مشمولات

Tuesday, 7 August 2018

زباں (اردو) کی ہے آبرو باقی انہی خرقہ پوشوں سے


زباں (اردو )کی ہے آبرو باقی انہی خرقہ پوشوں سے 
۵ اگست ۲۰۱۸ کو  دربھنگہ کے ڈان باسکو اسکول میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے فروغ اردو سمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ مذکورہ سمینار میں بعض اسکالروں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو زندہ رکھنے میں سب سے بڑا رول موجودہ دور میں مدارس اسلامیہ کا ہے۔ یقینا یہ ایک سچائی ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اسی کے ساتھ بعض اسکالر اور مدبرین کا یہ احساس تھا کہ یہ محض جذباتی پہلو ہے اور اردو کو فروغ دینے میں مدارس کا کردار ضرور رہا ہے لیکن آج نوے فیصد مدارس صرف فارم داخل کرنے اور بچوں کو امتحان فارم داخل کرانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ انہیں تعلیم و تعلیم سے کوئی مطلب نہیں۔ ایسے مدبرین کے خیال میں بھی  کسی  حد تک سچائی ہے لیکن در اصل یہ اشتباہ ہندوستان کے مدارس کے نظام میں فرق نہیں کرنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔ 
ہم جانتے ہیں ہندوستان میں دو طرح کے مدارس کا نظام رائج ہے۔ ایک مدرسہ نظامیہ کہلاتا ہے جس کا سلسلہ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے اور دوسرا وفاقی یا ملحقہ ہے۔ جب ہم مدارس کے نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں اور اردو کے فروغ میں مدارس کے کردار کی تعریف کرتے ہیں تو اس وقت اہل نظر کے سامنے وفاقی یا ملحقہ مدارس کی بجائے نظامیہ مدارس ہوتے ہیں۔ 
جن اسکالروں کا خیال ہے کہ مدارس  اردو کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ان سے مراد وہی نظامیہ مدارس  ہیں۔ اسٹیٹ یونیورسٹی سے لے کر سینٹرل یونیورسٹی میں اردو شعبہ کی آبرو انہیں نظامیہ مدارس کے فارغین سے بچی ہوئی ہے۔ وہاں کے اچھے بچے یقینا انہی مدارس کے ہوتے ہیں۔ اردو زبان جس ش ق کی درستگی، صحیح تلفظ اور شستہ و رواں لہجہ کے  لیے  پہچانی جاتی ہے اس کے مثالی نمونے ان مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے یہاں عام ہیں۔ اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ابتدائی ایام میں اردو کو انگلی پکڑانے میں جن صوفیا کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے ان صوفیا کے صفات سے آج بھی یہی خرقہ پوشان مدارس متصف ہیں۔ آج بھی ان اہل مدارس عوام سے مضبوط رکھتے ہیں اور اس رابطہ کا ذریعہ یہی اردو زبان بنتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان نظامیہ مدارس میں متوسطہ سے اعلی تعلیم تک کے مرحلہ میں نصاب میں بطور زبان اردو مضمون کی حیثیت سے شامل نہیں ہے۔ یہ صرف ذریعہ تعلیم ہے۔ یا پھر تمام خارجی مطالعہ کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ طالب علم پر ایک مضمون کے بوجھ کا اضافہ کئے بغیر زبان کی تعلیم کا وہ مقصد حاصل کرلیا جاتا ہے جو عصری اداروں میں  بطور مضمون پڑھاکر بھی نہیں حاصل ہوپاتا ہے۔


No comments: