آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
معروف شاعر جناب عبد المنان طرزی نے
اپنی تازہ کتاب ‘‘توشیحی نظمیں’’ کے ٹائٹل پیج کی پشت پر ‘‘عزیزان با لیاقت کی
سعادت مندیاں ’’ کے عنوان سے اپنے بارے میں مختلف کتابوں میں شامل چار عزیزوں کی آرا کو شامل کیا ہے جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔ بقیہ تین شخصیات ڈاکٹر مجیر
احمد آزاد، ڈاکٹر احسان عالم اور ڈاکٹر منصور خوشتر نے یقینی طور پر ادب میں اپنی
شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس خاکسار کی اس فہرست میں شمولیت جناب طرزی کی محض اعلی ظرفی اور ذرہ نوازی ہے۔ یہ عزیزوں سے ان کی
بے پناہ محبت اور شفقت عامہ کا ایک پہلو ہے ۔ ورنہ ‘‘چہ نسبت ایں خاک را’’ ۔
اس میں کسی تامل کی گنجائش نہیں ہے کہ میری اس رائے سے ان کی شخصیت میں کوئی بھی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کی شخصیت ہندوستان ہی
نہیں عالمی سطح پر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ در اصل یہ اپنے عزیز کو شناخت عطا
کرنے اور مقام اعتبار بخشنے کی ایک سعی
مشکور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پشت پر میری
مشمولہ رائے ان کی شعری کائنات کا غیر مکمل اور نا کافی تعارف ہے۔ کیونکہ بڑا ادب اپنے اندر اتنی وسعت اور تنوع رکھتا ہے
کہ چند لفظوں میں اس کا احاطہ ناممکن ہوتا ہے۔ ایک پہلو کو سامنے لائیں تو دوسرا ہاتھ
سے نکل جاتا ہے۔ جس طرح غلہ کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر اٹھاتے ہیں تو مٹھی میں کچھ ہی
دانے آتے ہیں اور ان میں سے بھی پھسل پھسل کر گرتے رہتے ہیں۔ جناب طرزی کی ادبی
کہکشاں بھی کچھ ایسی ہی وسعت کی حامل ہے کہ اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں تو الفاظ کی تنگ
دامانی راستہ روک لیتی ہے اور کلام کی قدرت بیان کی عاجزی کا اظہار کرنے لگتی
ہے۔
No comments:
Post a Comment