمن بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور چنئی میں رہ کر ڈپلوما کر رہا تھا۔ اس کا اور اس کے گھرانے کا بھی کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں رہا ہے۔ اس کے بعد دربھنگہ کے دیورا بندھولی کے نقی احمد کو دلی پولس کسی کی پہچان کرانے کے بہانے ممبئی لائی اور اسے ہوشیار کردیا کہ تم کو اے ٹی ایس ڈھونڈ رہی ہے اور پھر اے ٹی ایس کے ذریعہ پکڑ وا دیا گیا۔ اس کو پکڑنے کے بعد اے ٹی ایس اسے ساگر ہوٹل لے گئی اور اس کے گاؤں کے ندیم اختر کو فون کروایا کہ وہ ساتھ میں چائے پینے کے لیے ساگر ہوٹل آئے۔ اس طرح جب وہ وہاں پہنچا تو اسے گرفتار کرلیا۔ پہلے ان پر فرضی سیم کارڈ کا معاملہ درج کرکے اس کے گھر والوں سے اے ٹی ایس والے کہتے رہے کہ جلد ہی اس کا بیل ہوجائے گا۔ ٹھیک اس وقت جب یہ لوگ ضمانت کے لیے عدالت پہنچے تو راکیش ماریا نے ایک پریس کانفرنس بلا کر ۱۳ جولائی کو ہوئے دو ممبئی بم دھماکے کا ملزم قرار دے دیا۔ حالانکہ اس سے قبل دونوں کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔گرفتاری کے بعد ہفتہ بھر آئی بی، وزارت داخلہ اور اے ٹی ایس کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا گیا۔سب ایک دوسرے پر الزام دھرتے رہے اور پھر خاموش ہوگئے۔ نقی اپنے والد کا چوتھا لڑ کا ہے اور دلی میں اپنے بھائی ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹا تا تھا۔ اس کے والد بچپن سے ممبئی میں اپنے کاروبار کرتے رہے ہیں اور ندیم ایک طالب علم تھا۔ اس کے والد ممبئی میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھے۔ بیوی کے انتقال کے بعد گاؤں میں رہنے لگے اور ندیم اپنے رشتہ دار کے یہاں رہ کر پڑھتا تھا۔ نقی اور ندیم کی گرفتاری کے بعد نقی کے دو بھائیوں کو بھی پکڑ کر اے ٹی ایس کے ذریعہ بے بنیاد طور پر ا تنی زبردست پٹائی کی گئی کہ اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ادھر اس کے تیسرے بھائی نے جب میڈیا میں اس کو اچھالا اور پریس کانفرنس وغیرہ کیا تو اس پر بھی ایک مقدمہ رکھتے ہوئے اے ٹی ایس والے اسے گرفتار کرنے کے لیے دلی اس کے ورک شاپ پہنچ گئے۔ اس وقت تقی نے احتجاج کیا۔ اس دوران علاقہ کے لوگ آ پہنچے۔ معاملہ اتنا طول پکڑا کہ حالات سنگین ہوسکتے تھے۔ اس اثنا میں دلی پولس آئی اور اے ٹی ایس والوں کو تھانے لے گئی اور پتلی گلی سے انہیں نکال دیا۔ اس کے بعد اس کے گھر والوں نے معاملہ سپریم کورٹ میں دائر کیا۔ سپریم کورٹ نے ویڈیو کلپ کے ساتھ تفتیشی کارروائی کا حکم صادر کیا اور اس طرح وہ تقریبا آٹھ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد نجات پاسکا۔ اس کے بعد دربھنگہ کے شیو دھارا سے ۵۵ سالہ سائیکل مستری محمد کفیل کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا۔ آس پاس کے لوگ بتاتے ہیں کہ گرفتاری سے ایک روز قبل اس کے پاس اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہوئے ایک نامعلوم شخص کا فون آیا جس پر اسے شیو دھارا بازار میں کسی شخص کی دکان کے پاس آنے کو کہا گیا۔ اس نے کہا کہ ابھی عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ آپ مسجد آ جائیں وہیں ملاقات ہوجائے گی۔ لیکن مسجد میں کوئی نہیں آیا۔ اگلے روز جب وہ محلہ میں واقع اپنی سائیکل کی دکان سے اٹھ کر بازار میں کسی ڈاکٹر کے پاس اپنے بچے کو لے جا رہا تھا تو پیچھے سے آواز دی گئی اور اشارے سے قریب بلایا گیا۔ قریب جانے پر اسے آگے کھڑی گاڑی تک چلنے کو کہا گیا۔ گاڑی کے پاس پہنچتے ہی اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر چند لوگ لے اڑے۔ اس کے بیٹے نے جب یہ دیکھا تو گاڑی کا پیچھا کیا اور مبی تھانے پر اطلاع دی۔ جب پولس کی گاڑی نے اس گاڑی کا پیچھا کیا تو پولس کو فون آیا کہ اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتاری کے بعد مقامی پولس انچارج اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بجائے اسے سیدھے دلی لے جایا گیا۔اگلے دن اخباروں میں خبر آئی کہ آئی ایم کے سرغنہ کا قریبی گرفتار اورمیڈیا میں اس پر یہ الزام بھر عائد کیا گیا کہ وہ موٹی ویٹر کا کام انجام دیتا تھا۔ کفیل ایک غریب آدمی ہے جو سائیکل ٹھیک کر کے اپنے بچوں کی حلال طریقے سے پرورش کرتا تھا اور محلے کی مسجد کا مؤذن تھا۔ اس کے خلاف بھی کوئی مجرمانہ وارنٹ نہیں تھا۔اس کے بعد دربھنگہ کے رجوڑا گاؤں کے اسد اللہ رحمن کو ممبئی سے گرفتار کیا گیا اورگرفتار کرنے والی اتھارٹی کے ذریعہ دلی سے گرفتاری دعوی کا کیا گیا۔ ظاہر ہے گرفتاری کے بعد جو بنیادی کارروائی ہونی چاہیے وہ اس کے ساتھ بھی نہیں کی گئی ہوگی۔ اسد اللہ بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک طالب علم ہے۔اسی درمیان میں مدھو بنی کے بلہا گاؤں کے کمال کو سیتا مڑھی کے پوپری سے گرفتار کیا گیا اور کولکاتا سے گرفتاری کا دعوی کیا گیا۔ کمال بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور کولکاتا میں تجارت کرتا ہے۔اس دعوی کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ بھی بنیادی کارروائی نہیں کی گئی ہوگی۔ ان دونوں کے خلاف بھی پہلے سے کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ اس کے بعد اغوا کے انداز میں باڑھ سمیلہ سے کفیل اختر کو علی الصباح نیند کی حالت میں اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔شبہ ہے کہ اس گرفتاری میں اس کی خواب گاہ کی شناخت کے لیے گاؤں کی کسی لڑکی کی مدد بھی لی گئی ہے۔ گرفتاری کے بعد اسے دربھنگہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بجائے رانچی میں پیش کیا گیا اور بنگلور لے جایا گیا جہاں اس پر دباؤ بنا یا جا رہا تھا کہ وہ چنا سوامی اسٹیڈیم دھماکہ کی ذمہ داری قبول کرے۔ جبکہ کفیل کبھی دربھنگہ سے باہر نہیں گیا۔ بہت پہلے بچپن میں دلی رہتا تھا۔ اس کے بعد سے دربھنگہ رہ رہا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اسی معاملہ میں مقتول قتیل صدیقی اور غیور جمالی وغیرہ کو بھی ملزم بتایا جا رہا ہے۔ کفیل اپنے والدین کا سب سے چھوٹا لڑکا ہے جو دربھنگہ میں ایک پرائیویٹ اسکول میں استاد تھا اور چونکہ اس کے اور بھائی دوسرے شہروں میں رہتے ہیں اس لیے والدین کی خدمت کے لیے قریب رہتا تھا۔ وہ سماج میں اچھی شبیہ رکھتا تھا اور آپس میں بھی کبھی کسی جھگڑے لڑائی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ماضی میں کبھی کوئی مجرمانہ واقعہ اس سے سرزد نہیں ہوا تھا۔جب اس کے گھر کے لوگ بنگلور پہنچ کر عدالت میں معاملہ کی سنوائی کے لیے تگ ودو کرنے گئے تو انہیں یہ کہہ کر گھر واپس کردیا گیا کہ ۱۵ جون کو ضمانت پر رہا کردیا جائے گا اور پندرہ تاریخ کو یہ کہا گیا کہ ۲۳ تاریخ کے بارے میں کہا گیا تھا۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ادھر اسی گاؤں کے فصیح محمود کو سعودی عرب سے گرفتار کرلیا گیا اور حکومت اس سلسلہ میں اپنی عدم معلومات کا اظہار کرنے کے باوجود اپنے شہری کو تلاش کرنے کے لیے سعودی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کررہی ہے۔جبکہ گرفتاری میں دو سعودی پولس بھی شامل تھی۔ تازہ خبر اخباروں میں پڑھنے کو یہ ملی کہ اسی گاؤں کے باشندہ ابوالبرکات کے چھوٹے بیٹے ابوالمشکوۃ اکفل کو ممبئی میں کاروبار کر رہے اس کے بہنوئی نور عالم کے ذریعہ بنگلور سے جہاں وہ طالب علم ہے ممبئی بلوایا گیا اور اکفل کو لے لے جاکر اذیت کے ساتھ اس پر یہ دباؤ بنایا جارہا تھا کہ وہ ممبئی میں ہوئے چار دھماکوں میں کسی ایک کی ذمہ داری قبول کر لے ورنہ برا انجام بھگتنا پڑیگا۔لیکن اتفاق سے وہ جان بچا کر گاؤں بھاگ نکلے۔ لیکن اب اے ٹی ایس کا فون آرہا ہے کہ وہ آجائے ورنہ وہ گاؤں سے بھی اٹھا لیا جائے گا۔ جب اس واقعہ کی خبر ان لوگوں میں مقامی تنظیموں اور میڈیا کو دی جنہوں نے اے ٹی ایس کے دفتر سے اس کی تحقیق کی تو انہوں اس واقعہ سے سرے سے انکار کیا بلکہ اس نام کے افراد کو جاننے بھی انکار کیا۔
ان ساری گرفتاریوں میں علاقائی تھانہ کی مدد نہیں لی گئی نہ ہی انہیں اطلاع دی گئی۔ گرفتاری کے بعد انہیں ضلعی مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا اور گرفتاری کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ خطرناک سے خطرناک مجرم کے لیے بھی شاید ہی کیا جاتا ہو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں بیشتر تو بڑے لوگوں کے آنکھ نہیں ملا سکتے ہیں نہ ہی ان کے سامنے زور سے بول بھی سکتے ہیں۔جبکہ اس طرح کی گرفتاری کے لیے کوئی وارنٹ ہونا چاہیے تھا۔ گرفتاری کے وقت مقامی پولس کے ساتھ گاؤں یا محلہ کے دو ذمہ دار شخص ہونے چاہئیں تھے۔ گرفتار کرنے والے افراد اگر سادہ لباس میں ہوں تو ان کے سینے پر نام کا ٹیک لگا ہونا چاہیے تھا۔ گرفتاری کی رسید دی جاتی اور پھر اسے اس علاقہ کے جوڈیشیل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بعد کہیں لے جانا چاہیے تھا۔لیکن کسی گرفتاری میں یہ سب کچھ نہیں ہوا ہے بلکہ تقریبا ہر گرفتاری چوری چھپے انداز میں یا اغوا کے انداز میں کی گئی ہے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور وہ صرف سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے یہ طریقہ اختیار کر رہے کہ یہ لوگ اتنے خطرناک مجرم ہیں کہ انہیں اگر وقت مل گیا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ خطرناک مجرم بھی ہوتے تو خفیہ ایجنسیوں کو ایسے ڈراموں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چاہیں تو اس چوہے بلی کا کھیل کھیلنے کے بجائے آئینی ضابطہ کی پابندی کرتے ہوئے بھی انہیں گرفتار کرسکتے ہیں۔ آئینی ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے انہیں عوام کی جانب سے بھی نہ صرف کسی دقت کا سامنا کرنا نہیں پڑے گابلکہ امن پسند شہریوں کا انہیں تعاون بھی حاصل ہوجائے گا۔ البتہ اس طریقہ سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ آئینی طریقہ مجرمین کو پکڑنے اور سزا دینے کے لیے ناکافی ہے یا خفیہ ایجنسیاں قانون سے بالا تر ہیں یا ان کے سامنے کوئی خاص مقصد ہے جس کو بروئے کار لانے میں سیکولر آئینی طریقہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس لیے ان کی نظر میں آئینی طریقہ کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔
اب تک جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں بیشتر پر کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے۔ سب کو تفتیشی کارروائی میں الجھادیا گیا۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جمعیہ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے اس مطالبہ پر زور دیں کہ خفیہ ایجنسیاں جلد از جلد چارچ شیٹ داخل کریں عدالت اس کا زیادہ سے زیادہ دو سال وقت متعین کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو اس مدت میں شواہد پیش کرنے کا حکم دے اور اس مدت کوئی ثبوت پیش نہیں ہوتا ہے تو وہ با عزت بری کردئے جائیں اور خاطی افسران پر مقدمہ درج کرتے ہوئے ان ملزمین کو دو سالوں کو معاوضہ دیا جائے۔
No comments:
Post a Comment