مشمولات

Sunday, 28 October 2018

تاثرات

محکمہ راج بھاشا کی جانب سے منعقد ضلع فروغ اردو سمینار میں پیش کئے گئے میرے تاثرات
مسند صدارت پر فائز صدر ایوارڈ یافتہ شاعر پروفیسر عبد المنان طرزی صاحب
وقار مجلس اس ضلع کے ڈائنیمک اور فعال ڈی ایم ڈاکٹر چندر شیکھر سنگھ صاحب
زینت مجلس ایڈیشنل کلکٹر محمد مبین علی انصاری، ضلع ایجوکیشن افسر ڈاکٹر مہیش پرساد سنگھ، اس سمینار کے کنوینر ضلع اقلیتی فلاح افسر محمد وسیم احمد صاحبان ،استاذ گرامی پروفیسر انیس صدری صاحب ، یہاں موجود اردو زبان و ادب کے ماہ و نجوم، اس کے سپاہی اور حاضرین کرام!
محکمہ راج بھاشا کی ہدایت پر ضلع انتظامیہ کی سرپرستی اور محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے منعقد اس سمینار میں آج اردو زبان کے فروغ میں حائل دشواریوں اور ان کے حل سے متعلق تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس خوبصورت سیمینار کے انعقاد کے لیے میں ضلع انتظامیہ اور منتظمین سیمینار کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سمینار میں اس خاکسار کو بھی اپنے تاثرات رکھنے کا موقع دیا اس کے لیے میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔
حضرات!
ہم جانتے ہیں کوئی زبان حکومت کے سہارے ہرگز زندہ نہیں رہتی ہے لیکن اگر اسے سرکار کی سرپرستی حاصل ہو جائے تو اس کے پر لگ جاتے ہیں۔ اردو ہمارے ملک کی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ یہ ہمارے سماج کی سب سے زیادہ رائج زبان ہے۔ وہ اردو زبان جو ہندوستانی اور ہندوی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے کہہ لیجئے کہ اس ملک کی قومی زبان ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ میں اس وقت اردو میں بول رہا ہوں اور یہاں موجود ہندی بھاشی حضرات اس کو ٹرانسلیٹ کئے بغیر ہندی میں سمجھ رہے ہیں۔ یہ زبان بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کے باوجود لکھنے اور پڑھنے کی سطح پر محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے گھرانے جہاں اکا دکا اردو لکھنے پڑھنے والے موجود ہوتے تھے اب وہ بھی اردو لکھنے پڑھنے والوں سے خالی ہو چکے ہیں۔ کچھ نئے گھرانوں میں اردو ضرور پہنچی ہے لیکن خالی ہونے کی شرح پہنچ کی شرح سے تیز ہے۔
اردو جن کی مادری زبان ہے ان گھرانوں میں بھی لکھنے پڑھنے والے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ نئی نسل کے بچے اردو رسم الخط سے نابلد ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض تقریبات میں ایسے بچے دیوناگری یا رومن رسم الخط میں لکھ کر اپنی تقریر یا پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو داں طلبہ و طالبات مادری زبان ہونے کے باوجود تدریس میں اردو زبان کے ساتھ Second Language کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ یہ سکینڈ لینگویج بھی ان کے مضامین کی ترجیحات میں سکینڈری ہوجاتی ہے۔ جو چیز سکینڈری ہوجاتی ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا اس کو یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
عمومی سطح پر بھی اردو زبان میں لکھنے پڑھنے کا عمل اب صرف زبان یا ادب کے موضوعات میں محصور ہوتا جا رہا ہے۔ دیگر موضوعات کا علمی کام اب ختم ہو تا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کا ذمہ دار ہم حکومت کو تو نہیں ٹھہراسکتے ہیں۔    

کسی زبان کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے جنتی مراعات ملنی چاہیے ہوسکتا ہے اردو کو وہ حاصل نہ ہوں۔ لیکن ہمیں دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں جو مراعات حاصل ہیں ہم ان کا استعمال کس حد تک کر رہے ہیں۔ اکنامکس کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بازار میں ڈیمانڈ کے مطابق ہی کسی چیز کی سپلائی ہوتی ہے۔ کسی چیز کی سپلائی اگر ڈیمانڈ سے زیادہ ہوجائے تو وہ بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے سپلائی روک دی جاتی ہے یا کم کردی جاتی ہے۔ ہمیں اگر حکومت سے مزید مراعات چاہئیں تو ہمیں اپنی یوٹیلائیزیشن کے ذریعہ ڈیمانڈ اتنی بڑھانی ہوگی کہ حکومت کے سامنے کرائسس دکھائی دینے لگے۔اور کرائسس کو بہت دنوں تک چھوڑا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ ا س سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ حکومت ڈانوا ڈول ہوجاتی ہے۔  
میں یہاں ایک بات اور کہتا چلوں کہ روز مرہ کے بہت سے کام ہیں جہاں اردو موجود ہے۔ کیا ہم وہاں اردو کا استعمال کرتے ہیں۔ایس بی آئی نے کئی اے ٹی ایم میں اردو میں فنکشن فراہم کردیا ہے جس کا پہلا اسٹپ پورا کرنے پر انسٹرکشن بنگلہ میں آتا ہے۔ اگر اس اسٹپ کو کسی طرح پورا کرلیں تو پھر اردو آجاتی ہے۔ ایچ پی گیس نے اپنے سائٹ پر اردو میں سہولت فراہم کرائی ہے۔ اس طرح کی روز مرہ کے بہت سے استعمال ہیں جہاں اردو موجود ہے۔ ہم اپنی ذاتی زندگی میں جہاں تیزی سے لکھنا ہو تو دیوناگری میں لکھنے لگتے ہیں۔ کیا اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہے؟
انتظامیہ کی سطح پر اردو مترجم موجود ہیں ہم اردو الے ان سے کام نہیں لیتے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکاری دفاتر میں اردو میں کام نہیں ہوتا ہے۔ میں نے چند برسوں قبل اردو میں آر ٹی آئی کی اس کا جواب ملا۔ ڈی ایم کمار روی صاحب کو میں نے اردو میں درخواست دی اور انہوں نے اسی وقت اس پر کارروائی کی۔ در اصل ہم حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے لیے فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔  
باتیں بہت سی ہیں لیکن وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں مختصر طور پر صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ضلع میں سیکڑوں کی تعداد میں اردو میڈیم اسکول موجود ہیں۔ ایسے بہت سے اسکول جہاں اب ایک بھی اردو استاد نہیں ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں اردو داں اساتذہ موجود نہیں ہونے کے سبب ایسے اسکولوں کا میڈیم ہندی ہوگیا ہے۔ ایسے اسکولوں میں اردو اساتذہ یقینی طور پر بحال کئے جائیں۔ ایسی ہدایت دی جائے کہ جو اسکول اردو میڈیم ہیں ان میں درس وتدریس کا کام اردو میڈیم میں ہو۔  
اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ اس حیثیت سے ہونا تو یہ چاہیے کہ ریاست کے تمام اسکولوں میں کم از کم اسکول کا نام اردومیں بھی لکھا جائے لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ ایسے درجنوں اردو میڈیم اسکول ہیں جن پر اس کا نام اردو میں لکھا ہوا نہیں ہے۔ ڈی ایم صاحب سے گزارش یہ ہے کہ وہ اسکولوں کو یہ ہدایت جاری کر دیں کہ تمام اسکولوں پر عمومی طور پر اور اردو اسکولوں پر خصوصی طور پر اردو زبان میں بھی نام لکھا جائے۔
اس کے علاوہ ضلع کے تمام سرکاری دفاتر پر اردو میں نام لازمی طور سے ہو۔ سڑکوں کے نام بھی دیوناگری کے ساتھ اردو میں بھی لکھے جائیں۔اس بات کی اگر گنجائش ہو تو محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے اقلیتی اداروں کو جو لیٹر بھیجے جاتے ہیں وہ اردو زبان میں بھیجے جائیں۔ اقلیتی اداروں سے اقلیتی فلاح دفتر کو موصول ہونے والے مکتوبات اردو میں ہی حاصل کئے جائیں۔ 
محکمہ راج بھاشا نے جس طرح اپنے ملازمین کا ورکشاپ کرایا ہے ضرورت ہے کہ اردو اساتذہ کا بھی ورکشاپ منعقد کرایا جائے اور اس کو یہ بھروسہ دلایا جائے کہ آپ اردو کے فروغ کے لیے کام کریں جہاں دشواری ہوگی انتظامیہ ضابطے کے مطابق ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ 
انہی چند باتوں کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں اور ایک بار پر انتظامیہ کو اس سمینار کے انعقاد کے لیے مبارکباد دیتا ہوں ۔ 
شکریہ
احتشام الحق


No comments: