(۳)
زوجین کے حقوق
اسلامی خاندانی نظام میں والدین کے بعدانسان
کا جو سب سے قریبی تعلق قائم ہوتا ہے وہ زوجین کا تعلق ہے۔ ایک مرد کا ایک عورت سے
اور ایک عورت کا ایک مرد سے ازدواجی رشتے کی بنیاد پر محبت و الفت کا اٹوٹ رشتہ قائم
ہوتا ہے۔ قران نے اس رشتہ کو قدرتی نشانیوں میں شمار کیا ہے: ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل
بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (ترجمہ):اللہ تعالی
کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے۔
تاکہ تم ان کے ذریعے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک
اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
اسلام میں اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار
ہے۔ اس کے لئے مرد و عورت دونوں پر ذمہ داریاں اور دونوں کے جائز حقوق متعین کئے ہیں
جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور معاشرہ میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا
ہے۔ اسلام نے بیوی کو درج ذیل حقوق عطا کیے ہیں:
(۱) حسن معاشرت:اس میں ہر وہ برتاؤ شامل ہے جو ایک عورت
کے لئے ذہنی سکون کا باعث ہے۔ اسلام شوہر کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ
حسن معاشرت کا برتاؤ کرے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا
کثیرا ۔ (ترجمہ)
ان کے ساتھ معروف کے مطابق زندگی گزارو۔ اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو یہ بھی ہوسکتا
ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ نے اس میں بڑی بھلائی رکھی ہو۔
حسن معاشرت کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کے احترام
انسانیت کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے لیے لباس ، رہائش ،کھانے پینے ،علاج و معالجہ میں
، دوستوں اور رشتہ داروں سے تعلقات قائم رکھنے میں وہی پسند کیا جائے جو شوہر اپنے
لیے پسند کرے۔ البتہ عورت اگر آزاد خیال ہے اور غیر محرم مردوں سے دوستانہ تعلقات قائم
کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دیتا ہے۔ حسن معاشرت کا مفہوم
بڑ اوسیع ہے۔ جلال الدین عمری اپنی کتاب اسلام کا عائلی نظام میں لکھتے ہیں: ”۔۔۔۔بیوی
کے ساتھ اس کی معاشرت ’معروف ‘ کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے حقوق
ٹھیک ٹھیک ادا کیے جائیں اور اس کی جائز اور معقول ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے ساتھ
ناروا سلوک نہ کیا جائے، بلکہ پیار اور محبت کا برتاؤ کیا جائے۔ ترش روئی اور سخت کلامی
سے اجتناب کیا جائے۔ یہ سب باتیں معروف میں آتی ہیں۔ اس کے خلاف جو رویہ اختیار کیا
جائے گا وہ غیر معروف اور منکر ہو گا’’۔اس کا آسان سا مفہوم یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ
عرف و عادت یعنی سماج میں حسب استطاعت لوگوں کا اپنی بیوی کا ساتھ معاشرت کے رویہ کے
مطابق معاشرت اختیار کی جائے۔
حسن معاشرت میں یہ بھی داخل ہے کہ بیوی اپنے
والدین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے۔ ان سے ملنا جلنا باقی رکھے ۔ اس کے لیے شوہر
کی جانب سے اسے حق ہے کہ وہ ان فرائض کو بجا لائے جو اولاد پر واجب ہیں۔نیز اپنی ملکیت
سے با اختیار طور پراور شوہر کی ملکیت سے اجازت لے کر والدین کی مالی امداد بھی کر
سکتی ہے اور اگر والدین محتاج ہوں تو اس کی ہمدردی کے سب سے زیادہ حقدار خود اس کے
والدین ہی ہیں۔
(۲) تر بیت:اسلام ہر مرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے
کہ جس طرح وہ اپنی بیوی کے مصالح دنیوی کا خیال رکھے اسی طرح اس کے اخروی مصالح کا
بھی پورا پورا انتظام کرے۔ اگر اس کی تربیت میں کسی طرح کی کمی رہ گئی ہے تو مرد اس
کی تربیت کرے تاکہ وہ دنیا میں ایک اچھی زندگی گزار سکے اور جنت میں اس کی ساتھی اور
رفیق بن سکے۔ ساتھ ہی بچوں کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ عورت مہذب اور تربیت یافتہ
ہو تاکہ اپنے بچوں پر اچھے اثرات مرتب کرسکے اور انہیں اچھی زندگی گزارنے کے لیے اس
کی بہترین تربیت کرسکے۔
(۳) عدل ومساوات:اسلام نے ایک مرد کو چار شادی تک کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن
اس شرط کے ساتھ کہ بیویوں کے درمیان عدل ومساوات سے کام لے۔ ہر ایک کے حقوق برابر ادا
کرے۔ نفقات اور دیگر ضروریات کی ادائیگی اور تعلق میں کسی قسم کے امتیازی سلوک سے کام
نہ لے۔ اگر شوہر ان کے درمیان عدل سے کام نہیں لیتا ہے تو بیوی کو حق ہے کہ وہ اس حق
کی پامالی کے خلاف دعوی دائر کرے۔
(۴) مالی حقوق: اسلام
عورت کو بیوی کی حیثیت سے کئی ذرائع سے مالی حق عطا کرتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا مالی
حق مہر ہے ۔ جو شادی کے بعد اسے سب سے پہلے حاصل ہوتا ہے۔ مہر کی مقدار متعین نہیں
ہے۔ یہ عورت اور اس کے ولی کا اختیار ہے کہ وہ شادی کے لیے جتنے پر رضامند ہو جائیں۔
البتہ اس کی ملکیت ولی کو حاصل نہیں ہوگی۔ نہ شوہر کو یہ حق ہے کہ اس کی اس ملکیت یا
کسی اور ملکیت میں دست درازی کرکے اسے بے اختیار کر دے ۔
اسلام نے عورت کو معاشی تگ و دو سے آزاد رکھا
ہے۔ یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کا نان و نفقہ، رہائش اور دیگر لازمی ضروریات پوری
کرے۔ بلکہ مرد کو عورت پر جو ایک درجہ فضیلت ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اس
جوکھم کو بر داشت کرتا ہے۔
شوہر کی زندگی میں اسے جہاں مہر نفقہ اور رہائش
کی شکل میں مالی حق حاصل ہے اسی طرح اسلام شوہر کی وفات کے بعد بھی اس کی زندگی کو
غیر محفوظ صورت حال میں نہیں رکھتا ہے بلکہ شوہر کی چھوڑی ہوئی جائیداد سے اسے ترکہ
کی شکل میں شوہر کے لا ولد ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں
آٹھواں حصہ مالی حق عطا کرتا ہے ۔ان کے علاوہ اولاد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ والدین
کے نفقہ کو واجبی طور پر ادا کریں۔
(۵) خلع: اسلام
پر اکثر یہ اعتراض عائد ہوتا ہے کہ وہ مردوں کو تو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جب تک چاہیں
عورت کو اپنی زوجیت میں رکھیں اور جب چاہیں اسے طلاق دیدیں ۔ حالانکہ یہ بات بھی درست
نہیں ہے کہ مرد جب چاہے طلاق دیدے ۔ لیکن جس طرح اسلام مرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ
وہ عورت سے نباہ نہ ہونے کی صورت میں اسے طلاق دیدے ، اسی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل
ہے کہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے اور مرد اسے چھوڑنے کے لیے راضی بھی نہیں
ہے ، تو وہ عدالت میں دعوی دائر کرکے قاضی کے ذریعہ نکاح کو فسخ کرالے۔
شوہر کے حقوق
(۱) اطاعت:اسلام نے عورت کو شوہر کا مطیع و فرمانبردار
بننے کا حکم دیا ہے اور اس کی نافرمانی سے روکا ہے۔ نافرمان عورت کے لئے سخت وعید سنائی
ہے۔ البتہ اگر شوہر کا حکم شریعت کے احکام سے متصادم ہو تو شریعت کا حکم شوہر کے حکم
سے برترسمجھاجائے گا۔ شوہر کا حکم ٹھکرا دیا جائے گا اور شریعت کی پیروی کی جائے گی۔
شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔
(۲) قلبی طمانیت اور ذہنی سکون:بیوی کو اللہ نے سکون
کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لیے عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ مرد کے لیے ایسا ماحول فراہم کرے
جس میں اس کو ذہنی سکون اور قلبی طمانیت حاصل ہو۔ شوہر کو ذہنی سکون تب حاصل ہوگا جب
بیوی اس کی پسندیدگی وناپسندیدگی کا لحاظ رکھے۔ اس کے غائبانہ میں گھر میں ایسے شخص
کو نہ آنے دے جسے وہ ناپسند کرتا ہے ۔ گھر کو اس طرح سے منظم رکھے جیسی اس کی خواہش
ہے اور جہاں تک شریعت کی طرف سے حکم امتناعی نہیں ہے لباس و پوشاک اور جسم و چال ڈھال
میں زیبائش اختیار کرے تاکہ اس کا شوہر اس کو دیکھے تو خوش ہو جائے۔ اس کے گھر اور
املاک کی حفاظت کرے اس میں کسی طرح کی خیانت سے کام نہ لے ۔ البتہ گھر کے نفقہ میں
شوہر بخل سے کام لیتا ہو یا گھر کی لازمی اور بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہوتی ہوں تو اسی
قدر استعمال کرے جتنی ضرورت ہو۔ نیز شوہر کی قلبی طمانیت اور ذہنی سکون کے لیے اس کے
والدین کی نگہداشت اور ان کی ضرورت کی تکمیل میں بیوی کو شوہر کا ہر ممکن تعاون کرنا
چاہئے۔
(۳) بچوں کی پرورش و پرداخت:معاش کی ذمہ داری اسلام نے مردوں پر رکھی
ہے۔ عورت کو گھر کی ملکہ اور ذمہ دار بنایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی پرورش و
پرداخت میں شوہر کا تعاون کرے۔ ایام شیر خوارگی میں ان کو دودھ پلا ئے۔ ان کی دیکھ
ریکھ کرے۔ بڑے ہوں تو ان کی اچھی تربیت کرے۔ ان کو کھلائے پلائے، صاف صفائی کا خیال
رکھے اور پڑھنے لکھنے میں ان کی توجہ مبذول کرائے۔
(۴) طلاق
:اسلام ازدواجی رشتہ کو گھٹن کی حالت میں باقی نہیں رکھنا چاہتا ہے جس سے انسانی جان
خطرے میں پڑ جائے۔ ایسی صورت کے پیدا ہونے اور بناؤ کی کوئی صورت نہ رہنے پر اسلام
یہ اجازت دیتا ہے کہ رشتہ ختم کرکے سکون و اطمینان کی زندگی اختیار کر لی جائے اور
نئے سرے سے دونوں افراد اپنی زندگی بسالیں۔ اس کے لیے اسلام نے شوہر کو طلاق کا حق
عطا کیا ہے۔ لیکن اسے حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ شے شمار کیا ہے۔ اس کا استعمال
اسی صورت میں جائز قرار دیا ہے جب بناؤ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔لیکن اگر کوئی بلا
سبب بھی طلاق دے دیتا ہے تو طلاق ہو ہی جائے گی۔ پھر اس کا جو طریقہ بتایا ہے اس میں
اس کی گنجائش پیدا کی ہے کہ انسان اگر اس اقدام کے کرنے پر مجبور ہو تو اقدام کرنے
کے بعد اور قطعی فیصلہ سے قبل دونوں کو اس ازدواجی زندگی کی قدر کا احساس ہوسکے۔ اس
لیے اسلام نے اس گنجائش میں جو وسعت رکھی ہے اور اس کو محدود نہیں کیا جائے تاکہ اگر
اس طرح کا ارتکاب کرتا ہے اورسے ازدواجی زندگی کا احساس ہو جائے تو حتی الامکان اس
کو باقی رکھ سکے۔
(۵) ترکہ میں حصہ: جس طرح ایک عورت کو شوہر کی وفات کے بعد شوہر
کی جائیداد سے مالی حق حاصل ہوتا ہے اسی طرح ایک مرد کو اس کی بیوی کی جائیداد سے اس
کی وفات کے بعد بیوی کے لا ولد ہونے کی صورت میں کل مال کا نصف حصہ اور اولاد والی
ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی مالی حق ملتا ہے۔
زوجین کے باہمی حقوق:
وظیفہ زوجیت: ازدواجی تعلق انسان کی ایک لازمی خواہش ‘‘جنسی
خواہش’’ کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ شادی کے بعد ایک عورت کا حق ہے کہ اس کی جنسی خواہش
کی تکمیل کی جائے۔ مرد اگراس حق کو ادا کرنے کا اہل نہیں ہے تو اسلام عورت کو یہ اختیار
دیتا ہے کہ وہ اس سے اپنا رشتہ ختم کرالے ۔ کیونکہ اسلام میں عصمت کی پامالی دین کی
پامالی ہے۔ اسلام آزادانہ جنسی تسکین کا قائل نہیں ہے۔ کسی مرد کی زوجیت میں رہتے ہوئے
کوئی عورت آزادانہ جنسی تعلق نہیں قائم کرسکتی ہے ۔ خواہ اس کا شوہر اس کی تکمیل سے
عاجز ہو یا اس کی ادائیگی نہ کرتا ہو۔نہ ہی کوئی مرد کسی عورت سے شادی کیے بغیر جنسی
تعلق قائم کرسکتا ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں سخت تاکید ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا :” ان لربک علیک حقا، ولزوجک علیک حقا ولاھلک علیک حقا فاعط کل ذی حق حقہ“ (ترجمہ)
بے شک تیرے رب کا تجھ پر حق ہے، تیرے زوج کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل کا تجھ پر حق
ہے پس ہر شخص کو اس کا حق ادا کرو۔
جس
طرح بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کی جنسی خواہش کی تسکین کرے اسی طرح شوہر کا بھی یہ
حق ہے کہ بیوی اس کی جنسی خواہش کی تسکین کے لئے تیار رہے۔شوہر کی اس خواہش کو ٹھکرا
دینا یا اس سے انکار کرنا اسلام میں ممنوع ہے کیونکہ ایسی صورت میں ایک انسان فتنہ
میں مبتلا ہوسکتا ہے اور اس کی عصمت پامال ہوسکتی ہے اور اسلام کے نزدیک عصمت کی اہمیت
انسانی جان کے برابر ہے۔ شادی شدہ شخص کے ذریعہ اس کی پامالی کی سزا سنگساری یعنی موت
ہے۔
البتہ کسی وجہ سے بیوی اگر ذہنی طور پراس حق
کی ادائیگی کے لیے آمادہ نہیں ہوتی ہو تو جبر و تشدد کے بجائے ان وجوہات کو ختم کیا
جائے جن کی وجہ وہ آمادہ نہیں ہو رہی ہے۔ مثلاً اگر بیماری کی وجہ سے ایسا ہے تو اس
کا علاج کرایا جائے یا اگر ذہنی الجھن یا کسی دباؤ کا شکار ہے تو ان کو ختم کیا جائے۔
اسی طرح بیوی اگر بوڑھی ہو چکی ہے اور درازی عمر کی وجہ سے یہ حق ادا نہیں کرسکتی ہے
یا اس کی خواہشات سرد پڑ چکی ہیں تو اس پر تشدد اختیار کرنے کے بجائے اس کو زوجیت میں
رکھتے ہوئے دوسری شادی کر لی جائے یا اس لائق ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کا
مناسب علاج کیا جائے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ اب اس لائق نہیں رہی اسے طلاق دے دینا
بھی اسلامی روح کے منافی ہے۔
بچے کی پیدائش : جیسا
کہ اوپر مذکور ہوا کہ شادی جنسی تسکین اور افزائش نسل کا جائز ذریعہ ہے ۔ یہ کہا جاسکتا
ہے کہ اللہ تعالی نے جنسی خواہش ودیعت ہی اس لیے کی ہے کہ دنیا میں انسانی نسل کی بقا
اور ارتقا کا عمل جاری رہے۔ اس کا ایک ہی جائز ذریعہ شادی کو بنا یا گیا ہے۔ پھر یہ
کہ انسان کے اندر اولاد کی فطری خواہش پائی جاتی ہے۔ اس لیے بچے کی پیدائش بیوی اور
شوہر دونوں کا حق ہے۔ دونوں میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس خواہش کا انکار
کرے۔ خواہ اولاد کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ اولاد اللہ کی نعمتوں میں ایک ایسی نعمت
ہے جو انسان کی نسل کو اس کے بعد باقی رکھتی ہے۔ اس طرح بچے کی پیدائش کی خواہش بھی
زوجین کا باہمی حق ہے۔ جدید تعلیم ، سرکاری اشتہارات اور بنیادی وجوہات کو غلط رنگ
دے کر بڑھتی ہوئی عالمی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کی رپورٹوں کی وجہ سے مسلم گھرانوں
میں بھی ایسے خیالات بار پا گئے ہیں کہ چھوٹا گھرانا سکھی اور خوشحال ہوتا ہے۔ ظاہر
ی طور پر چھوٹے گھرانوں میں مسائل کم پیدا ہوتے ضرور نظر آتے ہیں۔ اس سے وقتی طور پر
ایسے خیالات میں قدرے صداقت بھی نظر آنے لگتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی اسلامی
تعلیمات کے ساتھ زندگی گزارنے اور اس کے مسائل سے فرار کی ایک غلط راہ ہے۔
لیکن بچوں کی پیدائش کے لیے کسی غیر فطری طریقہ
کو بھی اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مثلا مرد اگر نا اہل ہو تو کسی دوسرے مرد کا مادہ
منویہ مستعار لے کر بیوی کی رحم میں طبی طریقے سے ڈال کر بچے کی افزائش کرنا ، اسی
طرح عورت اگر بانجھ ہو تو مرد کا اپنے مادہ منویہ کو کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈال
کر بچے کی افزائش کرنا،اسلام میں بالکل حرام ہے۔ اسلام حرمت نسب کا خاص خیال رکھتا
ہے اور ایسے دروازوں کو بند رکھنا چاہتا ہے جو فساد کا باعث ہیں۔ اس طرح سے بچوں کی
پیدائش سے جہاں نسب میں اختلاط پیدا ہوگا وہیں ترکہ کی تقسیم اور اولاد کی نسبت میں
فساد کا باعث ہوگا۔ اور اس طرح سے پیدا ہونے والا بچہ ناجائز سمجھا جائے گا۔
٭٭٭
یہ مضمون دارا لعلوم احمد یہ سلفیہ دربھنگہ بہار
میں منعقد دو روزہ قومی سیمینار اسلام اور حقوق کے لئے لکھا گیا اور سیمینار میں
پیش کیا گیا
مضمون
کا یہ تیسرا حصہ ہے
No comments:
Post a Comment