نام نہاد دہشت گردی مخالف آپریشن اصلی دہشت گردوں کو جنم دے سکتا ہے
دربھنگہ اور
مدھوبنی سے پے در پے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ملک کے مختلف صوبوں کی خفیہ ایجنسیاں
برادران وطن تو برادران وطن خود اس سماج کے ذہنوں میں، جہاں سے یہ گرفتار کئے گئے ہیں،یہ
نقش بٹھانے میں کامیاب ہوگئی ہیں کہ یہ علاقے دہشت گردی کا اڈہ بن رہے تھے اور ان علاقوں
میں نہ جانے کتنے امن وامان اور انسانیت کے دشمن پل رہے تھے۔ صورت حال یہ ہوگئی ہے
کہ ان نوجوانوں کے ان متعلقین کو بھی ان کے سایہ سے خوف محسوس ہونے لگا ہے جن کی صبح
وشام ان کے ساتھ گزرتی تھی اوروہ اس کی حرکات وسکنات سے پوری طرح واقف ہیں۔ جنہیں ان
کی صحبت میں کبھی خوف تو کیا کسی طرح کا شبہ بھی نہیں ہوا تھا۔یہ وہ نوجوان تھے جو
گولیاں اور بم کیا جانیں کبھی پٹاخے بھی نہیں پھوڑے ہوں گے۔ حتی کہ خود مسلمانوں کی
ایک جماعت بھی محسوس کرنے لگی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔ حالانکہ
یہ ایجنسیاں جو کھیل کھیل رہی ہیں اس میںوہ خود بھی ایسی غلطاں وپیچاں ہیں کہ انہیں
نہ چپ رہتے بنتا ہے نہ کچھ کرتے بنتا ہے۔ڈیڑھ درجن سے زائد گرفتاری اور آٹھ سے نو ماہ
کے گزرجانے کے بعد بھی اب تک یہ کسی ملزم کے خلاف کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کرسکی اور
اسی جھوٹی سچی گواہیوں کے پیش کرنے کے چکر میں ملزم قتیل صدیقی کو حراست کے دوران موت
کی بھینٹ چڑھادیا گیااور اگر اب کسی کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکا تو خفیہ ایجنسیاں
مقتول صدیقی کو اذیت دے کر اتنے سادہ کاغذات پر دستخط لے چکی ہوںگی کہ سارے معاملات
کے سلسلہ میں انہی کاغذات پراقبال جرم کا ثبوت پیش کردیں گی۔ گواہیوں کے جمع کرنے میں
یہ ایجنسیاں اتنی باولا ہوگئی ہیں کہ پکڑے گئے نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ
شریف شہریوں کو ہراساں کررہی ہیں۔ ہر وہ شخص جو ان پکڑے گئے لوگوں سے سماج میں رہنے
کی وجہ سے ؛رشتہ داریوں کی وجہ سے ؛ایک جگہ کام کاج کرنے کی وجہ سے یا کسی کے ہاں ملازمت
کرنے کی وجہ سے؛ کوئی تعلق رکھتا ہے اس سے تفتیش کے نام پر الٹے سیدھے سوال کررہی ہیں
کہ کسی طرح پکڑے گئے بے قصور ناکردہ گناہوں کے دام میں آجائیں اور ان ایجنسیوں کا کام
بن جائے۔ کیونکہ عدالت نے انہیں اس سے قبل بھی ان کے ایسے اوچھے کرتوتوں پر کھڑی کھوٹی
سنائی ہے۔ جب اسی طرح سے ملک کے دوسرے علاقوں سے کبھی بم دھماکوں کے الزام میں کبھی
کسی سازش کے الزام میں صرف ایک کمیونٹی کے لوگ پکڑے گئے۔ انہیں طرح طرح سے اذیت دے
کر اقبال جرم کرایا گیا اور عدالت میںنہ صرف ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں
کیا جاسکا بلکہ کچھ انجانے چہرے ،جو دیش بھکت ہونے کی شہادتیں لیے ہوئے تھے ،سامنے
آئے اور ان کا جرم واضح طور پر عدالت کے سامنے آیا۔لیکن یہ اتنی بے حیا ہوچکی ہیں اور
جو مقاصد ان کے پیش نظر ہیں کہ ان پرملک کی عدالت عظمی تک کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں
پڑتا بلکہ ان کی نظر میں مقاصد کے بالمقابل اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہ گئی ہے۔ اس
مقصد کے لیے آئین کی وہ جس طرح چاہیں دھجیاں اڑا سکتے ہیں کیونکہ ان پر ملک ایک ایسی
تنظیم کا دست شفقت ہے جو دہشت گردانہ پس منظر رکھنے کے باوجود حکومت میں اپنا وزن رکھتی
ہے اور سیکولر کہلانے والی کانگریس جیسی پارٹی بھی کہیں نہ کہیں ان سے خوف کھاتی ہے
اس لیے ایسے فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے افسران پر لگام کسنے کی جرأت نہیں رکھتی ۔
یہ افسران سوامی اسیمانند، پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے دہشت
گردوںکے منظور نظر ہی نہیں بلکہ ان کی معنوی اولادیں ہیں اور جب ہندوستانی وزارت خارجہ
کے ملہم اسرائیل اور امریکہ کی خاموش نظریں ان کی حمایت میں ہوں تو پھر کسی خوف کا
کیا سوال ہے اور ان کے سامنے ہندوستانی آئین اور عدالت کی اہمیت کیا ہے؟
صورت حال یہ
ہے کہ پکڑے گئے لوگوں کو بار بار ریمانڈ پر رکھنے کے باوجود یہ ایجنسیاں کسی نتیجہ
پر نہیں پہنچ پاتی ہیں اور کوئی صریح الزام بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ہے تو تھک کر دوسری
ایجنسی کو مستعار دے دیتی ہے اور پھر وہ ایجنسی وہ ساری کارروائیاں کرتی ہیں جو اس
سے پہلے والی ایجنسی کرچکی ہوتی ہے۔ نئے سرے سے اس پر اذیت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور
اس کے گھر والوں کو نئے سرے سے عدالتی کارروائیاں کرنی پڑتی ہیں ۔ بہت سے لوگ تو اقتصادی
طور پر اتنے مستحکم بھی نہیں ہوتے کہ ہر صوبہ میں جاجاکر عدالتی کارروائیاں کرسکیں
اور لاکھوں روپے اس کی صفائی پیش کرنے پر خرچ کرسکیں۔ افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے
کہ نو ماہ گزرجانے کے باوجود اب تک بیشتر پر چارج شیٹ بھی نہیں داخل کی جاسکی ہے اور
کچھ پر الٹے سیدھے اور بغیر کسی ثبوت کے ملک کے تمام بلائنڈ کیسوں میں ان کو ملوث بتا
کر چار چار پانچ پانچ ہزار صفحات میں چارج شیٹ داخل کردی گئی ہے اور اب بے چارے ان
کے سرپرست حضرات کیس کھلنے کے انتظار میں تاریخوں کا انتظار کررہے ہیں اور جب کیس کھلے
گا تو گواہیوں کی پیشی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ کئی کئی تاریخوں پر کوئی گواہی پیش نہیں
ہوسکے گی ۔ پھر اگلی تاریخیں ملتی رہیں گی اور بے قصوروں کا مستقبل تاریک ہوتا رہے
گا۔ کچھ کو ابھی تک تفتیش کے نام پر طرح طرح سے مشق ستم بنایا جارہا اور ثبوت نہیں
ملنے پر اس ایجنسی سے اس ایجنسی تبادلہ کا سلسلہ جاری ہے۔
چنانچہ ۶ مئی کودربھنگہ کے باڑھ سمیلا سے صبح
کے وقت نیند کی حالت میں اپنے گھر سے اٹھائے گئے نوجوان کفیل اختر کو کرناٹک پولیس
گرفتار کرکے دربھنگہ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے بجائے رانچی لے گئی اور وہاں
کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیااور وہاں سے کرناٹک لے گئی۔ وہاں تقریبا ۲ ماہ تک تفتیشی کارروائی کرنے کے بعد
جب کوئی ثبوت ہاتھ نہ لگا تو دہلی کے کرائم برانچ کے ہاتھ بیچ دیا اور پھر دہلی پولیس
نے شروع کیا ہے اذیت کا نیا سلسلہ اور تفتیشی کارروائیاں۔ اسے دربھنگہ اور دوسری جگہوں
پر جہاں سے اس کا کسی وجہ سے بھی تعلق رہا ہے لے لے جاکر اس جگہ کے لوگوں کو ہراساں
کیا جارہا ہے جس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ چنانچہ ۶۱ جولائی کو اسے پھر دربھنگہ لائی اور
اسے ان جگہوں پر لے گئی جہاں سے اس کا ملازمت کا تعلق رہا ہے یا جہاں وہ رہتا تھا۔
اس کے بعد ان جگہوں کے لوگوں سے الٹے سیدھے سوال کرکے ذہنی اذیت تو دیا ہی انہیں مستقل
تذبذب میں رکھنے کا سامان بھی پیدا کیا۔ چنانچہ ان لوگوں کو چند تصویریں دکھائیں ،جن
میں کچھ ان لوگوں کی تھیں جو اسی علاقے سے پکڑے گئے ہیں اور اسی علاقے میں رہتے تھے
اور انہیں پہنچاننے کو کہا گیا ۔ظاہر ہے جو اس علاقے کے ہیں انہیں تو کوئی بھی پہچانے
گا۔ اس پہچان کی ان سے تصدیق کرائی گئی ۔ آخر اس تصدیق کا کیا مطلب ہے؟ کیا کوئی اپنے
آس پاس کے لوگوں کو پہچاننے سے بھی انکار کردے؟ کیا صرف کسی کو پہچاننا دہشت گردوں
سے ربط ضبط رکھنے کی علامت ہے؟ کیا سوامی اسیمانند ، پرگیہ ٹھاکر اور کرنل پروہت کو
ان کے علاقے کے لوگ نہیں جانتے تھے؟ کیا ان کے جاننے والوں سے تفتیش کی گئی کہ کیا
تم ان کو جانتے ہو اور اگر جانتے ہو تم اس کی تصدیق کرو؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایجنسیاں
ایسے مسلمانوں کو تذبذب کا شکار بناکر انہیں ذہنی اذیت میں رکھنا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی
ان کے ارد گرد پھنسانے کے لیے جال بن رہی ہیں۔ مختلف جگہوں پر پکڑے گئے لوگوں کی گردش
در اصل عوام کے درمیان ان کے خلاف منفی سوچ پیدا کرنے اور برادران وطن کو مسلمانوں
کے خلاف برگشتہ کرنے اور ان کے خلاف ذہن سازی کرنے کی کھلی سازش ہے۔ نیز عوام میں یہ
تاثر دیا جارہا کہ معاملات کو عدالت کے سامنے پیش کرنے میں تاخیر کی وجہ تفتیشی کارروائی
ہے۔ حالانکہ یہ اپنے کئے ہوئے اعمال کو سچ کرنے کاپھیر ہے۔
جب کسی ملزم
کو کسی جگہ لے جایا جاتا ہے تو ہندی میڈیا جلے پر تیل ڈالنے کا کام کرتی ہیں اور جو
چاہتی ہیں بیان دیتی ہیں۔ ان سے برادران وطن میں نفرت کا ماحول تو پیدا ہوتا ہی ہے
مسلم سماج بھی انہی بیانوں پر یقین رکھتا چلا جاتا ہے ۔ جب بھی کوئی مسلمان پکڑا جاتا
ہے ہندی میڈیا عجیب رائے قائم کرتی ہیں اور طر ح طرح کی قیاس آرائیوں سے کام لے کر
ماحول کو کشیدہ بناتی ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع
ہونے کی اتنی مدت گزرجانے کے باوجود اب تک وہ خفیہ ایجنسیوں سے یہ سوال قائم نہیں کرسکیںکہ
آخر ایک علاقے میں اتنا بڑا نیٹ ورک کیسے تیار ہوا اور جب تیار ہورہا تھا تو خفیہ ایجنسیاں
کہاں تھیں؟ ایک نام یعنی یٰسین بھٹکل جو اصل ملزم کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے بارے
میں کہا گیا ہے کہ اسی نے یہ پورا نیٹ ورک تیار کیا ہے،وہ ان کی گرفت سے ابھی تک کیوں
باہر ہے؟ اس کے بارے ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ وہ مہینوں اور سالوں تک ان علاقوں میں
رہا ہے ،اس مدت تک یہ ایجنسیاں کہاں تھیں؟ انہیں دہشت گردانہ تانے بانے بنے جانے اور
یٰسین بھٹکل، جس پر اس سے قبل اعظم گڑھ میںبھی ایسی کاررائیوں کا الزام رہا ہے ، کی
موجودگی کا علم آخر کیوں نہیں ہوسکا؟ ایجنسیوں کی مجرمانہ خاموشی کے پیچھے کوئی خاص
راز تو نہیں ہے؟ ایسی خبریں بھی ملی ہیں کہ ان معاملوں میں کچھ غیر مسلم بھی گرفتار
ہوئے ہیں۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو شبہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی دیش بھکت کہلانے والی
تنظیموں کی سازش تو نہیں جس طرح مالیگاؤں، مکہ مسجد وغیرہ دھماکوں میں سازش
رچی گئی اور برق بے چارے مسلمانوں پر گرتی رہی۔ ہندی میڈیا نے ایسی خبروں کو اہمیت
کیوں نہیں دی؟ اسی لیے نا کہ اس سے ان کی پالیسی فاش ہوتی ہے۔ ہندی میڈیا کے غیر ذمہ
دارانہ بیانوں پر یقین رکھنے کا نتیجہ ہے کہ پوری مسلمان قوم میں احساس جرم پیدا ہورہا
ہے۔
اگر اس رویہ
پر لگا م نہیں لگائی گئی تو پوری قوم جس طرح سے احساس جرم میں جی رہی ہے اس میں اضافہ
ہوگا۔ ملک کی فرقہ پرست ذہنیت اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گی۔ در اصل ان کا مقصد
ہی یہ ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی تشخص کھوکر رفتہ رفتہ ہندو تہذیب میں ڈھل جائے۔ کسی
پوری قوم کا احساس جرم اس کی آنے والی نسلوں کے قدم لڑ کھڑانے میں معاون ہوگا۔ اس کے
سد باب کے لیے پوری قوم کو تیاری کرنی ہوگی اور حکومتی سرپرستی میں خفیہ ایجنسیوں کے
اس رویہ کو لگام لگانے کے لیے آگے آنا ہوگا۔
قتیل صدیقی
کے قتل اور بڑھتی ہوئی گرفتاری کے درمیان اچانک دیکھا گیا کہ دانشوران کی کئی جماعتوںکی
مختلف جگہوں پر نشست وبرخواست ہوئی اور طرح طرح کے ارادے بنائے گئے۔ اخبارات کے پردوں
پر ان کے نام کی تختیاں لگیں اورپھر لگا کہ ان کا بھی کام بن گیا اور ان کے سارے ارادے
خاموش بستے میں رکھ دئے گئے۔ دربھنگہ شہر میں ایک تحریک بھی مسلم بیداری کارواں کے
نام سے اٹھی۔ پھر اس تحریک کے ہی چند افراد پر حکومت کا نظر کرم ہوا اور انہوں نے تحریک
میں پھوٹ ڈال کر پہلے تو اس کو غصب کیا اورپھر چند سطحی باتوں کی طرف اس کا رخ پھیر
کر خواب خرگوش کی نیند سوگئے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے ان تنظیموں کا جو مذہب اور
فرقہ سے اوپر اٹھ کر انسانی حقوق کی بازیافت اور ظلم کے خلاف لڑائی لڑرہی ہیں۔ ایسی
تنظیموں میں مسلمانوں سے زیادہ انصاف پسند برادران وطن ہیں۔ موت وحیات کے معین وقت
اور تکلیف وآرا م کے مقدر ہونے پر یقین رکھنے والی مسلمان قوم خود نہیں اٹھ سکتی تو
ان جیالوں کے ساتھ ہی تو چلیں۔ ان ہی کے شانے کو مضبوط بنائیں۔
اس بے کسی کے
وقت میں چپی سادھنے والوں اور حکومت کے الطاف وعنایات کی طمع رکھنے والوں کو معلوم
ہونا چاہیے کہ اسلام وہ مذہب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے۔ اسلام تو نہیں
مٹے گا لیکن ہم اور ہماری نسلیں معدوم ہوجائیں گی اوراللہ تعالی اپنے لیے دوسری قوم
پیدا کرلے گا جو اس کی قوم کی حفاظت کرے گی۔ اگر آپ کو واقعی لگتا ہے کہ پکڑے گئے لوگ
مجرم ہیں تو اٹھئے اور ان کے خلاف تحریک چلائیے اور اسلام کے تصور کو عام کرتے ہوئے
کہیے کہ یہ ان کا اپنا عمل تھا ۔ اسلام کی سوچ اور اسلام کا تصور یہ نہیں ہے لیکن پوری
قوم کو بھنور میںپھنسا دیکھنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہے۔ یہ خاموشی احساس جرم کو
فروغ دے گی جس سے آنے والی نسلوں کے قدم لڑکھڑا جائیں گے اور وہ اپنا تشخص کھونے میں
ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کریں گی اور اگر یہ پکڑے گئے لوگ مجرم نہیں ہیں اور ہم
نے ان کی بروقت مدد نہیں کی، حکومتی سرپرستی میں خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی کو نہیں
روکا، بے قصور پکڑے گئے لوگوں کی رہائی جان توڑ جد وجہد نہیں کی تو اس کا انجام ملک
وقوم کو دونوں کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ ان کی اولادیں قوم ، ملک اور حکومتوں کے خلاف
دشمنانہ ذہنیت کے ساتھ پرورش پائیں گی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں بڑی تعداد میں
دہشت گرد پیدا ہوں گے جن کو روکنے میں بہت دیر لگے گی۔ کیا یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے
کہ ملک کی دوسری تشدد پسند تنظیمیں مستقل استحصال اور ظلم کے نتیجہ میں ہی وجود پذیر
ہوئی ہیں اور ترقی کی ہےں۔ یہ کوئی بہتر راہ نہیں ہوگی لیکن انقلابات تاریخ پر نظر
رکھنے والے جانتے ہیں کہ مستقل ظلم کا رد عمل تشدد کی شکل میں راہ پاتا ہے۔اگ اس رویہ
پر روک نہیں لگی تو نام نہاد دہشت گردی پر قابو پایا جائے یا نہیں لیکن مستقل دہشت
گردی ضرور جنم لے گی جس کا علاج ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے حالات اور
اسباب پر غور کرتے ہوئے مناسب قدم اٹھایا جاناانتہائی ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment