دہشت گردی کے نام پر گرفتاریاں اور ہندی
میڈیا کا طرز عمل
پچھلے
چھ ماہ سے دہشت گردی کے نام پر فرضی گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا
نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی پھر دربھنگہ سے محمد کفیل کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جس کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سائیکل مستری ہے۔ دن بھر محنت ومزدوری سے روز کا کھانا
خرچہ جوڑتا ہے۔ اس کے پاس رہنے کو اچھا گھر بھی نہیں ہے اور نہ یہ پڑھا لکھا ہے۔ اس
پر الزام ہے کہ معاملہ کے اصل ملزم یسین بھٹکل سے اس کے گہرے روابط تھے۔ یہ آئی ایم
کے لیے
Motivatorکا کام کرتا تھااور اس پر فرضی پاسپورٹ اور
دھماکہ دار دار اشیا رکھنے کا بھی الزا م ہے اور اس کے بارے میں دلی کے کسی تھانہ میں
معاملہ درج ہے۔
بتائیے
کہ ایک شخص جو غریب ہو ، جاہل ہومحنت ومزدوری سے کھانا خرچہ جوڑتا ہو وہ Motivatorکا
کام کس طرح انجام دے گا۔ کیا اسے اس کے بدلہ اتنا بھی پیسہ نہیں مل پاتا کہ وہ بہ آسانی
اپنا کھانا خرچہ جوڑلے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے ڈھنگ سے گفتگو بھی نہیں کرنے آتی ۔ اب
ایک شخص جس کو گفتگو کرنے نہیں آتی وہ Motivatorہو جائے کیا یہ ممکن ہے؟ کسی
ایسے کام کی رغبت دلانا جس کے لیے بہر حال جرأت چاہیے ٹوٹی پھوٹی زبان میں رغبت دلائی
جاسکتی ہے۔ ایک آدمی جو جاہل ہو فرضی پاسپورٹ کا معاملہ کرے۔ جو کبھی دہلی گیا ہی نہیں
اس کے بارے دلی میں معاملہ درج ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
اب
تک دہشت گردی کے نام پر ایک درجن سے زیادہ گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں اور اس سے زیادہ
لوگوں سے پوچھ تاچھ ہوچکی ہے ۔ اس کے باوجود اب تک اصل ملزم کا پتہ نہیں چل پایا ہے
اور نہ اب تک اخبار وں میں یہ خبر آئی ہے کہ یہ کوئی غیر ملکی تھا۔ اگر یہ ملک کا تھا
تو کیا اس کے گھر بار ، اس کے ماں باپ اور رشتہ دار نہیں ہیں۔ اب تک نہ اس کے گھر باراور
اس کے ماں باپ کے بارے میں ہی کوئی خبر چھپی ہے۔ دہشت گردی کے نام پکڑے گئے افراد کے
سلسلہ میں جو خبریں چھپتی ہیں اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اصل ملزم سے زیادہ زور ان
پر ہے جو اس کے رابطہ میں آئے ہیں۔اگر واقعی ایسا کوئی آدمی تھا جس نے لوگوں کو گمراہ
کیا ہے تو ایسے لوگوں کی یقینی طور پر شناخت ہونی چاہیے جن کے ذہن کو پراگندہ کرنے
کی کوشش کی گئی ہے تاکہ انہیں رواداری اور جمہوریت کی اہمیت وضرورت کا احساس دلایا
جاسکے ۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یسین بھٹکل اگر واقعی گوشت پوشت سے بنا آدمی
تھا تو اس کا گھر ہوگا ، ماں باپ ہوں گے آخر ان پر کوئی کاروائی کیوں نہیں ہوتی ؟ یا
اگر ہوئی ہے تو کوئی خبر کیوں نہیں شائع ہورہی ہے؟ ایسے لوگ جو اس سے رابطہ میں آئے
ایک ایک کرکے کی ان کی شناخت ہوسکتی ہے انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے اور پھر ان کی شناخت
پر نئے چہرے سامنے آسکتے ہیں اور جس نے اتنا بڑا نیٹ ورک چلایا وہ پولس کی پہنچ سے
اب تک باہر ہویہ بڑی عجیب سی بات ہے!!!
ایک
طرف ہندی اخباروں نے دھماچوکڑی مچا رکھی ہے کہ ادھر کوئی شخص گرفتار نہیں ہوتا ہے کہ
یہ اخبار بڑے ہی محکم انداز میں لکھتا ہے ایک اور” آتنک وادی “پکڑا گیا۔ حتی کہ کوئی
شخص اگر پوچھ تاچھ کے لیے بھی اٹھتا ہے اور اس کے بارے اس کی وضاحت نہیں ہوتی ہے تو
یہ یہی لکھتا ہے کہ ”آتنک وادی “پکڑا گیا۔ کیا پریس کی آزادی کا یہی مطلب ہے کہ جس
کو چاہے بے آبرو کردے اور جس کی چاہے شبیہ بگاڑدے اور جس کے سر چاہے الزام دھرتا چلا
جائے ۔ اگر کورٹ ان کوبے قصور سمجھ کر رہا کردے گی اور ضرور کرے گی تو کیا ہندی اخبارات
جو آج لوگوں کی شبیہ بگاڑ رہے ہیں انہیں ہتک عزتی کا معاوضہ دیں گے اور اگر دے بھی
دیں تو سماج میں ان کی عزت وآبرو جو رسوا ہوچکی ہے واپس آجائے گی؟
جیسے
ہی کوئی شخص پکڑا جاتا ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اصل ملزم سے اس کا رابطہ تھا
، میڈیا والے اس کے گھر پہنچ کر اس کے گھر محلے اور گاؤں کی تصویریں لیتے ہیں ماں باپ،
رشتہ دار اور گاؤں محلے والے سے اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتے ہیں ۔ آخر اصل ملزم
کے ماں باپ اور گھر اور علاقے کی تصویر یں اور ان کے بیانات کو سامنے کیوں نہیں لانے
کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندی انگریزی میڈیا جو ایسے موقع پر خبروں کے حصول کے اپنے وسیع
ذرائع کا احساس دلاتے ہیں اس شخص کی معلومات حاصل کرنے اور انہیں شائع کرنے میں کیوں
ناکام ہیں؟کیا یہ جرم خاموشی شعوری تو نہیں ؟
کیا مسلم قیادت ان سے اتنا
پوچھنے کے مجاز نہیں کہ ان ہندی اخباروں کے پاس پکڑے گئے لوگوں کے مجرم ہونے کے کیا
ثبوت ہیں۔ اگر قیادت ایسا نہیں کرسکتی تو کیا قانون حق اطلاعات(RTI) کا
سہارا لیتے ہوئے ان سے نہیں پوچھا جاسکتا کہ آپ نے ان کو ”آتنک وادی “لکھا ہے اس کے
بارے آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں جبکہ معاملہ ابھی کورٹ نہیں پہنچا ہے اور اگر قوم میں
اتنی جرأت بھی نہیں ہے تو کیا ہم مسلمان ایک دن کے لیے ہی سہی احتجاجا ان اخباروں کو
خریدنے سے نہیں رک سکتے ؟
٭٭٭
No comments:
Post a Comment