مشمولات

Sunday, 26 May 2019

کیا تعلیم ریاست کی ترجیح میں سر فہرست نہیں ہے



کیا تعلیم ریاست کی ترجیح میں سر فہرست نہیں ہے؟؟؟
گزشتہ دن معزز سپریم کورٹ نے بہار کے کانٹریکٹ ٹیچروں  کو مساوی کام کے بدلے مساوی تنخواہ کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ کے ذریعہ جاری فیصلہ کو مسترد  کردیا جس میں کہا گیا تھا  کہ بہار کے ساڑھے چار لاکھ کانٹریکٹ اساتذہ کو مساوی کام کے بدلے مساوی تنخواہ  حکومت کو دینا ہوگا۔ معزز سپریم کورٹ نے یہ  فیصلہ سنایا کہ بہار کے پرائمری سے لے کر ہائر سکینڈری اسکولوں میں کام کر رہے کانٹریکٹ پر بحال اور اب مستقل اساتذہ کے مقابلہ  میں کم شرح تنخواہ پا رہے اساتذہ کو مساوی کام کے بدلے میں مساوی تنخواہ نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس کی جو وجہ بتائی گئی ہے بنیادی طور پر  وہ حکومت بہار کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو۔ مجھے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ  ان اسکولوں میں پہلے سے کام کر رہے جو مستقل اساتذہ  ہیں انہیں ڈائنگ کیڈر میں ڈال دیا جائے گا اور اب پہلے سے دی جا رہی شرح تنخواہ پر اساتذہ کی بحالی نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس  کچھ ایسے اختیارات ہیں کہ وہ کسی طرح کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس طرح کے فیصلے جمہوری ملک میں بڑے اٹ پٹے سے لگتے ہیں لیکن ہمیں زمینی حقیقت کے طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ گرچہ حکومت کی تشکیل یہاں جمہوری طریقہ سے ہوتی ہے لیکن حکومت چلانے والے لوگ ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ سے کام لیتے ہیں۔ زیر نظر فیصلہ میں حکومت کے ڈکٹیٹر شپ کے رویہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
مالی وسائل کی کمی اپنی جگہ لیکن اس فیصلہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کی طرف حکومت، اپوزیشن پارٹیوں ، ماہرین تعلیم اور ملک کے دانشور طبقات کا  توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ مالی وسائل کی کمی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو ریاست کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ  دوسرا پہلو یہ ہے کہ  حکومت کی ترجیح میں بنیادی تعلیم  کی حیثیت کیا ہے؟ کیا تعلیم حکومت کی ترجیح میں سرفہرست نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے اور کیا اس کا کوئی اثر سماج اور ریاست پر مرتب نہیں ہوگا؟ ملک کے غریب بچے کیا معیاری تعلیم کے حق سے محروم کر دئیے جائیں گے۔
 ایک بات بہت واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ جب حکومت اچھی شرح تنخواہ پر اساتذہ کی تقرری بند کر دے گی تو اچھے اور قابل لوگوں کی ترجیح بھی تعلیم کے شعبہ میں ملازمت کے لیے نہیں رہ جائے گی۔ کیونکہ ہر آدمی اپنی صلاحیت کے مطابق اس شعبہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں اس کی امیدیں اور ضروریات پوری ہوسکیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں  اور ہر زمانہ میں ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق بہتر سے روز گار حاصل کرنا چاہتا ہے جہاں اسے اچھی تنخواہ اور اچھی سہولیات میسر ہوسکیں تاکہ اس کے معیار زندگی میں بہتری آسکے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں سول سروسیز میں لوگوں کو اس کی صلاحیت کے مطابق اچھی تنخواہ اور اچھی سہولیات اور اچھی عزت ملتی ہے تو جو سب سے کریم بچے ہوتے ہیں وہ اس شعبہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ سول سروسیز میں موجودہ تنخواہ اور وہ عمدہ سہولیات ختم ہوجائیں جو موجودہ وقت میں دی جا رہی ہیں تو لوگ اپنی لیاقت اور کام کی  صلاحیت کے مطابق کسی اور شعبہ کی تلاش کریں گے۔
تعلیم کے شعبہ کی طرف بھی لوگوں کا رجحان اسی لیے رہا ہے کہ یہاں اس کی صلاحیت کے مطابق مناسب شرح تنخواہ، دیگر سہولیات اور عزت مل سکے۔ لیکن جب حکومت نے یہ چیزیں ختم کردی ہیں تو اس کا سیدھا اثر یہ ہوگا کہ با صلاحیت افراد کا رجحان  شعبہ تعلیم کی طرف ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس میں  ان کی  علمی لیاقت  اور کام کی صلاحیت کے مطابق ان کی امیدیں اور ضروریات پوری نہیں ہوسکتی ہیں۔ جب لوگوں کا رجحان اور بہاؤ اس شعبہ کی طرف ختم ہوجائے گا تو مجبورا حکومت کو افراد کی قلت کو کم کرنے کے لیے انہی افراد کا انتخاب  کرنا ہوگا جو دیگر شعبوں میں ہارے ہوئے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے انتخاب سے عوامی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طرح ریاست سے تعلیم چوپٹ ہوجائے گی اور سرکاری اسکول حکومت کا محض ایک غیر مفید شعبہ بن کر رہ جائے گا اور حکومت اس پر جو پیسے بھی خرچ کرے گی وہ ضائع ہوں گے۔ ریاست کے غریب بچے جن کی تعلیم کا ایک واحد ذریعہ سرکاری اسکول ہے معیاری تعلیم سے محروم ہوجائیں گے۔ آج بہار جو ملک بھرمیں اپنی فطری صلاحیتوں کی وجہ سے شناخت رکھتا ہے اس میں کمی آجائے گی۔ معیاری تعلیم چند امیر گھرانوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ ساتھ ہی غریب بچوں کے درمیان جو اعلی ذہانت  موجود ہے وہ مناسب موقع نہیں ملنے کی وجہ سے کند ہوجائے گی اور ریاست معاشی وسائل کے ساتھ  ذہنی وسائل کے بحران کا بھی شکار ہوجائے گی۔
اب حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تعلیم اس کی ترجیح کس حد تک شامل رہے گی  اور وہ ریاست میں کس طرح کی تعلیم دینا چاہتی ہے۔ حکومت بار بار جس کوالیٹی ایجوکیشن کی بات کرتی ہے کیا وہ ہارے ہوئے لوگوں اور ہارے جی کام کرنے والوں لوگوں سے حاصل کرسکے گی؟؟؟

No comments: