مسلکی تنازعے اور ان کی مذمت
دنیا بھر میں مسلمان مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں اور اب بدقسمتی سے صورتحال فرقہ در فرقہ اور جماعت در جماعت کی ہوچکی ہے۔ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنی مخصوص فکری بنیادیں رکھتی ہیں اور ان کے جواز کی اپنی دلیلیں بھی ہیں۔ جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان اختلافات کا پایا جانا غیر مستحسن تو ہے لیکن کوئی غیر فطری بات نہیں ہے۔ بری بات یہ ہے کہ اختلافات تنازعے کی شکل اختیار کرلیں ۔ بشمول ہندوستان دنیا بھر میں مسلمانوں کے ان فرقوں اور جماعتو ں کےدرمیان اختلافات کی بنیاد پر تنازعے کھڑے ہوتے رہتے ہیں جو کبھی کبھی تصادم کی صورت بھی اختیار کرلیتے ہیں اور پورے ملک؍ دنیا میں بجائے متصادم مسلک ؍ جماعت کے پوری قوم کے لیے ننگ ورسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں مسالک و مکاتب کی بنیاد پر تنازعے کھڑے ہوتے ہیں ہر چہار جانب سے اس کی عمومی مذمت کی جاتی ہے۔ خواہ کسی مسلک سے مسلمان تعلق رکھتا ہو اس کی مذمت کرتا ہے۔یہ بہر حال احساس کی ایک رمق ہے جو ابھی تک ہمارے دل میں باقی ہے۔ اختلافات تنازعے اورتصادم کی شکل اختیار کریں اس کی کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے اور اور اختلافات کی بنیاد پر تشدد کو جگہ نہیں دی جاسکتی ہے۔ لیکن ہمیں اس عمومی مذمت سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں مسلمان مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں اور اب بدقسمتی سے صورتحال فرقہ در فرقہ اور جماعت در جماعت کی ہوچکی ہے۔ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنی مخصوص فکری بنیادیں رکھتی ہیں اور ان کے جواز کی اپنی دلیلیں بھی ہیں۔ جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان اختلافات کا پایا جانا غیر مستحسن تو ہے لیکن کوئی غیر فطری بات نہیں ہے۔ بری بات یہ ہے کہ اختلافات تنازعے کی شکل اختیار کرلیں ۔ بشمول ہندوستان دنیا بھر میں مسلمانوں کے ان فرقوں اور جماعتو ں کےدرمیان اختلافات کی بنیاد پر تنازعے کھڑے ہوتے رہتے ہیں جو کبھی کبھی تصادم کی صورت بھی اختیار کرلیتے ہیں اور پورے ملک؍ دنیا میں بجائے متصادم مسلک ؍ جماعت کے پوری قوم کے لیے ننگ ورسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں مسالک و مکاتب کی بنیاد پر تنازعے کھڑے ہوتے ہیں ہر چہار جانب سے اس کی عمومی مذمت کی جاتی ہے۔ خواہ کسی مسلک سے مسلمان تعلق رکھتا ہو اس کی مذمت کرتا ہے۔یہ بہر حال احساس کی ایک رمق ہے جو ابھی تک ہمارے دل میں باقی ہے۔ اختلافات تنازعے اورتصادم کی شکل اختیار کریں اس کی کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے اور اور اختلافات کی بنیاد پر تشدد کو جگہ نہیں دی جاسکتی ہے۔ لیکن ہمیں اس عمومی مذمت سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔
حالات یہ
ہیں کہ مسالک اور جماعتوں کی جو بنیادیں ہیں ان کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا ہے
البتہ تنازعوں کو روکنے کے کچھ ایسے اقدام کئے جاسکتے ہیں جن سے تنازعات کو ہوا
دینے یا اس سے فائدہ حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ جہاں کہیں تنازعے اور تصادم ہوتے ہیں اس میں متصادم
فریق اور جماعتوں کے درمیان نزاع کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے اس میں کوئی ایک
فریق مکمل قصور وار ہو، ہوسکتا
کوئی زیادہ قصور وار ہو کوئی کم، دونوں برابر کے قصور وار ہوسکتے ہیں۔ نزاع کو ہوا دینے میں کسی ایک فریق کا
کوئی عمل سبب بن سکتا ہے۔ ممکن ہے
غلط فہمی کی بنیاد پر نزاع کی صورت پیدا ہوئی ہو۔ صورتیں بہت سی ہوسکتی ہیں۔ نزاع کے سلسلے میں ہمیں مذمت کرنے کے ساتھ حقائق کی دریافت کرنی
چاہئے اور جب حقائق سامنے
آجائیں تو عمومی مذمت کرنے کے ساتھ بجائے اس کے کہ تاویلات کے ذریعہ اپنی جماعت کی طرفداری کی جائے یا دوسرے
کو مورد الزام ٹھہرایا جائے یہ کہنا چاہئے کہ میں فلاں جماعت سے یا مسلک کا
پیرو کار ہوں۔ اس معاملے میں میرے
مسلک کے لوگوں کا قصور یہ ہے یا ان سے یہ زیادتی ہوئی۔ یہاں ان سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے۔
اگر معاملہ معافی تلافی کا ہے تو معاملے میں ذمہ
دار اپنی جماعت کےلوگوں سے معاملے معافی چاہنے کی اپیل کرنے چاہئے بلکہ اپنے مسلک
کی جانب سے معافی کی خود بھی
پیش قدمی کرنی چاہئے ۔ اور اگر معاملہ دست برداری یا لین دین کا ہو تو ہوسکے تو بیچ میں پڑ کر پریشر گروپ
تیار کر کے یا اپیل کر کے اپنی جماعت یا مسلک کو معاملے سے دست بردار ہونے یا حقدار کی چیز انہیں عطا کردینے کی تلقین کرنی
چاہئے۔ جب تک اس کی جماعت؍ مسلک کا غاصب شخص حقدار کو اس کی چیز واپس نہیں کرتا ہے مسلسل مذمت کرتے
رہنا چاہئے۔
مسالک کے
نام پر جو تنازعے کھڑے ہوتے ان میں بنیادی طور پر افکار و خیالات ہیں جو اعمال کے
اختلاف کا سبب بھی بنتے ہیں. یہ افکار و
خیالات کبھی کبھی زبانی جنگ سے آگے بڑھ کر دست وگریباں اور قتل و خون تک پہنچ جاتے
ہیں. مقامات کے نام پر بھی تنازعے کھڑے ہوتے
رہتے ہیں جن میں بات سے معاملہ بڑھ صف آرائی اور اس کے آگے تک جاتا ہے. برسوں عدلیہ
میں مقدمات چلتے ہیں اور اس میں صلاحیتوں اور پیسوں کا عمومی ضیاع ہوتا ہے.ان میں
ایک اہم مقام مسجدیں بھی ہیں. تمام فرقوں کے نزدیک مسجدیں اللہ کا گھر ہیں. یہ کسی
کی ملکیت اور جائیداد نہیں ہوسکتیں. تمام فرقوں کے نزدیک اس کو یکساں تقدس حاصل
ہے.جماعتوں کے درمیان جو مشترک اقدار ہیں ان میں ایک مسجد بھی ہے۔ اس کے باوجود
پورے ہندوستان میں مسالک کی بنیاد پر مسجدیں قائم ہیں جن کا انتظام اسی مسلک کے
پیرو کار چلاتے ہیں. یہ صحیح ہے کہ چونکہ مسجد تمام مسالک کے یکساں تقدس رکھتی ہے
اس لیے اس میں تفریق نہیں رکھنی چاہیے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجوده صورتحال میں اس خوبصورت خیال کی صرف پیش کش کی جاسکتی ہے زمین پر اتارا نہیں جاسکتا
کیونکہ اس کے بعد معاملہ زور بازو کا ہوجائے گا. جس کی لاٹھی اس کی بھینس. ظاہر ہے
کہ پنج وقتہ نمازیں باجماعت ہوں گی وہ کون پڑھائے گا. ایک محلے میں تین مسلک کے
لوگ رہ رہے ہیں تو کیا تین جماعتیں ہوں
گی. یا جماعت کا کوئی تصور ہی نہ رکھا جائے. ایک کے پیچھے سب اپنے اپنے حساب سے
ادا کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو بہت اچھی بات ہے ۔ مگر یہ تنازعہ کھڑا ہوگا کہ ایک
کون ہوگا۔ظاہر ہے طاقت اور افراد میں زیادہ ہوگا بات اس کی چلے گی. پھر وقت کا بھی
اختلاف ہے. یہاں بھی فیصلہ زور بازو سے ہوگا. ایسے میں نتیجہ صرف ایک نکلتا ہے کہ
لوگ اپنے دائرے میں رہیں۔ ایک دوسرے کا ہر ممکن احترام کریں۔ اگر اختلاف کی نوبت
آجائے تو اختلافات کو تنازعے کی شکل نہ دی
جائے.اس معاملے میں دوسروں کو باز رکھنے سے خود باز رہنا زیادہ آسان ہے۔
No comments:
Post a Comment