مشمولات

Saturday, 22 December 2012

Concept of Right in Islam and Family System


(۱)
اسلام میں حقوق کا تصور اور خاندانی نظام
                                                                                                                                                                       
        اسلام ایک دین فطرت اور حقیقی نظام حیات ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام تر انسلاکات کا حقیقی اور ارضی زندگی سے ربط باقی رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ایسے حقوق متعین کیے ہیں جو معاشرہ کی اجتماعیت و یگانگت اور استحکام امن کی بنیاد ہیں اور جبر واستحصال کا خاتمہ کرنے کے لیے ہر شخص کے اختیارات کی حدیں مقرر کردی ہیں۔ دیگر مذاہب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے عقائد و عبادات کے باب میں تو بے شمار ہدایات دی اور ان کے طریقے ایجاد کیے ہیں ۔ لیکن زندگی کے دیگر مسائل کو بتایا ہی نہیں ہے یا انتہائی محدود اور مبہم طور پر۔ اس کے برعکس مذہب اسلام نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تصور دیتے ہوئے عقائد و عبادات کے باب میں جتنی واضح تعلیمات پیش کی ہیں اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل اور نظام کو بھی پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ اور مصالح انسانیت کے مطابق بیان کیا ہے۔ خواہ وہ سماجی و اجتماعی نظام ہو یا سیاسی ودستوری یا آئینی ، اخلاقی نظام ہو کہ تعلیمی و معاشی نظام حتی کہ زرعی نظام تک کے بارے میں اس طرح کی واضح ہدایات دی ہیں جو دوسرے مذاہب یا انسانی طرز حکومت میں موجود نہیں ہیں۔ ان نظاموں کے بنیادی تصورات اور ان کے متعلقہ افراد کے اختیارات و فرائض اور حقوق کو بھی واضح طور پر متعین کردیا ہے اور ان کی ادائیگی پر ہر شخص کو مکلف کیا ہے۔ پھر یہ کہ یہ حقوق و فرائض ہر شخص کی حیثیت اور بساط کے مطابق ہیں۔اسلام کا کمال اور اس کی جامعیت یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں کر دکھایا جب چار دانگ عالم کا کوئی گوشہ حقوق اور نظام کے تصور سے بھی واقف نہیں تھا۔
        حقوق العباد کے بارے میں جو اسلامی تعلیمات ہیں اور جس طرح سے ان کی ادائیگی کی تلقین کی گئی ہے اس سے حقوق العباد کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کو بھی نہ صرف عبادت قرار دیا گیا ہے بلکہ ان میں بعض حقوق کی پامالی کو حقوق اللہ کی پامالی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی نے فرما یا: بروز قیامت اللہ تعالی بندے سے دریافت کرے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھلایا نہیں۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہیں کی وغیرہ۔ ظاہر ہے بندہ حیرت کا اظہار کرے گا کہ تو اور بھوکا، تو اور بیمار ؟ اس پر اللہ تعالی کہے گا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا ،فلاں بیمار تھا ، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم مجھے وہاں پاتے۔ پھر حقوق کی پامالی کی تلافی اس شخص کی رضا پر منحصر ہے جس کا حق سلب ہوا ہے۔
        اسلامی تعلیمات میں حقوق کے تصور کو سمجھنے کے لیے اسلام نے عبادات ، معاشرت اور معیشت کے جو نظام پیش کیے ہیں انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اسلامی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مکمل، باہم مربوط اور اسلام کے بنیادی تصور سے بالکل ہم آہنگ ہے جس میں آخرت کی جوابدہی کا تصور لازمی عنصر ہے۔
         تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جو مختلف غیر اسلامی نظام رائج رہے ہیں انسانی ارتقا کے مختلف مراحل اور مدارج پر عدم تکمیلیت کی وجہ سے اپنی معنویت کھوتے جا رہے ہیں اور وقت کا ساتھ نہیں دینے کی وجہ سے ان کی فرسودگی ظاہر ہوتی جارہی ہے۔
        ان غیر اسلامی نظاموں کی ناکامی کے دو بنیادی اسباب ہیں:
        1             اگر وہ مذہبی نوعیت کے ہیں تو زندگی کا مجموعی طور پر احاطہ نہیں کرتے ہیں یا لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس کی تعلیمات میں تحریفیں کرلیں ہیں۔یا وہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں جن کی تشکیل کے وقت کبھی ان کے سامنے جس قدر مصالح ہوتے ہیں مفاسد نہیں ہوتے، کبھی مفاسد کے بالمقابل مصالح نگاہ سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور کبھی مصالح اور مفاسد کی حقیقت کے فہم و ادراک میں التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ ان وجوہ سے جن چیزوں کا تعلق مصالح سے ہے ان کو مفاسد میں شمار کرلیا جاتا ہے اور مفاسد کو مصالح میں ۔ قرآن نے کئی مقامات پر ایسی فکر کی تردید کی ہے۔ مثلاً: ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب “ ( ترجمہ): اے صاحبان فہم وفراست قصاص میں (جس کو تم موت سے تعبیر کرتے ہو)تمہارے لیے عین زندگی ہے۔اور کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم و عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شر لکم(ترجمہ) تم پر جہاد فرض کیا گیا گرچہ وہ تمہیں  ناگوار گزرے۔ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بھلی ہو اور کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو۔ اسی طرح کی کج فہمیوں  کی وجہ سے حقوق کا مناسب تعین بھی نہیں ہو پاتا ہے اور نہ یہ انسان کے بس میں ہے کہ وہ تمام حقوق کی وضاحت کلی طور پر کر دے جن میں کسی فساد کا امکان باقی نہ رہے۔ مزید یہ کہ دعوی سے خارج حقوق یا اخلاقی حقوق تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی ہے اور اگر ہو بھی جائے تو اس لیے بے معنی ہیں کہ ان کا نفاذ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پھر یہ کہ ان نظاموں کو بناتا کوئی اور ہے چلاتا کوئی اور۔ نگرانی کوئی اور کرتا ہے اور محاسبہ کوئی اور نیز عقوبت وسزا کی ذمہ داری کسی اور پر ہے۔ ان سے پورے نظام کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ان کے مفاسد اس وقت سامنے آتے ہیں جب یہ نظام سماج میں رائج ہو چکے ہوتے ہیں۔ تب اس میں تبدیلی اگر نا ممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد خود ترمیم اور تبدیلی کی گنجائش ہے جو نئے فتنوں کو جگاتی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔
        2.            ان نظاموں میں انسانوں کے فرائض اور اختیارات کی نگرانی اور محاسبہ کا نظم بھی انتہائی محدود ہے ۔ پس جہاں وہ نگراں یا محاسب کی نگاہوں سے بچ سکتے ہیں ، بچ نکلتے ہیں اور بعد الموت جوابدہی کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔ ان کے محاسب یا نگراں ظاہر اور اعلانیہ جرائم یا کوتا ہی کا ہی پتہ لگا سکتے ہیں۔ باطن یا پس پردہ کوتاہی یا جرائم پر ان کو قابو نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب محاسب اتنی محدود قوت کا مالک ہو تو جب تک دعوی دائر نہیں کیا جائے کسی ٹھوس اقدام کا امکان نہیں ہے اور نہ بعد الموت جوابدہی کا تصور ہے جو لوگوں کو اپنے فرائض پر بالکلیہ آمادہ کرسکے۔ اب اگر کوئی شخص جبر واستحصال کا شکار ہو کر اپنے حقوق سے محروم ہو جائے تو ان کی ادائیگی کی صورت باقی نہیں رہتی ہے اور اخلاقی حقوق کی پامالی کے خلاف تو کوئی دعوی دائر ہو ہی نہیں ہو سکتا ہے۔
        جب کہ اسلامی تعلیمات کا یہ معجزہ ہی ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے مختلف نظاموں کی معنویت نہ صرف برقرار ہے بلکہ ان کی اہمیت میں روز افزوں اضافہ ہی ہے اور ہمارا یقین ہے کہ موجودہ نظاموں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد انسانوں کو اسلامی نظام زندگی کی آغوش راحت ہی میں حقیقی امن وسکون ملے گا۔ کیونکہ یہ نظام حاکم مطلق کا بنایا ہوا ہے جو انسانوں کے تمام مصالح ومفاسد سے آگاہ ہے اور اس نظام کا تصور یہ ہے کہ حاکم اعلی خود ہی نگران اعلی، محاسب اور نگہبان بھی ہے۔ چونکہ اس کا علم پورے کائنات کی وسعت کا احاطہ کرتا ہے اس لیے اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں ہے۔ وہ انسانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر کئے گئے جرائم اور کوتاہیوں کا بھی علم رکھتا ہے اور وہ علیم بذات الصدور ہے اس لیے دلوں میں پوشیدہ حالات سے بھی آگاہ ہے۔ وہی قیامت کے دن ان کا محاسبہ کرکے جزا وسزا متعین کرے گا۔
        زندگی کے ان نظاموں میں اجتماعی یا سماجی نظام کی ایک بنیادی اکائی خاندانی نظام ہے۔ جس پر معاشرہ کی اجتماعیت کی بنیاد ہے۔ یہ نظام انسانیت اور حیوان کے درمیان بنیادی فرق قائم کرتا ہے۔ حیوان کا نہ کوئی خاندان ہوتا ہے اور نہ ان میں حقوق اور ذمہ داریوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل انسانیت کا اپنا خاندانی تعلق ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر ان میں باہمی تعاون کا جذبہ اور حقوق و ذمہ داریوں کا تصور ابھرتا ہے۔ دنیائے انسانیت پر اسلام کے بے شمار احسانات میں ایک خاندانی نظام بھی ہے۔ اس نے” خاندان کا مفصل نظام پیش کیا۔ مردو زن کا رشتہ عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار کیا، افراد خاندان کے حقوق و واجبات کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا اور ان کے درمیان ہم دردی، محبت اور حسن سلوک کا ماحول پیدا کیا۔ “ (اسلام کا عائلی نظام) چنانچہ قرآن مجید اور احادیث میں کہیں قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی ، کہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری، کہیں بال بچوں اور ماتحتوں کے سلسلے میں تاکید تو کہیں بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کے احکامات کے ذریعہ خاندان کے حقوق کی ادائیگی پر ہر مسلمان مرد و عورت کو مامور کیا گیا ہے اور یہ تاکید کی گئی ہے کلکم راع  و کلکم مسؤل عن رعیتہ تم میں کا ہر شخص نگہبان ہے اور اپنے ماتحت کے سلسلہ میں جوابدہ ہے۔
                        ” خاندان سے مراد ازدواجی رشتوں میں منسلک زن و شوہر اور ان کی اولاد کا ایک گروہ اور ان کے قریبی رشتہ دار ہیں جو ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان کی زندگی کے امور میں آپسی مشاورت اور فیصلوں کے پابند ہوتے ہیں۔“(جامع اردو انسائیکلو پیڈیا)
حقوق:          یہ عربی زبان کے لفظ حق کی جمع ہے اور باطل کی ضد ہے جس کا معنی صحیح اور ثابت ہونا ہے اور اصطلاح میں وہ ثابت شدہ امر جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہےیعنی”الثابت الذی لا یسوغ انکارہ ‘(التعریفات للجرجانی)اس میں ایسے تمام واجبات اور استحقاقات داخل ہیں جو کسی انسان کو اپنے تعلق اور واسطہ کی بنیاد پرلازمی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔یہ متمدن سماج کی بنیادی خصوصیت ہے۔ حقوق در اصل ان تمام منافع کا حصول ہے جو ایک انسان کے لیے مصالح دنیوی اور اخروی کی خاطر لازمی ہیں۔جب کسی انسان کو حقوق حاصل نہیں ہوتے ہیں تو اسے اپنی زندگی غیر محفوظ محسوس ہوتی ہے اور آزادی کے ساتھ جینے اور آگے بڑھنے کے لیے جو مواقع چاہئیں نہیں مل پاتے ہیں ۔ بعض اوقات جبرواستحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔” لاسکی کے لفظوں میں :حقوق سماجی زندگی کی وہ لازمی شرائط ہیں جن کے بغیر کوئی فرد عام طور پر اپنی شخصیت کی تکمیل نہیں کرسکتا ہے۔“ (جامع اردو انسائیکلو پیڈیاج۳) یہ حقوق کبھی ریاست تو کبھی متعلقہ ادارہ یا افراد کی جانب سے حاصل ہوتے ہیں اور ریاست اس کی محافظت میں معاون ہوتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقوق وہ خارجی مراعات یا استحقاق ، سازگار ماحول اور مسرت آگیں داخلی احساس کا حصول ہے جو فرد کے ایمان کی بقا اور سلامتی ،زندگی کے تحفظ کا احساس، فطری نمو ، شخصیت کی تکمیل اور اظہار کے لیے لازمی ہیں۔
        موجودہ سیاسی نظام حکومت میں حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ اسلام نے جو حقوق متعین کئے ہیں انہیں یقینی بنانے کے لیے ریاست کی سرپرستی اور تعاون کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ صرف مالی اور چند اخلاقی حقوق کی حد تک ہی محدود ہے۔ بعض اخلاقی حقوق ایسے ہیں جو ریاست کی سرپرستی کے باوجود کوتاہی اور پامالی کی زد میں آسکتے ہیں۔ اسلام اپنے متبعین کو آخرت کی جوابدہی کا تصور دے کر ایسے حقوق کا بھی پاسدار بناتا ہے ۔جب کہ انہی اخلاقی حقوق میں بعض ایسے ہیں جن کی پامالی کا سد باب صرف اسلامی ریاست ( اسلامی ریاست سے مراد ایسی ریاست ہے جو اسلامی قوانین کی پاسداری کرے اور اس کی بنیاد اسلامی سیاسی قانون پر استوار ہو اور جب تک ایسی کوئی حکومت شریعت کے اصولوں کا انکار یا اس کی مخالفت نہ کرے اسے غیر اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے) یا شرعی قوانین کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے اور کوئی غیر اسلامی طرز حکومت اس ضمن میں ٹھوس اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسائل کے مقدمات سالوں غیر اسلامی عدالتوں میں چلتے ہیں اور ان کا کوئی حل نہیں نکلتا۔ فریقین تھک کر بیٹھ جاتے ہیں یا مصالحت کر لیتے ہیں یا ان میں کوئی ایک فیصلہ میں جانب داری کی شکایت کرتا ہے۔ جب کہ انہی مسائل کا نہایت واضح اور آسان حل اسلام میں موجود ہے۔
        اسلام میں خاندانی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ حقوق جو غیر اسلامی نظام نے تشکیل دیئے ہیں انسانوں کے محدود تجربات اور ذہنی ارتقا پر مبنی ہیں جس کی مقبولیت میں سیا سی دبدبہ کو بھی دخل حاصل ہے۔ یہ ایسے انسانوں کے تشکیل کردہ ہیں جو اپنا مخصوص مذہبی یا لا دینی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان میں بیشتر دنیا کو بے مقصد اور خود کار وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان کے افکار، تجربات اور ارتقا پر مبنی ہوتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں ان کے جو بنیادی نظریے ہوتے ہیں ان سے متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں حقوق کے تعین میں بھی یہ عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بسا اوقات یہ اپنے بلند بانگ دعووں اور ظاہری چمک دمک یا سیاسی دبدبہ کی وجہ سے قبول عام کا درجہ پا لیتے ہیں ۔انسانی تجربات میں خام کاری اور مخصوص حد تک ارتقا کی وجہ سے ذہن کی رسائی محدود ہوتی ہے۔ جب انسانی ارتقا کی اگلی منزل آتی ہے، یا سیاسی دبدبہ کمزور پڑجاتا ہے اور تجربات سے اس کے مفاسد سامنے آتے رہتے ہیں تو رفتہ رفتہ وہ نظام فرسودہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مخصوص عہد کے گزر جانے کے بعد بہت سے تصورات فرسودہ ہو گئے ہیں۔ آج بھی جو تصورات رائج ہیں اگلے وقتوں میں عدم تکمیل ، تجربات کی خام کاری اور مفاسد کے امکانات کی وجہ سے فرسودہ ہوجائیں گے۔ اس کے برخلاف اسلام نے جو حقوق دیئے ہیں وہ آفاقی ،مکمل ، جامع اور مفاسد سے پاک ہیں۔یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے ذہن کی محدود پرواز کی وجہ سے ان کے مصالح سے آگاہ نہ ہوسکے ۔
        اسلامی خاندانی نظام میں حقوق کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسلام موجودہ سماجی اصطلاح میں پدرسری نظریہ کی حمایت کرتا ہے لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو غیر اسلامی نظاموں میں رہی ہے۔ اسلام میں مرد کی حیثیت گھر کے نگہبان اور رئیس کی سی ہے۔ اسے عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ معاش کی تمام تر ذمہ داری مرد وں ہی پر ہے۔ عورت اس فریضہ سے آزاد ہے۔ جب کہ عورت کی حیثیت ملازمہ یا نوکرانی کی نہیں بلکہ اپنے حدود میں رہتے ہوئے با اختیار ملکہ کی سی ہے۔ اپنی تمام تر حاجتوں (کھانا ، کپڑا، مکان ،علاج اور دیگر لازمی خواہشات )کی تکمیل لیے مرد پر اپنا حق رکھتی ہے۔اس کی پامالی کی صورت میں اس کے خلاف دعوی دائر کرسکتی ہے۔ اسے والدین ، شوہر اور اولاد کی جہتوں سے جائیداد کا حق حاصل ہے لیکن مرد کا نصف۔ عورت کو ذاتی ملکیت رکھنے کا پورا پورا اختیار ہے وہ اس کو فروغ دینے کے لیے ہر اس ذریعہ کا استعمال کرسکتی ہے جس سے اس کے ایمان اور عصمت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس پر اس کو اختیار کلی حاصل ہے اور یہی شرط مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ البتہ شریعت میں متعین شدہ حصہ داروں کی طرف اس کی منتقلی میں کسی امتیاز کا اختیار کسی مرد اور عورت کو حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی نسبت باپ کی طرف ہوگی۔مرد ہی کو ولایت حاصل ہوگی۔ کوئی عورت ولی نہیں ہوسکتی ہے۔ دینی معاملات میں جس طرح مردوں کے فرائض ہیں عورتوں کے بھی ہیں ۔ مرد اس میں رکاوٹ بنتا ہے تو بعض صورتوں میں رشتہ تک قطع کیا جاسکتا ہے۔شوہر کی وفات کے بعد اس کی حیثیت خاندان کے ایک مستقل اور بڑی حد تک خود مختار فرد کی ہے۔ کسی وارث کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس پر قابض ہو جائے یا خاندان یا باہر کا کوئی مضبوط شخص اس کو زبردستی ہتھیالے اور اس سے تمتع حاصل کرے۔ ہاں اگر وہ خواہ عمر کی جس دہلیز پر ہو اپنی رضا سے گھر کے کسی ایسے فرد سے جو محارم کی ذیل سے نہیں ہیں یا کسی دوسرے شخص سے شادی کرنا چاہے اور وہ شخص راضی ہو تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے نظر استحسان سے دیکھتا ہے۔ البتہ اس کے لیے اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ایسا کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔
        باہمی حقوق: اسلام نے جہاں ہر شخص کے لیے انفرادی حقوق متعین کیے ہیں وہیں ایسے حقوق کی وضاحت بھی کی ہے جو گھر کے تمام افراد کو مساوی طور پر حاصل ہیں اور ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ ان حقوق کو ادا کرے۔
        احترام انسانیت:    ان میں سب پہلی چیز ایک دوسرے کا احترام ہے یعنی ہر شخص کو احترام انسانیت کا حق حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مشہور حدیث ہے : من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقر کبیرنا فلیس منا یعنی چھوٹوں پر شفقت اور رحم اور بڑوں کی توقیر و تعظیم۔ یہ اسلامی سماج کی خاص پہچان ہے۔
        خیر کی رہنمائی ،شر کی نشاندہی اور باہمی تعاون:         اس کے علاوہ ہر شخص اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے۔ برائی سے بچایا جائے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: یا ایھاالذین اٰمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا۔ ( اے ایمان والوں بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے) فرائض کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے اور گھروں میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے اسلام پر عمل کرنا آسان ہو۔خیر کے کاموں میں تعاون اور ان کی طرف نشاندہی کی جائے۔ برے کاموں سے اجتناب اور ان سے منع کیا جائے۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: وتعاونواعلی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔ نیز گھر میں ہر شخص کے ساتھ مساوی سلوک ہو ۔ کسی پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ خاندان کا کوئی فرد اگر غیر مسلم ہو تو اسے بساط بھر اسلام کی دعوت دی جانی چاہیے۔
        تحفظ کا احساس:       خاندان وہ ادارہ ہے جو انسان کو تحفظ ادا کرتا ہے۔ گھر کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسا تعلق نہ رکھیں جس میں کسی کی زندگی اجیرن ہوجائے ۔ ایک دوسرے کا رابطہ اور تعلق اس طرح ہو کہ کسی پر خارجی حملہ کا خوف نہ ہوا اور اگرایسی صورت پیدا ہو تو خاندان کے افراد اس کی حفاظت کریں۔ لیکن ایسا ظلما وعدوانا نہیں ہونا چاہیے۔ بیماری اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی غمگساری اور مدد ہونی چاہیے۔ خوشی اور غم کے موقعوں پر ایک دوسرے کے ساتھ محبت وہمدردی کا پورا پورا ظہار کیا جائے۔
        زندگی میں انسان مختلف طرح کے معاملات کرتا ہے۔ جب کوئی مر جائے تو وارثین اور خاندان کے دیگر افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ذمہ قرض کا پتہ لگائے۔ اگر وہ صاحب جائیداد مرا ہے تو اس کی جائیداد سے ورنہ اس کے وارثین اس کی ادائیگی کریں۔ اسی طرح اس کی موت پر بہتر ڈھنگ سے اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس کی تجہیز وتکفین کی جائے۔ انسان کے یہ اعمال ہر شخص میں تحفظ کا احساس جگاتے ہیں۔
        خاندان کے ساتھ ایک گھر یعنی مکان کا تصور بھی ذہن میں آتا ہے۔ اسلام اس مکان کا حق بھی متعین کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق گھر کو ظلم کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے۔ گھر میں کسی مجرم کو پناہ نہ دی جائے۔ایسا شخص جو اسلام کا مذاق اڑاتا ہو اور اسلامی شعار کو فرسودہ سمجھتا ہو وہ بھی مجرم ہی کے شمار میں ہے۔ گھر کو اللہ کے ذکر سے خالی نہ کیا جائے ، گھر میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت کی جائے،مسافر،کمزور، مظلوم، یتیم اور بیواؤں کے ساتھ اچھا بر تاؤ کیا جائے۔
        اسلامی خاندانی نظام کی بنیاد جن حقوق پر استوار ہے وہ سب اسلام نے ایسے وقت میں کیا جب دنیا نظام اور حقوق کے تصور سے بھی نا واقف تھی۔ اس کے باوجود یہ حقوق ہر طرح سے مکمل اور عدل پر مبنی ہیں۔ باوجودیکہ موجودہ دور میں آزادہ  روی، مستقل اور ذمہ داری عائد ہونے والے تعلقات سے بےزاری کا رجحان بڑھ رہا اور خاندانی نظام انتشار کا شکار ہے، اسلامی خاندانی نظام میں ان حقوق کی پاسداری اور احساس جوابدہی کے تصور کی وجہ سے سالمیت برقرار ہے اور بڑی حد تک مضبوط بھی ہے ۔ آج جو غیر اسلامی نظام حکمرانی رائج ہیں اور بزعم خود انسانیت کے محافظ اور بہی خواہ ہیں یا دوسرے جو مذاہب ہیں انہوں نے کبھی انسان کے عائلی حقوق کو اس طرح بیان کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام نے انسانی زندگی کو جو دستور دیا ہے اور اس میں زندگی گزارنے کے جو نظام بیان ہوئے ہیں انہیں جدید اسلوب میں منضبط طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ ان میں وہ تمام مسائل یا حقوق جو اسلام نے عالم انسانیت کو بخشا ہے، بیان کیے جائیں۔آج مسلمانوں پر بہت سے جو اعتراضات عائد ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے دنیا کے ساتھ زندگی کے ہر مسئلہ میں اسلامی تعلیمات کو پیش نہیں کیا،اگر پیش کیا تو وہ ذرائع استعمال نہیں کئے جن سے دیگر قوموں نے کام لے کر اپنے پیغام کو عام کیا۔ مسلمانوں میں بھی دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ ہونا چاہیے جس کا تقابل غیر اسلامی رجحان ساز (Lobbyist)  طبقوں سے کیاجاسکے۔ یہ طبقہ دنیا کی صورت حال پر اس طرح نظر رکھے کہ آنے والے عہد کے مسائل کو پرکھ کر اسلامی نظام کے بیان کردہ حل کو تیار رکھا جاسکے اور اس کے لیے وہ تمام ذرائع استعمال کئے جائیں جن سے عالمی پردے پر اپنی آواز کو نمایاں جگہ دی جاسکے۔ مسلمانوں کا زوال اور ان کی محرومی یہ ہے کہ ان کا جو طبقہ دنیا کے حالات پر نظر رکھتا ہے دین کی بنیادوں سے نا واقف ہوتا ہے اور دین کا درک رکھنے والے دنیا کے حالات سے نا آشنا اور بے خبر ہوتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کا مشن اسلام اور مسلمان کی ترقی اور فروغ ہے۔ اس کے باوجود ددنوں کے درمیان مربوط تعلقات پیدا ہونے کی راہیں بھی نہیں نکلتی ہیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
٭٭٭
یہ مضمون دارا لعلوم احمد یہ سلفیہ دربھنگہ بہار میں منعقد دو روزہ قومی سیمینار اسلام اور حقوق کے لئے لکھا گیا اور سیمینار میں پیش کیا گیا
مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے 

No comments: