مشمولات

Saturday, 22 December 2012

Rights of Parents in Islam


(۲)
والدین کے حقوق
                                                                                                                                                                                       
        خاندانی رشتوں میں سب سے اہم رشتہ والدین کا ہے اور یہ اللہ کے بڑے احسانات میں سے ایک اہم احسان ہے ۔ کیونکہ یہ انسان کے دنیا میں وجود پذیر ہونے کا ذریعہ ہیں۔ قران اور احادیث میں مختلف پیرائے میں ان کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے حقوق کو اپنی عبادت کے ساتھ بڑی تفصیل اور تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:: ”وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا اما یبلغن عند ک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما وقل لھما قولا کریماواخفض لھما جناح الذل من الرحمة وقل رب الرحمھا کمار ربینی صغیرا“(ترجمہ): اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ میرے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہاری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کو اف بھی نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو ، اور ان کو عزت سے مخاطب کیا کرو اور محبت سے ان کے آگے جھک جایا کرو اور ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کرو اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔
         اس آیت کی روشنی میں والدین کے کئی حقوق متعین ہوتے ہیں:
        (۱) حسن سلوک:
        ان میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔حسن سلوک کابڑا وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں ہر وہ بھلائی اور نفع داخل ہے جو انسان کی قلبی طمانیت ، ذہنی سکون اورآسودہ زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہے۔مثلا:
                        (الف) محبت وموانست:محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کے بغیر کسی بھلائی کا امکان نہیں ہے۔ ایک انسان کا دوسرے انسان سے تعلق اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک ان میں باہم محبت کا جذبہ موجزن ہو۔ یہ جذبہ جتنا قوی ہوگا تعلقات اتنے ہی مضبوط ہوں گے اور انسان اسی قدر ایک دوسرے خیال کا رکھے گا۔ حسن سلوک میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ان کے ساتھ حد درجہ محبت رکھی جائے۔اسی طرح انسان کی بنیادی خصوصیت موانست ہے۔ زندگی کے ہر دور میں والدین کے ساتھ موانست کا برتاؤ ہونا چاہیے تاکہ انہیں تنہائی ، بیزاری اور اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔جبکہ دور حاضر میں بزرگوں کے ساتھ یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ان کے ساتھ بےزاری اور ان میں تنہائی اور اکیلے پن کا احساس عام مسئلہ بن گیا ہے۔ اب تو نوبت یہ آ پہنچی ہے کہ والدین کے لیے جائے قرار Old HomeیعنیAncestor's House ہے۔ جہاں خدمت اور ضرورت بر آری کے خواہ جتنے سامان موجود ہوں انسان کو ملنے والی گھر کی انسیت ، محبت اور ہمدردانہ جذبہ مفقود ہوتا ہے۔
        والدین کے ساتھ اس رویہ کے پیچھے شاید صارفی سوچ بھی ہو کہ وہ اب کسی مصرف کے نہیں رہے نہ ہی ان سے مستقبل میں کسی فائدے کا امکان ہے۔لیکن یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انسان تما م جانداروں میں سب سے زیادہ باہمی امداد کا محتاج ہے۔ ایام طفولیت میں ایک خاص مدت تک والدین کی توجہ اور دیکھ بھال کے بغیر اس کا نشو و نما ناممکن ہے۔ اسی طرح ہر شخص عمر کی ایک خاص مدت طے کر لینے کے بعد دوسرے انسانوں کی توجہ اور دیکھ بھال کا محتاج ہو جاتا ہے۔باہمی یگانگت ، محبت وانسیت اور ہمدردی وغیرہ تو ایسے جذبات ہیں جن کی ہر وقت ہر انسان کو ضرورت ہے۔اگر کوئی شخص ان کو اپنی زندگی میں ناپید پائے تو اس پر جنون طاری ہو جائے۔ گرچہ ترقی کے اس دور میں غیر انسانی سلوک کے خاتمہ کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن اس کو کیا کہا جاسکتا ہے کہ عمر کے اس مرحلہ میں جب انسان کو دوسرے کی خدمت کا محتاج ہو Old Homeمیں رکھا جائے۔ یہ رویہ بھی دور حاضر کے اعلی انسانی سلوک کے دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔ اسلام والدین کی خبر گیری اور حد درجہ موانست کی تعلیم دے کر والدین کے ساتھ اس رویہ سے روکتا ہے۔
                        (ب) توقیر وتعظیم:دنیا میں انسان کی عزت وتکریم کی اہمیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تعلقا ت کی نااستواری میں عزت وتکریم کا فقدان بنیادی عامل ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی علامت یہ ہے کہ ان کی عزت وتکریم کی جائے۔ ان سے نرم لہجہ میں بات کی جائے۔ انہیں جھڑکا اور ڈانٹا نہ جائے۔ان سے جھگڑا اور لڑائی نہ کیا جائے۔ انہیں گالی نہ دی جائے۔ والدین کوگالی دینے کو اسلام سنگین کبیرہ گناہوں میں شمار کرتا ہے۔ گالی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص دوسرے کو والدین کو گالی دے اور اس رد عمل میں اس کے والدین کو گالی دی جائے ۔ عام طور پر جب والدین سن رسیدہ ہو جاتے ہیں تو ان میں فطرتا جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسے وقت میں اولادکو ضبط سے کام لینا چاہیے اور ان کی توقیر وتعظیم برقرار رہنی چاہیے۔
        والدین کی پسندیدگی وناپسندیدگی کو ملحوظ رکھنا بھی توقیر وتعظیم میں شامل ہے بلکہ عین مطلوب ہے۔ اس سے ان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کا فقدان ان کے لیے جھنجھلاہٹ کا سبب بنتا ہے۔
        اگر ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جس میں والدین سے اختلاف رائے کی گنجائش ہو تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی رائے کو آہستہ روی کے ساتھ بڑے احسن طریقے سے ان کے گوش گزار کی جائے اور کسی طرح کی زبردستی کا رویہ نہ اپنا یا جائے۔ ان کے ساتھ عاجزی اور درماندگی کے ساتھ پیش آیا جائے۔
        (ج)حاجتوں کی تکمیل :والدین کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کی ضروریات کی تکمیل کی جائے۔ انسان جب توانا اور تندرست ہوتا ہے تو اپنی ضروریات کی تکمیل اپنے دست وبازو سے کرلیتا ہے لیکن وہ جب بوڑھا یا کمانے سے عاجز ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اسلام ایک انسان کی زندگی کو Unsecuredنہیں چھوڑتا ہے بلکہ یہ اس کے وارثین کا فرض ہے کہ اس کی تمام تر حاجتوں کی تکمیل کریں۔ والدین اس کے سب زیادہ حقدار ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: یسئلونک ماذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین الآیة ۔ اگر بچوں میں استطاعت ہوتو والدین کو ایسے مواقع بھی فراہم کئے جانے چاہئیں کہ وہ اگر مالی استطاعت نہیں رکھتے ہوں تب بھی صدقات وعطیات دے سکیں۔ والدین کے اخراجات کی تکمیل اپنے اصل مال سے ہونی چاہئے۔ والدین پر زکوة اور صدقات کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی ہے ۔اگر بچے یا ان کے دیگر وارثین اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں یا وارثین موجود نہ ہوں توایسی صورت میں اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے ۔ اگر ریاست کا وجود نہیں ہے تو یہ ذمہ داری اسلامی سماج کی ہے۔ اسلام اس کے لئے زکوة اور سماجی نظام کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
        (د)والدین کے اعزہ واقارب کے ساتھ حسن سلوک:انسان جب تک اس دنیا میں رہتا ہے اس کے اپنے تعلقات ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی میں ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے کہ اولاد انہیں ایسا ماحول فراہم کرے جس میں وہ اپنے دوستانہ تعلقات اور رشتہ داریوں کو قائم اور مضبوط رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ جب وہ انتقال کر جائیں تو ان کے ان اعزہ کے ساتھ بساط بھر اچھے تعلقات رکھے، ان کی عزت کرے اور جہاں تک ممکن ہو حسن سلوک کا معاملہ کرے۔ کم از کم ان سے تعلقات اور رشتہ داریوں کو منقطع نہ کیا جائے۔
        اگر والدین کے والدین زندہ ہوں اور والدین کا انتقال ہوجائے تو ان کی خبر گیری بھی اسی طرح کی جانے چاہیے جس طرح والدین اپنے والدین کی خبر گیری کرتے اور ان کا خیال رکھتے ۔
        (۲) اطاعت و فرمانبرداری:
        والدین کا دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: واخفض لھما جناح الذل من الرحمة اس ٹکڑے میں جہاں عاجزی وانکساری کی ترغیب ہے وہیں جذبہ اطاعت کے ساتھ پیش آنے کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ احادیث میں والدین کی اطاعت کی تاکید آئی ہے اور اسے جہاد جیسی افضل ترین عبادت پر فوقیت حاصل ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعور ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ سے دریافت کیا : ای العمل احب الی اللہ تو آپ نے فرمایا : الصلوة علی وقتھا قال ثم ای قال ثم برالوالدین قال ثم ای قال الجہاد فی سبیل اللہ۔  والدین کی اطاعت کرنے والوں کے لیے مستجاب الدعوة ہونے کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک طویل حدیث ہے جس میں ان تین اشخاص کے واقعات کا ذکر ہے جو ایک غار میں چھپے ہوئے تھے اور اس کے منہ پر ایک بھاری پتھر آ گرا ۔ ایسے وقت میں ان لوگوں نے اللہ کے سامنے اپنے اپنے اچھے اعمال پیش کرکے اس پتھر کے ہٹ جانے کی دعا ئیں کیں۔ اس میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو والدین کا فرمانبردار تھا۔اس نے والدین کے ساتھ اپنے جذبہ اطاعت کا واسطہ دے کر دعا کی۔ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ نبی نے فرمایا حرم علیکم عقوق الامھات بلکہ شرک کی سنگینی کے بعد والدین کی نافرمانی سنگین گناہ ہے۔ البتہ والدین کے ایسے حکم کی اطاعت نہیں کی جاسکتی جس میں کسی گناہ کا عمل ہو۔
        (۳) دعا:
        والدین کا یہ بھی حق ہے کہ ان کے حق میں دعا کی جائے۔ اگر وہ زندہ ہوں تو ان پر رحم کی دعا کی جائے جیسا کہ مذکورہ آیت میں اس کا ذکر ہے۔ اگر وہ غیر مسلم ہوں تو ان کے حق میں جہاں رحم کی دعا کی جائے وہیں ان کے رشد وہدایت کی دعا بھی کی جانی چاہیے۔ اگر وہ مر گئے ہوں تو ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنا چاہیے جیساکہ آپ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد انسان کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین عملوں کے ۔ ان میں ایک عمل نیک اولاد ہے جو والدین کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ البتہ اگر وہ غیر مسلم یا مشرک مرے ہوں تو ان کے حق میں دعائے مغفرت درست نہیں ہے۔
        (۴)مالی حقوق:
        اسلام والدین کو مالی حقوق دو طرح سے عطا کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ ان کی تمام تر حاجتوں کی تکمیل کرے۔ دوسری صورت اولاد کے ترکہ میں ان کی حصہ داری ہے۔ اگر کسی شخص کا بچہ اس کی زندگی میں فوت ہوجاتا ہے اور وہ اگر صاحب مال ہوتو اسلام ان کو بچے کی ملکیت سے صاحب اولاد کی صورت میں چھٹا حصہ کا حق دار بناتا ہے اور بے اولاد ہونے کی صورت میں ماں کو ایک تہائی مال حاصل ہوتا ہے اور بقیہ سارے مال کا وارث باپ ہوتا ہے ۔ بعض صورتوں میں باپ ذی الفرض ہونے کے ساتھ عصبہ ہوکر بچے ہوئے مال کا بھی حق دار ہوجاتا ہے۔
        البتہ والدین کے درمیان ماں کو اسلام نے والد سے تین درجہ فضیلت دی ہے۔
٭٭٭
یہ مضمون دارا لعلوم احمد یہ سلفیہ دربھنگہ بہار میں منعقد دو روزہ قومی سیمینار اسلام اور حقوق کے لئے لکھا گیا اور سیمینار میں پیش کیا گیا
مضمون کا یہ دوسرا  حصہ ہے 

No comments: