مشمولات

Tuesday, 11 December 2012

Information Technology and Madaris-e-Islamia



اطلاعاتی ٹکنالوجی اور مدارس اسلامیہ
                                                                                 
        عصر حاضر میں جن ٹکنالوجیوں کو فروغ حاصل ہوا ہے ان میں اطلاعاتی ومواصلاتی ٹکنالوجیوں کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے زندگی کے اکثر شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ عالمی گاؤں (گلوبل ولیج) کا تصور در اصل انہی کا رہین منت ہے۔ انہوں نے زندگی کے اکثر شعبوں کے دائروں کو وسیع کیا ہے تو بہت سی وسعتوں کو محدود کرکے بھی رکھ دیا ہے۔ مختصر وقت میں اطلاعات ومعلومات کا حصول آسان ترین ہوگیا ہے۔ ان تمام شعبوں میں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ مستفید ہوا ہے۔ برقی آموزش (E-Learning)کا نیا دروازہ بھی انہی کے ذریعہ کھلا ہے جس نے طالب علم کو روایتی استاد سے بے نیاز کردیا ہے۔ وہ تمام ترتعلیمی خصوصیتیں جو ایک استاد کے ذریعہ حاصل کی جانے والی تعلیم میں ہوتی ہیں اس برقی آموزش میں مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ باریک سے باریک نکات کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے تعلیمی نظام میں چند خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں لیکن اس کی افادیت ان پر غالب ہے۔
        یہ نئی ٹکنالوجی مدارس اسلامیہ کے لیے بھی نئے دروازے کھولتی ہے۔ اپنے اندر اس کی بقا، فروغ اور استحکام کی اہلیت رکھتی ہے۔ بس ضرورت ہے اس ذریعہ کو اپنانے اور اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کی۔
        مدارس کی اپنی تعلیمی روایت رہی ہے۔ ان میں مختلف فنون اور کتابوں کے ماہر اساتذہ ہوئے ہیں جن کی اپنی تدریسی خصوصیتیں اور لیاقتیں تھیں۔ ان کے بعد پھر ان خصوصیتوں کی حامل شخصیات ان مدارس ہی میں نہیں جن میں یہ حضرات مسند درس پر فائز تھے، بلکہ دوسرے مدرسوں میں بھی پیدا نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ کہ مدارس میں اچھے اساتذہ کا جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پر نہیں ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ تدریس کا اپنا مخصوص طریقہ اور ڈھنگ ہوتا ہے جو کتابوں میں سمیٹا نہیں جاسکتا ہے۔ اب بھی مدارس میں مختلف فنون اور کتابوں کے پڑھانے والے طاق اور منفرد اساتذہ موجود ہیں ۔ شاید ان کے بعد وہ خصوصیتیں دوسروں میں پیدا نہیں ہوں۔ اگر ہم چاہیں تو اب ان کو دست برد زمانہ سے بچاکر آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرسکتے ہیں۔ اس طرح ان سے استفادہ کا دائرہ بھی وسیع ہوجائے گااور کسی خاص مدرسہ کے استاد کی خدمات تمام مدارس کے لیے عام ہوجائیں گی،کم خرچ میں مختلف علوم اور مستند علمی لیاقتوں کی زیادہ سے زیادہ ترسیل ہوسکے گی اوران افراد کی صلاحیتوں سے زیادہ کام لیا جاسکے گا۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی ہمیں اس کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
        بہت اچھی بات یہ ہے کہ یہ ٹکنالوجی اتنی سستی ہے جتنی شاید اشیائے خوردونوش بھی نہیں۔ اس لیے اس میں بہت بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بس سنجیدگی سے اس کی طرف توجہ کی جائے تو بہت سہل ہے۔
             طریقہ کار:
        عام طورپرہر بڑے چھوٹے مدرسہ میں کوئی نہ کوئی استاد اپنے فن میں نمایاں خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان کے دروس کا آڈیو اور ویڈیو رکارڈ تیار کیا جائے۔ دروس کو مباحث (Chapter)کے اعتبارسے تقسیم کیا جائے ۔ ان کی سی ڈی اور ڈی وی ڈی وغیرہ بناکر مارکٹ میں سپلائی کیا جائے۔ اگر افراد کی خدمات سے استفادہ کا یہ طریقہ استعمال کیا جانے لگا تو اس سے ایک مدرسہ میں محدود خدمت کا دائرہ اتنا وسیع ہوجائے گا جہاں تک اس زبان کے جاننے والے موجود ہوں گے ۔چونکہ کتابوں کی بہ نسبت ان کی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں اس لیے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے خریدنا آسان ہوگا۔
         البتہ اس کے استعمال کے لیے ملٹی میڈیا کمپیوٹر یا یا ٹی وی اور سی ڈی/ ڈی وی ڈی پلیئر کی ضرورت ہوگی جو عام طور پر مدارس میں طلبہ کے عام استعمال میں نہیں ہیں۔زیادہ تر مدارس کے طلبہ تو ان کو چلانا بھی نہیں جانتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ ٹی وی اور سی ڈی/ ڈی وی ڈی/ پلیئر کا چلانا اتنا مشکل بھی نہیں ہے جتنا کہ موبائل چلانا ۔ کمپیوٹر کے لیے بھی محض دو سے تین ماہ کی جزوقتی تربیت کافی ہوگی اور یہ وقت کی ایسی ضرورت ہے جس سے پرہیز ریت میں منہ چھپانے کے مترادف ہے۔ عام طور مدارس میں اس کے تئیں یہ وہم بھی پایا جاتا ہے کہ اس کے لیے انگریزی میں اچھی خاصی لیاقت درکار ہے جبکہ کہ ایسا نہیں ہے ۔اب کمپوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو میں بھی کام کرنا بہت آسان ہے ۔ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ اردو ، عربی اور فارسی میں متعلقہ موضوع کے ذیلی فقرے بھی Search Engineمیں ڈال کر مطلوبہ چیزیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
        تعلیمی میدان میں انٹر نیٹ نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ عصری تعلیم کے ہر موضوع کا ہر جز انٹر نیٹ پر موجود ہے ،جہاں تک کسی بھی طالب علم کی رسائی آسان ہوگئی ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عام طور پر ایسی خدمات مفت مہیا کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ برقی آموزش کا ذریعہ بھی یہی ہے۔ انٹر نیٹ پر مختلف تعلیمی اداروں کی جانب سے مختلف فنون کے برقی کورس موجود ہیں۔ موجودہ وقت میں جب تعلیم کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے نیز فاصلاتی تعلیم اور برقی تعلیم کی طرف رجحان بڑھنے لگا ہے، بہت سے لوگ اقتصادی پسماندگی کی وجہ سے روزگار سے جڑجانے کے بعد بھی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ مدارس کو بھی اس جانب سوچنے اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے ایسے مواقع پیدا ہوجانے کے بعد عصری تعلیم کے فیض یافتہ بھی دینی تعلیم حاصل کرنا چاہیں توایسی صورت میں انہیں یہ ذریعہ مہیا ہو گااور وہ اپنی علمی تشنگی دور کرسکیں گے۔ اس سے ظاہر ہے بڑی مہارت تو حاصل نہیں ہوگی مگر کم از کم یہ دین کے بارے میں بنیادی معلومات کے ساتھ اس سے وابستگی کا ایک ذریعہ تو بنے گا۔بعض ایسے طلبہ بھی جو کسی وجہ سے مدارس کے پورے مرحلہ کی تکمیل نہیں کرپاتے ہیںاس ذریعہ کے حاصل ہونے کے بعد باقی ماندہ تعلیم کو جاری رکھ سکیںگے۔
        ان کے علاوہ جو آڈیواور ویڈیو رکارڈ تیار کئے جائیں انہیں بھی مباحث کے اعتبار سے انٹر نیٹ پر ڈال دیا جائے تاکہ مدارس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے اسکالرس اور دوسرے وہ تمام حضرات جنہیں خاص موضوع سے متعلق معلومات حاصل کرنی ہو استفادہ کرسکیں۔
        مدارس نے لڑکیوں کی تعلیم کی طرف بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لیے بھی باضابطہ مدارس قائم کئے گئے ہیں۔لیکن لڑکیوں کے مدرسوں میں اساتذہ کا وہ معیار نہیں ہے جو لڑکوں کے مدار س میں ہیں۔ ان رکارڈ شدہ کلاس روم کی ویڈیو سے ان کے لیے بھی کام لیا جاسکتا ہے نیز ایسی جگہوں پر جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے مدرسے ایک ہی جگہ یا ایک ہی انتظامیہ کے تحت چلتے ہیں سی سی ٹی وی کیمروں اور پراجکٹر کے ذریعہ بیک وقت دونوں کو ایک ہی استاد سے تعلیم دی جاسکتی ہے۔
        انٹرنیٹ پر علم الفرائض کے مسائل کو اس طرح ترتیب دے کر رکھا جاسکتا ہے کہ اس میں اپنے مسائل لکھ کر ان کا حل حاصل کیا جاسکے۔ اس سے جہاں عام لوگ مستفید ہوں گے وہیں مدارس کے طلبہ اس فن کو سیکھنے کے لیے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
        اسی طرح مدارس میں عصری علوم کی تعلیم کا معیار بھی پست ہے۔ وسیع انداز میں تو نہیں لیکن کم ازکم ان کی مبادیات سے لازمی واقفیت کا احساس مدارس کی سطح سے بھی ہوتا ہے ۔ لیکن وسائل کی قلت ان کے حصول میں مانع ہے۔ یہ ٹکنالوجی افراد کی براہ راست خدمات سے سستی ہے اور اس میں طلبہ کے لیے اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے استفادہ سہل اور ممکن ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے لیے انگریزی سے واقفیت لازمی ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو میں یہ چیزیں بالکل موجود نہیں ہیں بس تنوع اور گہرائی کی کمی ہے ۔ جب استعمال میں اضافہ ہوگا تو چیزیں بھی تیزی سے اور نئی نئی دریافتوں کے ساتھ آئیں گی۔ لیکن مدارس کی مناسبت سے یہ عربی وفارسی میں تو موجود ہی ہیں۔
        مدارس میں اردو کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کی تعلیم مختلف سطح تک دی جاتی ہے۔ زبان کی تعلیم میں قواعد کے ساتھ ساتھ لہجہ کی بھی ضرورت ہے۔ تکلم کی سطح پر کوئی زبان قواعدی طور سے مضبوط ہونے کے باوجود غیر مانوس لہجہ میں اجنبیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ مدارس کے طلبہ کم ازکم عربی وفارسی زبانوں میں انتہائی مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن کسی زبان کے لہجہ سے پوری واقفیت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ سماعی سطح پر اس سے تعامل نہ ہو۔ مدارس اپنے قلیل وسائل کے ساتھ ایسے افراد کی خدمات حاصل نہیں کرسکتے جو یہاں پڑھائی جانے والی ہر زبان کے لہجہ سے طلبہ کو واقف کراسکیں۔ ایسی صورت میں یہ ٹکنالوجی ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یہ انہیں ایسے بھر پور مواقع فراہم کرتی ہے جن میں وہ زبان کے لہجہ اور تکلمی اشاروں کو سیکھ سکیں۔ یہ چیزیں میڈیا کی سطح پربھی موجود ہیں ۔ تقریبا ہر زبان کی تعلیم کے لیے ٹی وی پر ایسے کورس ہیں۔ کوئی بھی مدرسہ DTHکی سہولت سے فائدہ حاصل کرکے ان سے مستفید ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ زبان کی آموزش کے آن لائن کورس ہیں جو قواعد کے ساتھ اصوات ومخارج ، تلفظ اور لہجہ کی بھی تعلیم دیتے ہیں ۔ آن لائن کے علاوہ اس کے لیے سافٹ ویئر بھی ملتے ہیں ۔ آن لائن کورسوں کی بہ نسبت سافٹ ویئر کے ذریعہ تعلیم سستی ہے۔ ان سے فائدہ اٹھاکر مدارس میں تعلیم دی جانے والی زبان کے لہجہ سے طلبہ کو واقف کرایا جاسکتا ہے۔ چھوٹے بچوں میں زبان کی تدریس کے لیے بھی ایسے سافٹ ویئر ہیں جو تدریس کے جدید طریقوں پر مبنی ، سریع الفہم اور سہل الحصول ہیں۔
        مدارس کے طلبہ کثیر لسانی ذولسانی ہوتے ہیں۔ اس لیے ترجمہ نگاری کے فن کا اکتساب ان کے لیے بہت سہل ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی مدرسہ میں رہتے ہوئے انہیں ایسے کورسوں سے متعارف کراسکتی ہے جو انہیں جز وقتی تربیت سے بہتر ترجمہ نگار بناسکتے ہیں۔ فراغت کے بعداس تربیت سے ان کے لیے بہتر روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے اور انہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ وہ مذہبی موضوعات پر آنے والی نئی نئی کتابوں سے اپنی قوم کو واقف کراسکیں گے۔
        جدید موضوعات نے مدارس یا مذہبی تعلیم کے لیے فکر واجتہاد کے نئے دروازے کھولے ہیں ۔طلبہ کو ان موضوعات ومسائل سے واقف کرانے کے لیے مدارس کو ان پر توسیعی خطبات کا انتظام کرنا چاہیے جنہیں عام کرنے میں یہ جدید وسائل ممد ومعاون ہوںگے۔
        گزشتہ سو سالوں میں نظامہائے حیات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ سیاسیات، سماجیات ، اقتصادیات اور طب کے نظریات وفلسفے کے فکری ڈھانچوں میں ایسی تبدیلی آگئی ہے کہ نسل انسانی کے مختلف گروہ ان موضوعات کے تئیں اپنے گزشتہ نظریات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہیں۔ نوعیتی اعتبار سے جدید مسائل وموضوعات جوآواخر کی ان صدیوں میں ظہور پذیر ہوئے ہیں وہ اسلامی درسیات میں شامل نہیں ہیں۔ ان مسائل کو طلبہ کے سامنے لانے کے لیے ایسے ورک شاپ منعقد کئے جاسکتے ہیں جن میں عصری علوم کے کسی ایک موضوع پر اس علم کے عصری واسلامی نظریات کے ماہرین کے ذریعہ توسیعی خطبات کا انتظام کیا جائے۔ منتخبہ موضوع پر اس علم کے غیر اسلامی افکار ونظریات کے بنیادی نظریات ومسائل، اس کی وسعت اور دائروں کو بیان کرکے اسلام کا سچا اور صحیح نظریہ پیش کیا جائے۔ اس کے بعد طلبہ کے سامنے اس علم کے جدید مسائل رکھے جائیں اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور اس کا صحیح حل طلبہ پیش کریں اور اس کام کی نگہداشت (Monitoring) ماہرین کے ذریعہ کی جائے۔ مختلف مدارس الگ الگ موضوع پر ایسے ورک شاپ منعقد کرسکتے ہیں۔ ان کی بہترین ویڈیو رکارڈنگ کرلی جائے۔ باہمی رابطہ کے ذریعہ مدارس کے درمیان ایسے ورک شاپوں کی تشہیر کی جائے تاکہ کسی ایک موضوع پر ہونے والا ورک شاپ دوسرا مدرسہ منعقد نہ کرے اور انہی کی ویڈیو سے کام چلاجائے۔ اس طرح وقت اور پیسے کی بچت ہوگی اور زیادہ سے زیادہ موضوعات کی احاطہ بھی ہوسکے گا۔ ایسی ویڈیو کو You Tube اور اس طرح کی دوسری سائٹوں پربھی ڈال دیا جائے تاکہ اس کا دائرہ وسیع ہو اور عصری علوم کے ماہرین اور غیر مسلم دانشوران بطور نظریہ وفکر اس کا مشاہدہ ومطالعہ کرسکیں ۔ اس طرح مذہب زندگی سے اور بھی قریب ہوجائے گا ۔ چونکہ اسلام ایک نظام حیات ہے اورکوئی نظام حیات زندگی کے کسی شعبہ میں اپنی فکر ونظرکے تداخل سے بے گانہ نہیں رہ سکتا ہے۔ یہ ذرائع ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق اسلامی افکار ونظریات کو نظریاتی تصادم کی دنیا میں لے جانے اور ان کی برتری ثابت کرنے کا بہترین موقع فراہم کریں گے۔ سماجی رابطہ صفحات (Socail Networking Sites) اس کام کے لیے بہت بڑا ذریعہ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کے مشاہدین رفیقان آوارگان نہیں بلکہ ایسی مختلف الآرا ءجماعت کے افراد ہیں جو آپس میں رنج وشادمانی کے شریک بھی ہیں اور متصادم افکار ونظریات کے روادار ساجھے دار بھی۔
        ٹی وی اور انٹر نیٹ پر زبان وادب ہی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ دیگر علمی موضوعات کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے۔ اگر مدارس کے یہ کلاس روم رکارڈ ہوجاتے ہیں تو طلبہ تو ان سے استفادہ کریں گے ہی میڈیا میں استعمال ہونے کے لیے یہ چیزیں ان کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت بھی ہوں گی۔ خاص طورپر اردو میڈیا میں اس کا قوی امکان ہے۔ میڈیا ہی رکارڈ کی ذمہ داری بھی لے سکتا ہے۔
        اگر ہم ان چیزوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو علم کی سطح پرجو فائدہ طلبہ اور آنے والی نسلوں کو ہوگا وہ اپنی جگہ ، یہ چیزیں ملی اتحاد کا ذریعہ بھی بنیں گی۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جہاں صرف ایک ہی فکر کے لوگ ہوتے ہیں وہاں متعصابہ اور اختلافی باتیں کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی اور جب کئی فکر یا مخالف افکار کے حامل لوگ ہوں تو انسان احتیاط برتتا ہے اور انہی اختلافوں کا ذکر کرتا ہے جن میں فرق وتفاوت واضح اور بنیادی قسم کے ہوں۔ ظاہر ہے کہ جب درسیات رکارڈ ہوں گی اور تمام لوگوں کے لیے ان کا دروازہ کھلا ہوگا تو فروعی اختلافات سے صرف نظر کیا جائے گا ۔ اس طرح کسی بھی موضوع پر جو بیانات سامنے آئیں گے ان سے حقیقت تک پہنچنے میں آسانی ہوگی ۔آپس میں دوریا ں کم ہوں گی، ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملے گا اور آپسی اعتماد بحال ہوگا۔ چونکہ دروس رکارڈ ہوکر کلاس روم سے باہر آئیں گے اس لیے اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اساتذہ تعلیمی معیار پربھی بھر پور توجہ دیں گے۔
        ان ٹکنالوجیوں کا ایک بہت بڑا فائدہ ڈ جیٹل لائبریری کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ اب بڑی بڑی لائبریریوں کی جگہ ایک ڈی وی ڈی آگئی ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔ یہ انگریزی ہی نہیں عربی وفارسی اور اردو میں بھی دستیاب ہوگئی ہیںاور کتابوں کی بہ نسبت بدرجہا سستی ہیں۔ اسلامی علوم کے لیے بھی ایسی ڈی وی ڈی موجود ہے جس میں اسلامی کتابوں کے ذخیرے جمع کیے گئے ہیں۔ اسلامی دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) اور عربی وفارسی لغتیں ان میں دستیاب کرائی گئیں ہیں۔ ان سے استفادہ بھی آسان ہے۔ فہرست کادیکھنا ہی نہیں بلکہ موضوع سے متعلق جملہ کتابوں کی عبارتوں اور مواد کی تلاش اور ان کا مطالعہ کتابوں کے راست مطالعہ کے آدھے وقت میں ممکن ہے۔ ان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ منقولہ (Portable) ہوتی ہے جسے کوئی اپنے ساتھ جہاں چاہے لے جاسکتا ہے اور ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ میں لگاکر استعمال کرسکتا ہے۔ جبکہ ہزاروں کیا دس بیس کی تعدا دمیں بھی کتابیں ہر جگہ ساتھ ساتھ نہیں لے جائی جاسکتی ہیں۔ مزید برآں دنیا بھر کی مشہور لائبریریوں کو آن لائن کیا جارہا ہے۔ اب تحقیقات کے لیے ان لائبریریوں تک پہنچنا ضروری نہیں ہے ۔ اگر مدارس کے طلبہ ان کے استعمال سے واقف نہیں ہوں گے تو انہیں اپنی علمی تحقیقات کے لیے وہاں تک سفر کرنا ضروری ہوگا۔ ایسے میں انہیں کسی تحقیق میں زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوگی اور ان کا وقت بھی زیادہ صرف ہوگا۔
        ان کے علاوہ اردو رسائل جن میں بہت سے مذہبی انداز کے بھی ہیں اور اخبارات بڑی تعداد میں آن لائن ہوگئے ہیں۔ کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ اخبارات ورسائل پڑھے جاسکتے ہیں۔ روزانہ کئی ریاستوں کے اخبارات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح لکھنے کا شوق اور جذبہ رکھنے والے اساتذہ و طلبہ بہت کم خرچ میں ایسے رسالوں اور اخباروں کو اپنی تخلیقات ارسال کرسکتے ہیں۔مستقل اچھے اور معیاری مضامین لکھنے والوں کو اس سے بطور اعزازیہ مالی فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
        شاید بعض لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیا جائے کہ ان کے استعمال کی عام اجازت کے بعد ان کا منفی استعمال بھی ہونے لگے گا۔ شاید ایسا ممکن بھی ہے۔ لیکن یہ چیزیں اتنی کارگر ہیں کہ ان کی افادےت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ان کو منفی استعمال سے بچانے کے لیے کوئی مناسب حل نکالا جاسکتا ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر طلبہ کی تربیت بہتر انداز سے کی جائے گی اور ان کے سامنے ان کا نصب العین واضح ہوگا تو وہ خود ہی ان کے منفی استعمال سے احتراز کریں گے لیکن اگر مقصدہی مفقود ہوگا تو یہ چیزیں اتنی عام ہوتی جارہی ہیں کہ ان کے استعمال کی اجازت کے بغیر بھی وہ ان کا استعما ل کریں گے ۔عام طور پر چیزوں کا منفی استعمال تب ہی ہوتا ہے جب ان کا اثباتی منظر اور افادیت واضح نہ ہو۔ پھر یہ کہ ایسے چند ہی طلبہ ہوتے ہیںجو منفی ذہنیت رکھتے ہیںمحض چند طلبہ کی وجہ سے تمام طلبہ کو اس نعمت سے محروم کرنا کیسی دانشمندی ہے؟ اس سے قبل کہ آنے والی نسلیں تاریخ مرتب کرتے وقت ہماری پسماندگی کی وجہوں میں ہماری تنگ نظری اور جمود کو بھی شمار کریں ہمیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانی چاہئے۔
آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
        دروس کی ویڈیو رکارڈنگ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال مستقل سرمائے کے حاجت مند ضرور ہیںجو ہندوستان کے بہت سے مدارس کے لیے ذرا مشکل ہے۔ لیکن اس جانب سنجیدگی سے اقدام کیا جا ئے گا تو اس کا انتظام بھی ہوہی جائے گا اور بہت سے اہل خیر حضرات اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں گے۔
نوٹ: یہ مضمون اردو دنیا کے مئی ۲۰۱۲ کے شمارہ میں شائع ہوا۔ 

No comments: