ہندوستانی مسلمانوں کے گرد تنگ ہوتے دائرے
ہندوستان
میں مسلمانوں کے فکری ارتداد، تہذیبی زوال، علمی تنزل اور اسلامی تشخص کی گمشدگی کی
ابتدا تو عہد اسلامیہ ہی سے ہوگئی تھی۔ جس کا نقطہ عروج عہد اکبر کو کہا جاسکتا ہے کہ جب
دین اسلام کی جگہ دین الٰہی کی بنیاد ڈالی گئی۔مسلمانوں نے دینی شعاراور اسلامی عقائد
کی مخالفت کو شیوہ بنالیا ۔ قرآن واحادیث اور فقہ کی تعلیم کو فرسودہ سمجھ کر چھوڑدیا
گیا،ویدوں اور دیگر سنسکرت اور غیرمسلم مذہبی کتابوں کو اہمیت دی جانے لگی تھی۔ مسلمان
قشقہ کھینچنے اور جنیو باندھنے لگے تھے۔ گائے حرام اور سور حلال کردئے گئے تھے۔ وہ
تو بھلا ہوا کہ ایسے وقت میں علما کی ایک بہت چھوٹی سی جماعت نے اس ارتداد کا مقابلہ
کیا جس میں سر فہرست شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ جیسی شخصیت تھی جنہوں نے آگے
بڑھ اس کا کام کو انجام دیا۔انہوں نے ہندوستان میں اسلام کی ڈوبتی نیا کو سہارا دیا
اور ظل الٰہی کے برخلاف اسلام کی تبلیغ واشاعت کی اور مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم
کیا ۔ اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور اسلامی تشخص کو بچانے اور حالات کا رخ پھیرنے
کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے جانشینوں نے اس
کاز کو آگے بڑھایا اور ہندوستان میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تشخص کی بقا اور فروغ
کی جہت میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔ لیکن چونکہ مسلم حکمراں اپنی توانائی کھوچکے
تھے اس لیے وہ بہت دنوں تک اپنی ساکھ مضبوط نہیں رکھ سکے ۔ ان پر ادبار کی گھٹا ایسی
چھائی ہوئی تھی کہ ان کے لیے اپنی بقا کی جنگ ہی بہت اہم تھی جس میں وہ ناکام تھے تو
تعلیم اور تہذیب پر کیا نظر کرتے ۔ پھر انہوں نے ملک کے اعلی منصبوں پر جن کو فائز
کیا تھا ان کے رہتے ہوئے ملی احساس کی بیداری کے تئیں تعلیم کے ذریعہ بہت اچھا قدم
اٹھایا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
مسلم
حکمرانوں کی حکومت کے سقوط کے بعد جب انگریزی سامراج کا قیام ہوا تو پھر ایک بار اسلامی
تشخص کو مٹانے کے نئے حربے اپنائے جانے لگے۔ انہیں قومی فکر کے دھارے کو موڑنے میں
تعلیم کے بہتر ذریعہ ہونے کا بھر پور احساس اور تجربہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت
کی تبلیغ کا ذریعہ تعلیم ہی کو بنایا اور ملکی نظام تعلیم کی تشکیل اس طرح کی کہ ملک
کا ہر شہری کرسچنیٹی کے رنگ میں رنگ جائے ۔ تو دوسری طرف بغاوت کے نام پر صاحبان فکر
اور حامیان دین (علما ) کی سر کوبی کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ملک میں قوم کی فکری بیداری
کے جو ذرائع ہیں انہی چراغوں کو گل کردیا جائے۔ لیکن اس وقت یہ متحدہ قومیت کا مسئلہ
تھا۔ ہندوؤں میں بھی ایسی روشن خیالی نہیں آئی تھی کہ وہ مذہبی احساس کو کھودیں اور
مسلمانوں میںمجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہمااللہ اور ان کے جانشینوں
نے قوت فکروعمل کی بیداری کی جو پود لگائی تھی وہ ہری تھی۔ چنانچہ علما کے طبقہ نے
ملک بھرمیں مدارس اسلامیہ کاجال بچھا دیا تاکہ فرزندان توحید کے اسلامی جذبہ وحمیت،
تہذیبی آراستگی اور مذہبی شناخت کو باقی رکھا جاسکے۔ اس طرح فرنگی عہد میں بھی علمائے
کرام نے نہ صرف مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو باقی رکھا بلکہ گزشتہ عہد کے بالمقابل
مذہبی نشأة
کی داغ بیل ڈالی اور علمی برتری بھی حاصل کی۔ایسے وقت میں سرسید ؒ کی خدمات کو بھی
فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے بھی اس ملی تنزل کو محسوس کیا اور مسلمانوں کی مذہبی
شناخت کی بقا کے ضمن میں غیر معمولی اقدامات کئے۔ بلاشبہ ان سے اساسی غلطیاں ہوئیں
لیکن ان کی دینی حمیت اور جذبہ کے خلوص اور صداقت سے انکار بددیانتی ہے۔
پھر
جب ملک آزاد ہوگیا اور نئی آزاد ریاست قائم ہوئی توآئین بناتے وقت اسے ایک سیکولر ملک
کا درجہ دیا گیا اور یہ آزادی دی گئی کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے
کا اختیار ہوگا اوروہ اپنے اپنے مذہب ، تہذیب اور زبان کی حفاظت اور ان کی تعلیم کے
لیے آزاد ہوں گے۔ اس کے باوجود آزادی کی فورا بعد سے ہی ایسی کوششیں کی جاتی رہیں کہ
مسلمانوں کو ان کے مذہب سے منحرف کرکے ان میں الحادلایا جائے۔ اس طرح ملک کے سیکولر
رتبہ کے باوجود آزاد ہند کے ہر دور میں ملکی نظام تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش
کی جاتی رہی وہیں مدارس اسلامیہ پر بغاوت، دہشت گردی تو کبھی فرسودگی اور نہ جانے کیسے
کیسے الزامات عائد کرکے فکری بیداری کے اس دروازے کو بندکرنے اور عام مسلمانوں کو ان
سے نفرت دلانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چونکہ ملک کا آئین سیکولر کہلاتا ہے اور ہر شخص
کو عقیدہ وضمیر کی آزادی کا حق حاصل ہے اس لیے مسلمانوں نے ہر دور میں اس کے خلاف جنگ
کی اور اس حملے کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فی الوقت انہیں کامیابی بھی ملی لیکن
حکومت اور نظام انہی فرقہ پرست ذہنیت کے ہاتھوں میں رہے اس لیے نئے نئے حربوں کے ذریعہ
اس طرح کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔ چونکہ آئین میں بنیادی حقوق کے تحت آزادی عقیدہ وضمیر
کا حق دیا گیا ہے جس کے تحت اپنے مذہب وفکر کی تبلیغ اور تعلیم کے لیے ادارے قائم کئے
جاسکتے ہیں اس لیے ملک کے حساس اور دینی حمیت رکھنے والے علما ودانشوران کی ایک جماعت
نے جہاں مدارس ومکاتب کے ذریعہ مسلمانوںمیں اسلامی شناخت اور فکری بیداری کو کوششیں
جاری رکھیں ،وہیں ملکی نظام تعلیم سے ہم آہنگ عصری اسلامی تعلیمی ادارے قائم کئے تاکہ
ہر سطح سے نئی نسل میں اسلامی تشخص کو بیدار رکھا جاسکے اور ان میںدینی جذبہ اور حمیت
کو باقی رکھا جاسکے۔ چنانچہ یہی وہ ذرائع ہیں جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو اس میدان
میں کامیاب کیا ہے اور فکری تصادم میں ان کا وجود قائم ودائم ہے۔ لیکن فرقہ پرست عناصر
نے ایک مرتبہ پھر اس جہت میں ایک نیا قدم اٹھایا اور مسلمانوں کی فکری بیداری کے دروازے
بند کرنے کے لیے نیا حربہ اپنایا ہے۔ یہ نیا حربہ ہے بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم حاصل
کرنے کا حق۔ بظاہر یہ قانون ایک فلاحی ریاست کا احساس دلاتا ہے جو گرچہ کوئی نیا تصور
نہیں ہے بلکہ اسی ملک میں پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد نے دیا تھا جو اب عملی جامہ
پہن سکا ہے۔ لیکن اس کے بین السطور وہ پیچیدگی ڈال دی گئی ہے کہ مسلمانوں کی فکری بیداری
کے دروازے بند ہوجائیں اور اگر یہ مذہب منحرف سمت میں چلیں تو پہلے روشن خیالی اور
مذہبی سمت میں چلیں تو بد عقیدگی کی طرف گامزن ہوں اور ایک دو نسلوں کے بعد اس کے اثرات
الحاد و ارتداد کی شکل میں ظہور پذیر ہوں۔
آج
پھر ان دونوں ذرائع کے لیے مشکل پیدا ہورہی ہے۔ کیوں کہ موجودہ قانون کی روسے تعلیم
دینے کے لیے ضروری ہے ادارہ اور اس کا پورا نصاب حکومت سے منظور شدہ ہو اور ان کا قطعی
طور نفاذ ہوتا ہو۔ اگر کسی سطح سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو یہ ایک جرم ہوگا اور
اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ حتی کہ والدین بھی اگر ایسے اداروں سے اپنے
بچوں کو کو دور رکھتے ہیں تو وہ کارروائی کے مستحق ہوں گے۔ اس کا سیدھا اثر اعلی سطحی
مدارس پرتو نہیں پڑے گا لیکن مدارس میں جہاں سے بچے آتے ہیں یعنی مکاتب وہ اس کی زد
میں آئیں گے اور ایسے ادارے جو عصری واسلامی ادارے کہلاتے ہیں اس سے متاثر ہوں گے۔
پہلی بات تو یہ کہ ان کا نصاب وہی ہوگا جو سرکاری تعلیمی محکمہ کی سطح سے پورے ملک
کے لیے معیاری طور پر تیار کیا جا ئے گا۔ اب اس میں اسلامی تعلیمات اور تہذیب کی جگہ
کہاں سے ہوگی اور اگر اضافی طور پر وہ اسے شامل کرتے ہیں تو یہ غیر قانونی عمل ہوگا
ور کوئی طالب علم اس کی شکایت درج کراتا ہے تو مدرسہ کا مواخذہ کی زد میں آنا طے ہے۔
اس قانون کے تحت ہر ادارے میں پڑوس کے ۵۲فیصد بچوں کا داخلہ لازمی ہے۔ اگر ۵۲ فیصد
بچے پڑوس کے داخل نہیں ہوتے ہیں اسے منظور ی ہی نہیں ملے گی۔ اگر پڑوس میں غیر مسلم
کی تعداد ہے تو وہ اس کے نصاب کو کیوں برداشت کریں گے اور پھر نتیجہ وہی مواخذہ ہوگا۔
دوسری طرف یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ملک میں فرقہ پرست ذہنیت اتنی بار پاچکی ہے کہ
ایسے ادارے جو کسی مسلمان کے زیر انتظام ہوں اور اس کے منتظمین سیکولر کہلانے کے لیے
اس انتہائی درجہ کو بھی پار کرچکے ہوں کہ خود مسلمانوںمیں اچھی نظر سے نہ دیکھے جاتے
ہوںتب بھی غیر مسلم اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخلہ نہیں دلاتے چہ جائے کہ اس میں
اسلامی درسیات شامل کی جائیں۔ یہ سارے اسکول کل وقتی ہوں گے جن میں ہر ہفتہ کم ازکم
۵۴ گھنٹوں
کی تدریس لازمی ہے۔ یہ تدریس سرکار سے منظور شدہ مضامین کے لیے ہوگی ۔ اسی میں روزانہ
ساڑھے سات گھنٹے صرف ہوجائیں گے تو اضافی مضامین کے لیے وقت کہاں سے نکالا جاسکتا ہے۔
اب
جب اسی سطح سے دین ومذہب سے بیگانہ ہوکر بچے آگے بڑھیں گے تو آگے دینی تعلیم کا حصول
ان کے لیے مزید مشکل ہوگا۔ رفتہ رفتہ ان کے اندر سے دینی احساس ختم ہوتا چلائے جائے
گا ۔ اس طرح تہذیب مخلوط ہوگی۔ شناخت مٹے گی اور وجود ختم ہوجائے گا۔
چونکہ
مکاتب کا مرحلہ لازمی تعلیم کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ان کو بھی منظور شدہ نصاب ہی
پڑھانا ہوگا اور مدارس میں جانے کے لیے لازمی تعلیم نہیں دی جاسکے گی تو مدارس کی طرف
طلبہ کا رجحان کم ہوگا اور اگر جو بچے رخ کریں گے انہیں موجودہ نظام کے مطابق تعلیم
حاصل کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا اس طرح ان کے اوقات ضائع ہوں گے۔ تعلیمی مراحل کی
تکمیل میں عمریں زیادہ صرف ہوں گی۔ اس سے والدین کا رجحان اور بھی کمزور ہوگا۔ مدارس
کے فارغین کی تعداد کم ہوگی تو عصری اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کو جزوقتی طور پر بھی
مذہبی تعلیم دینے والے ، گھروں میں اسلامی تعلیمات دینے والے اور مسجدوں سے اصلاح وتربیت
کا کام انجام دینے والے علما واعظین کم ہوتے چلے جائیں گے۔ مدارس میں طلبہ کی تعداد
کم ہوجانے کی وجہ سے اعلی لیاقتوں کے افراد میں بھی کمی آئے گی جو علمی تنزل کا باعث
ہوگا۔ اس طرح ہر طرف سے مسلمانوں کامذہبی تشخص گم ہوتا چلاجائے گا۔
مسلمانوں
کا عرصہ حیات تنگ کرنے اور انہیں فکری قلاش بنانے کی جو اسکیم رچی گئی ہے اس سے ہندوستانی
مسلمانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ایک طرف قانون کے ذریعہ اسلامی اداروں کا ناطقہ
بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف علما اور ایسے حساس نوجوان جو اپنی قوم کے
تئیں فکر مند ہیں اور اسلامی حمیت رکھتے حکومت کے نشانے پر ہیں ۔ انہیں دام لانے کے
حربے اپنائے جارہے ہیں اور مختلف قسم کے الزام ڈال کر قوم سے ان کا رابطہ توڑنے کی
کوشش ہورہی ہے۔
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment