مشمولات

Thursday, 13 December 2012

Supreme Court Verdict about fabricated terrorist



مائی نیم از خان بٹ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ
خفیہ ایجنسیوں، حکومت اور قومی میڈیا کے کانوں پر جوں رینگے گی؟

گزشتہ سال کے پہلے سہ ماہے میں جب ملک کے بڑے بڑے سیاست داں اور کابینہ سطح کے وزرا اے راجا، کلماڈی اور اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبر م اور ان کے صاحب زادے کے چہروں سے نقاب اٹھا اور اربوں ارب روپوں کے گھوٹالوں کا انکشاف ہوا ، قومی میڈیا اپنی اپنی پالیسیوں اور رجحانات کے تحت ان واقعات کی گتھیوں کو الجھا اور سلجھا رہا تھا کہ اچانک اس میں ایک نیا موڑ آیا اور اس طرح کی ساری خبریں پس پشت ڈال دی گئیں۔ ہوا یوں کہ اچانک شمالی بہار کے سیدھے سادھے مسلم نوجوان دہلی اور بہار کے کئی اضلاع سے دہشت گردی کے نام پکڑے جانے لگے۔ ملک کی ساری خفیہ ایجنسیاں ان علاقوں پر ٹوٹ پڑیں اور قومی میڈیا گزشتہ واقعات سے منہ موڑ کر ان واقعات کے سلسلہ میں ایسی ایسی کہانیاں گھر نے لگا کہ محسوس ہوا کہ پورا ملک صرف انہی علاقوں کے دہشت گردوں کی زد پر ہے۔ ایجنسیوں نے اس علاقہ کو دہشت گردی کا ایک ماڈیول قرار دیا اورقومی میڈیا نے اسے بھر پور جگہ دی۔ چونکہ یہ ریاست کے اپنے وقار کا مسئلہ تھا اس لیے حکومتی سطح سے اس بات کی تردید کی گئی کہ کسی ماڈیول کا نام دینا سراسر غلط ہے لیکن ایجنسیوں کے ذریعہ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ حکومت کا مسئلہ نہیں تھا اس لیے حکومت کو اس سے واسطہ بھی نہیں رہا۔ اب میڈیا میں اس کے ان خبروں نے وہ جگہ پائی کہ گھوٹالوں ، سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں اور ملک کو کھوکھلا کرنے کی سازشوں کی ساری خبریں اس طرح بھلادی گئیں گویا یہ وقوع پذیر ہی نہیں ہوئی ہیں۔ اس شور میں کو ے کو تو دیکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کان پر کسی نے توجہ نہیں دی۔اس علاقے کے مسلمان اپنی روداد سناتے رہے لیکن کسے پڑی ہے کہ ان کی روداد سنے ۔ خفیہ ایجنسیوں نے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں سے ملک کے سارے دہشت گردانہ حملوں اور دیگر نام نہاد منصوبوں سے جوڑ دیا۔ ابھی یہ سلسلہ تھما بھی نہیں تھا کہ دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے ایک مسلم نوجوان عامر کو ۴۱ سال کی عمر عزیز ضائع کرنے کے بعد انصاف ملا اور وہ بے داغ بری ہوا۔ قومی میڈیا جس طرح سے گرفتاریوں کو خبر بناتا ہے اس کی بے داغ رہائی اور پولیس کی بے جا گرفتاری کو وہ جگہ نہیں دے سکا ۔ اردو میڈیا ابھی اس کی مظلومیت کی داستا بیان کر ہی رہا تھا کہ نرودا پاٹیا اجتماعی قتل کیس معاملہ مین ۲۳ لوگوں کو سزا ہوئی ۔ قومی میڈیا کے لیے یہ خبر ان کی پالیسی کے مخالف تو تھی ہی خود حکومتوں اور ان بیرو کریٹوں کے لیے جو فرقہ پرست ذہنیت لیے ہوئے ہیں (بڑی تعداد ایسی ہی ہے) بڑا ہی مسئلہ تھا۔ عین اس کے ایک ہفتہ بعد اس جا اس جا سے ۸۱ مسلم نوجوانوں کو پھر دہشت گردی کے نام پر پکڑا گیا۔ قومی میڈیا کے لیے سزا یافتوں کی پردہ پوشی کا سامان مل گیا اور ان کے لیے یہی خبر سب سے بڑی تھی کہ ایک ساتھ ۸۱ ایسے مشتبہ دہشت پسند (اردو میڈیا کے لیے ورنہ غیر اردو میڈیا کے لیے دہشت گرد) گرفتار ہوئے ۔ ان سب کے ساتھ جو کہانی دھرائی گئی وہ سب ایک ہی طرز کی اور گزشتہ واقعات سے ملتی جلتی۔ ان سب پر یہ الزام لگایا گیا کہ یہ بڑے سیاست داں، صحافی وغیرہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ گرفتار شدگان میں ایک مسلم نوجوان سائنس داں بھی ہے اس لیے کہانی بھی اسی طرح کی بنائی گئی کہ ان دہشت گردوں کے نشانہ پر ملک کے جوہری تنصیبات بھی تھے۔ حالانکہ ایسی کہانیاں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں۔ کسی اہم واقعہ کے بعد جب ایسی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے پاس Ready Reference کے طور پر مجرمین موجود رہتے ہیں اور ان کی گرفتاریاں کسی اہم واقعہ سے لوگوں کی نظریں پھیرنے کے لیے مؤخر رہتی ہیں۔ محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے ملک کے مختلف علاقوں سے جس طرح مسلم نوجوانوں کو بے دریغ گرفتار کیا جارہا ہے کہ اگر واقعی اتنی بڑی تعداد میں ملک میں دہشت گرد موجود ہیں تو دہشت گردانہ واقعات کی تعداد دیگر تشدد پسند تنظیموں کے ذریعہ انجام دئے جانے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں کے مقابلہ میں دہشت گردانہ واقعات کم ہیں۔ ایک اور بات جو محسوس کرنے کی ہے کہ ان ساری گرفتاریوں کے ساتھ کسی ماسٹر مائنڈ کا تعلق ہوتا ہے لیکن بے تحاشہ گرفتاریوں کے باوجود ماسٹر مائنڈوں کی گرفتاری کیوں نہیں ہوپاتی ہے؟ اور وہ کیوں بچے رہ جاتے ہیں؟ ابھی گزشتہ دنوں ٹاڈا کیس میں ماخوذ گیارہ مسلم نوجوانوں کو ملک کی عدالت عظمی نے نہ صرف رہائی کا فیصلہ دیا بلکہ اس نے محسوس کیا کہ ملک میں مخصوص فرقے کے ساتھ خاص طرح کی زیادتی ہورہی ہے اس لیے اس نے مشورہ دیا کہ جو لوگ قانون کے رکھوالے ہیں وہ کسی مخصوص فرقہ کے ساتھ ایسا رویہ روا نہ رکھیں کہ اسے کہنا پڑے کہ ”میرانام خان ہے لیکن میں دہشت گرد نہیں ہوں“۔ یہ خبر اور عدالت عظمی کا یہ بیان بھی قومی میڈیا کی پالیسیوں کے خلاف تھا اس لیے اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ادھر خفیہ ایجنسیوں کے لیے جو بات تھی سو تھی ہی ، اس کے چند دنوں بعد پھر اخباروںمیں خبر دی گئی کہ انڈین مجاہدین کے تین انتہا پسند گرفتار ۔ ان پر بھی وہی الزام لگایا گیا کہ کئی مذہبی مقامات ان کے نشانہ پر تھے اور انہوں نے حال ہی میں گجرات میں دہشت گردانہ حملہ کی کارروائی انجام دی تھی۔ در اصل یہ واقعہ ان گیارہ بے قصوروں کی گرفتاری کی خبر اور تجزیوں سے دانشوران اور عام لوگوں کی نظروں کو پھیرنے کا کھیل ہے ۔ اگر یہ ایجنسیاں اتنی چاق وچوبند ہیں تو واقعات کے انجام دینے سے پہلے انہیں خبر کیوں نہیں ہوپاتی۔ جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ فلاں واقعہ انجام دینے والے تھے اکثر ایسے مقدمات میں ماخوذ نوجوان بے قصور ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں منظم سازش کے تحت یہ کام کررہی ہیں جس میں حکومت اور پورا سسٹم ان کا بھر پور معاون ہے۔ اس میں قومی میڈیا بھی ہر گام ان کے ساتھ ہے۔ خفیہ ایجنسیاں بے قصوروں کو گرفتار کرتی ہے اور قومی میڈیا ان گرفتاریوں کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتا ہے۔ 
            گزشتہ دنوں گیارہ لوگوں کی رہائی کے عدالت عظمی نے جو بیان دیا وہ گوکہ خفیہ ایجنسیوں کے لیے شرمندگی کی بات ہے لیکن وہ ایجنسیاں اور حکومت جو کئی مرتبہ عدالت عظمی کی ایسی باتیں سنتے آئے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، ان باتوں کا ان پر کوئی اثر کیا پڑے گا۔ دوسری طرف خود مسلمان جو اس بات کو محسوس کررہے ہیں لیکن وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں حکومت کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا احساس دلانے کے لیے کچھ کرسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زور انداز میں ہم حکومت کو یہ احساس دلائیں کہ مسلمانوں کے خلاف خفیہ ایجنسیوں نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ اس کے لیے قومی تحریک چھیڑی جاسکتی ہے۔ ساتھ قومی میڈیا کو بھی یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے رویہ کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج چھیڑا جاسکتا ہے۔ قومی میڈیا جس طرح سے غلط بیانی سے کام لیتا ہے انہیں آزادی رائے کے نام پر چھوڑ ا نہیں جاسکتا بلکہ اس سلسلہ میں مناسب قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ 


No comments: