لو اب حکم زباں بندی بھی ہے
وزرائے اعلی کی سالانہ کانفرنس میں داخلی سلامتی کے تعلق سے
دہشت گردی کے موضوع پر ملک کے وزیر داخلہ پی چدمبر م نے جو بیان دیا ہے وہ بطور خاص
مسلمانوں کے لیے ذرا تشویش ناک ہے اوریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ان کے لیے حکم
زباں بندی بھی ہے۔کیونکہ یہ بیان پولس کے ظلم کے خلاف بھی آواز بلند کرنے والوں کو
دہشت گردوں کا حمایتی قرار دیتا ہے۔ انہوں نے ۱۱۰۲ کے جولائی میں ممبئی بم دھماکے اور
ستمبر کے دہلی ہائی کورٹ بم دھماکے کے حوالہ سے جو تاثر دیا ہے اس کے مطابق اس سلسلہ
میں ہونے والی ساری گرفتاریاں بالکل درست ہیں اور اس سلسلہ میں جو احتجاج ہوئے ہیں
وہ ان مجرمین کی حمایت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیشہ ایک چھوٹی سی جماعت ایسے لوگوں
کی حمایت کرتی ہے جو باعث تشویش ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی مذہب یا فرقے کی طرف
سے اس طرح کی حمایت کے لیے کسی سبب کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے تفتیشی ایجنسیوں
کے کام میں مشکل ہوتی ہے اس لیے ریاستیں اس کی حوصلہ شکنی کریں اور میڈیا ان کی مدد
کریں۔ ریاستوں کی حوصلہ شکنی اور میڈیا کی مدد کا کیا مطلب ہے یہ تو ظاہر نہیں کیا
گیا ہے ۔ لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی آواز بلند کرنے والے کے خلاف جسے
پی چدمبر م مجرمین کا حمایتی سمجھتے ہیں ریاست کارروائی کرے یا جس طرح بھی ممکن ہو
آواز اٹھانے سے روکے اور میڈیا ن کی ہاں میں ہاں ملائے یا میڈیا ایسی آوازوں کو جگہ
نہ دے جو ظاہر ہے آزادی اظہار رائے کی صریح مخالفت ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی سے ملک کی فضا بگڑتی ہے۔ ملک کا قیمتی اثاثہ ضائع
ہوتا ہے۔امن وامان ختم ہوتا ہے اور لوگ خوف ودہشت کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور
ہوتے ہیں۔ ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور ایسے لوگ چاہے خواہ جس فرقے سے ہوں
اور جس مذہب سے ان کا تعلق ہو ان کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔تاکہ ملک کو اس سے جتنا
جلد ممکن ہو نجات ملے۔ لیکن کیا وزیر داخلہ اس سے بے خبر ہیں کہ ایسے واقعات کے رونما
ہونے کے بعد ملک کی تفتیشی ایجنسیاں جانبداری سے کام لیتی ہیں اور ایک مخصوص فرقے کو
بلا کسی ثبوت کے نشانہ بناتی ہیں۔ ایسا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ جب جب ایسے واقعات
ہوتے ہیں نشانہ سیدھے مسلمان بنتے ہیں اور جب سالوں کی عدالتی کارروائی کے بعد فیصلہ
سامنے آتا ہے تو وہ بے قصور ثابت ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کا اعتماد
مجروح ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے جب کبھی مسلمانوں کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو شک کی نگاہ
سے دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جب معاملہ ایسا ہو تو کیا اس فرقے کے لوگوں کو یہ کہنے کا اختیار
نہیں ہے کہ پکڑے گئے لوگ بے قصور ہیں۔
ان سارے وجوہات کی وجہ سے تجزیہ کرنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں جو دھماکے
ہوتے ہیں یا ہورہے ہیں ، ان کے انجام دئے جانے تک کچھ کھیل کھیلے جاتے ہیں اور ان کا
ماننا ہے کہ یہ کھیل ملک کی تفتیشی ایجنسیاں ہی کھیلتی ہیں یامسلمانوں کو پھنسانے کے
لیے کچھ غیر مسلم تشدد پسند تنظیمیں کھیلتی ہیں۔ وزیر داخلہ نے جن دھماکوں کا حوالہ
دیا ہے اس سلسلہ میں بہار کے مختلف اضلاع سے نصف درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں
ہوئی ہیں۔ ان گرفتاریوں کے سلسلہ میں کچھ لیڈروں نے اور کچھ دانشوروں نے احتجاج کیا
ہے کہ یہ بے قصور ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق وہ سب قصوروار ہیں اور جنہوں نے احتجاج
کیا ہے ، وہ سب ان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں۔
ایسی خبروں پر نظر رکھنے والوں کا اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے لیے
ملک میں دہشت گردانہ واقعات کے انجام دینے کے لیے تفتیشی ایجنسیاں کچھ اس طرح کا کھیل
کھیلتی ہیں۔مثلا دہشت گردانہ واقعات یا کسی بڑے جرم میں جو لوگ پکڑے جاتے ہیں تفتیشی
ایجنسیاں ان میں سے ذہین لوگوں کا انتخاب کرتی ہے اور ایسے لوگوں کے کیس کو کم از کم
اتنا ہلکا بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ جیل سے باہر جاسکیں تاہم جب ضروری ہو انہیں
بہ آسانی جیل میں داخل کیاجاسکے۔ ایسے لوگوں سے ایجنٹ یا مخبری یا دونوں کام کرائے
جاتے ہیں۔ یہ ایجنٹ خاص طور پر مسلم بستیوں اور علاقوں میں جاکر کچے ذہنوں کو ٹارگٹ
کرتےA ہیں اور ان کی برین واشنگ کرتے ہیں ۔ ان پر موٹی موٹی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں
۔ ان کی پیسوں سے مدد کرتے ہیں ۔یہ پیسے خود ایجنسیوں کے افسران ہی فراہم کرتے ہیں۔
پھر ان سے دہشت گردانہ واقعات انجام دلاتے ہیں یا انجام دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
جو مخبری کرتے ہیں وہ ایسے لوگ اور عوام کے بدکردار عناصر کے بارے پولس کو خبریں پہنچایا
کرتے ہیں۔ پولس ایسے مخبروں کو بھی موٹی رقمیں دیتی ہے۔ انہیں ہر طرح کی سہولیات میسر
ہوتی ہے۔ شہروں کا سیر کراتی ہے۔ اگر یہ ایجنٹ اور مخبر ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں
تو ان پر ایسے کیس ہیں کسی وقت بھی گرفتار کیے جاسکتے ہیں اور انہیں جیل کی ہوا کھانی
پڑسکتی ہے۔ پھر جب کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو ایجنٹ خود ہی اس کی اطلاع
تفتیشی ایجنسیوں کا پہنچادیتا ہے یا مخبر اس کام کو کرتا ہے۔ ایجنسیاں اس کے لیے ایسے
لوگوں کے کالوں پر بھی نظر رکھتی ہے۔ تاکہ اگر کہیں سے کوئی خبر نہ ملے تو فون تو اس
کے لیے ہے ہی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ واقعہ بہکے ہوئے نوجوانوں میں سے کوئی انجام دے
یا کسی نے دوسرے بھی انجام دیا ہو، ایجنسیوں کے ذریعہ ان میں سے کسی کے نام کا شوشہ
چھوڑدیا جاتا ہے اور پھر آگے پورا نیٹ ورک گرفتار ہوتا ہے اور یہ ایجنٹ صاف بچ جاتا
ہے یا بچالیا جاتا ہے۔ اس نیٹ ورک کو کوئی تشدد پسند نام نہاد نام بھی دے دیا جاتا
ہے۔
بہار کے جن نوجوانوں کو اس معاملہ میں جس کا حوالہ وزیر داخلہ نے دیا ہے، گرفتار
کیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس میں بھی کچھ ایسی ہی کہانیاں کام کرتی نظر
آرہی ہیں۔ ایک غیر سرکاریت تنظیم (NGO)کے جائزے سے جو بات سامنے آئی ہے اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ یسن بھٹکل، عرف عمران، عرف شاہ رخ اور نہ جانے کیا کیا(خبروں کے مطابق جگہ کے ساتھ
اس کا نام بھی بدلتا رہا ہے)کبھی کا کوئی ایسا ہی مجرم ہے جو اب ایجنسیوں کا ایجنٹ
ہے۔ اس دربھنگہ کے چند اضلاع میں آکر کچے ذہنوں کو نشانہ بناکر ان کی برین واشنگ کرتا
رہا ہے۔ اس نے ان لوگوں پر پیسے خرچ کئے ہیں اور ان کو دہشت گردانہ واقعات انجام دینے
کے لیے تیار کیا ہے یہ شبہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس معاملہ بھی کوئی شخص مخبری
بھی کرتا رہا ہے۔ یہ نوجوان تو پکڑے گئے ہیں لیکن اصل ملزم اب تک پولس کی گرفت سے باہر
ہے ۔ نہ ہی اس کی گرفتاری پولس کا اتنا زور ہے جتنا اس سے رابطہ میں آنے والوں پر
۔
اگر یہ اندیشے درست ہیں تو کیا اس فرقے کے لوگوںکو یہ اختیار نہیں ہے کہ اس کے
خلاف آواز اٹھائےں اور انہیں بے قصور سمجھیں اور یہ آواز اٹھانا دہشت گردی یا دہشت
گردوں کی حمایت کرنا ہے؟ پکڑے گئے نوجوانوں پر دہلی ہائی کورٹ پر بم دھماکے کا الزم
بھی ہے۔ پولس اس معاملہ میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہے ۔ اس لیے ان پر اس سلسلہ
میں چارج شیٹ داخل نہیں کیا گیا ہے اور اب چونکہ یہ الزام ثابت نہیں ہوا ہے اس لیے
دوسری ریاستوں کے حوالے کردیا گیا ہے تاکہ دوسری جگہوں پر ہونے والے دھماکوں کے سلسلہ
میں تفتیش کی جاسکے۔ مسلمانوں نے تفتیش کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے۔
ان کی کوشش صرف یہ ہے کہ جانب داری سے کام نہ لیا جائے اور اگر واقعی یہ بے قصور ہیں
تو ان کے کیرئیر سے کھلواڑ نہیں کیا جائے۔ کیونکہ سالوں کے بعد اگر ان پر الزام ثابت
نہیں ہوگا اس وقت تک ان کا کیرئیر تباہ ہوچکا ہوگا۔ جہاں تک حمایت کا سوال ہے تو کوئی
شخص مبینہ دہشت گردوں کی حمایت نہیں کررہا ہے اور کوئی اچھا شہری کر بھی نہیں سکتا
ہے۔ چونکہ ان کا اعتماد اتنی بار مجروح ہوچکا ہے کہ وہ انہیں دہشت گرد تسلیم کرنے کو
تیار نہیں ہیں۔ یہ اعتماد بھی ایجنسیوں ہی نے مجروح کیا ہے۔ اگر واقعی ایجنسیاں ثبوت
فراہم کردیتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ سب سے پہلے اس
کی تائید کی جائے گی۔
پھر یہ کہ جب ملک کی تفتیشی ایجنسیاں محض اپنے نموداور ترقی مدارج کے لیے اس طرح
کے واقعات انجام دیتے ہیں تو اس میں قصور کس کا زیادہ ہے۔ خود ایجنسیوں کا یا ان کچے
ذہنوں کا ۔ کیا اگر واقعی کوئی انہی صورت حال سے دوچار ہوا ہو وہ تو دہشت گرد ہے یا
خود پولس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اس کا زیادہ سزاوار کون ہے کچے
ذہنوں والے گم گشتہ راہ یا تربیت یافتہ خفیہ ایجنسیوں کے افسران؟ یہ ممکن نہیں ہے ملک
کے وزیر داخلہ ایسی صورت حال سے ناواقف ہوں۔ اس پر ان کا بیان حیرت ناک اور افسوس ناک
ہے۔ یہ کھلی ہوئی سازش ہے جس کے تحت کوشش یہ ہے کہ بے قصوروں کا پکڑا بھی جائے اور
انہیں آواز بلند کرنے سے بھی روکا جائے۔ ایسی فکر کی ہر سطح سے مذمت کی جانی چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون دعوت اور قومی تنظیم میں شائع ہوچکا ہے
No comments:
Post a Comment