کچھ تو جس کی پردہ داری کی جارہی ہے
گذشتہ دنوں مہاراشٹر اے ٹی ایس سربراہ راکیش ماریا نے ایک
پریس کانفرنس بلاکر یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے دربھنگہ کے دو نوجوان نقی احمد اور
ندیم کوممبئی سے گرفتار کرکے ممبئی بم دھماکہ کی گتھی سلجھادی ہے۔ یہ دونوں نوجوان
فرضی سم کارڈ کے سلسلہ میں گرفتار ہوئے تھے۔ پھر اے ٹی ایس کی ایک ٹیم نے ان کے
آبائی گاؤں دیورا بندھولی میں گھر پر چھاپہ مار کر دو موٹر سائیکلیں برآمد کیں۔ جن
کے بارے میں دعوی ہے کہ یہ اگلے کسی بم دھماکہ میں استعمال کے لیے چرائی گئی تھیں۔
حقیقت کیا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں کورٹ میں سامنے آئے گا اور اصل حقیقت کیا ہے
اس کا پردہ فاش ہوگا۔ یوں تو اس سے پہلے بھی کئی بم دھماکوں مثلا مالیگاؤں اور مکہ
مسجد کے سلسلہ میں اسی طرح مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے اخباروں میں بڑے طمطراق
سے خبریں شائع کی گئی تھیں کہ مجرمین پکڑے گئے اور اسی طرح سے نام نہاد انڈین
مجاہدین اور شدت پسند پاکستانی گروہوں سے ان کے تار بھی جوڑے گئے تھے۔ مگر جب
عدالت میں حقیقت سامنے آئی تو خفیہ ایجنسیوں کی قلعی کھل گئی۔ ابھی کچھ روز قبل
آندھرا پردیش حکومت نے ان بے قصور نوجوانوں کو معاوضہ دے کر خفیہ ایجنسیوں کے منہ
پر زوردار طمانچہ مارا ہے۔ اس ضمن میں آنجہانی ہیمنت کرکرے نے بھی بہت
اچھا قدم اٹھایا تھا اور قریب تھاکہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث پردہ نشینوں کے
چہرے بے نقاب ہوتے ۔ لیکن اس سے قبل انہیں ہی راستہ سے ہٹادیا گیا۔
راکیش ماریانے جس حقیقت کا پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اس کے
پیچھے بھی خبروں کے مطابق کچھ نہ کچھ راز ضرور ہے۔ مورخہ ۴۲ جنوری کے دینک جاگرن
کے مطابق دہلی پولس کے اسپیشل برانچ نے بھی نقی احمد پر نگاہیں جمارکھی تھیں۔ لیکن
۲۱ جنوری کو مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ذریعہ نقی احمد اور ندیم کو گرفتار کر لینے کے
بعد دہلی پولس کی اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ ان گرفتاریوں کو لے کر دہلی پولس اور
اے ٹی ایس کے درمیان تکرار کی خبریں تیز ہونے کے بعد ہی راکیش ماریا نے جلد بازی
میں ایک پریس کانفرنس بلاکر سموار کو اپنی کامیابی کا اعلان کردیا۔تو دوسری طرف
مورخہ ۳۲ جنوری کے راشٹریہ سہارا میں ایجنسیوں کے حوالہ سے دی گئی خبروں کے مطابق
نقی احمد خصوصی یونٹ کو گذشتہ سال ممبئی میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے سلسلہ
میں مجرمین کو گرفتار کروانے میں مدد کررہا تھا۔ اس نے وقاص اور تبریز نامی نوجوان
کا اسکیچ پہچاننے میں مرکزی سیکورٹی ایجنسیوں اور خصوصی یونٹ کی مدد بھی کی تھی۔
احمد نے زاویری بازار کے باہر سی سی ٹی وی کیمروں کی تصویروں سے بھی وقاص کی پہچان
کی اور بالآخر دہلی پولس اور مرکزی سیکورٹی ایجنسیوں نے اس سے ممبئی میں ایک کیمرے
میں رہ رہے دو نوجوانوں کی شناخت کرنے کے لیے کہا ۔ اس درمیان ممبئی اے ٹی ایس کی
ٹیم ممبئی میں احمد کے ورکشاپ میں پہنچی اور اسے گرفتار کرلیا۔ اس گرفتاری کے بعد
خصوصی یونٹ کے افسر اور اے ٹی ایس کے درمیان ورکشاپ میں کافی کہا سنی ہوئی اور
بالآخر اے ٹی ایس کے افسر نقی احمد کو لے گئے۔گھر والوں کی اطلاع کے مطابق دلی
پولس ہی نقی احمد کو مجرمین کی شناخت کرنے کے لئے دلی سے ممبئی لائی تھی اور اسے
اس سے بھی آگاہ کردیا تھا کہ وہ ہوشیار رہے کیوں کہ اے ٹی ایس اس کے پیچھے پڑی ہے۔
پھر مورخہ ۵۲ جنوری کے راشٹریہ سہارا میں ایجنسیوں کے حوالہ سے شائع خبر کے مطابق
ان دونوں نوجوانوں کی گرفتاری محض کے ایک گھنٹہ بعد ہوم منسٹری سے یہ خبر آئی کہ
غلط آدمی کو گرفتار کیا گیاہے۔ گرفتار کیا جانے والا نوجوان دہلی پولس کا مخبر تھا
اور اس گرفتاری سے اصل ملزم یسین بھٹکل کو پکڑنے میں ناکامی ہوئی ہے۔
ان خبروں پر نظر رکھنے سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس میں فرضی
کہانیاں کام کر رہی ہیں۔ جہاں تک فرضی دستاویز پر سم کارڈ حاصل کرنے کا معاملہ ہے
تو اس سے پہلے بھی اخباروں میں یہ باتیں ثابت ہوچکی ہیں کہ ملک میں فرضی دستاویزات
پر سم کارڈ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اور کوئی بھی کسی کے نام پر اس طرح
کا کام کرسکتا ہے۔ محترم عزیز برنی نے اپنے سلسلہ وار مضامین میں اس کا واضح ثبوت
بھی فراہم کیا تھا۔ رہی موٹر سائیکلوں کی برآمدگی تو ممکن ہے کہ یہ گاڑیاں چوڑی کی
ہوں جنہیں ان لوگوں نے غلطی سے خرید لیا ہو۔ اس ملک میں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات
نہیں ہے کہ چوری کی گاڑیاں بڑے شہروں میں دھرلے سے بکتی ہیں اور سرکاری دفتروں سے
ان کے فرضی کاغذات جاری بھی ہوجاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انہی گاڑیوں پرہی پوری کہانی گھری گئی ہے۔
ممکن ہے کہ ان نوجوانوں نے کہیں سے گاڑیاں خریدی ہوں گی جو اتفاق سے چوری کی ہوں گی
۔ہوسکتا ہے دھماکہ میں استعمال کے لیے بھی اسے چرایا گیا ہواور ثبوت مٹانے کے لیے
انہیں فروخت کردیا گیاہو۔ یہ تو بالکل عام سی بات ہے کہ اگر ان نوجوانوں نے چوری
کی ہوتی اور خود ہی دھماکہ میں استعمال کیا ہوتا تو یہ گاڑیاں وہ اپنے گھر کیوں
لاتے ؟ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ گاڑیاں چھپاکر رکھی گئی تھیں بلکہ ان کے گھر کے
لوگ اانہیں استعمال بھی کرتے تھے۔پھر نہ اب تک کہیں سے یہ خبر آئی ہے کہ چوری کی
گئی گاڑیاں کن کی تھیں اور جب چوری ہوئیں تو ان کا ایف آئی آر کس تھانہ میں درج
کیا گیا تھا۔
لگتا تو ایسا ہے کہ جب ایجنسیاں مجرمین کو پکڑنے میں ناکام
ہوگئی ہیں تو انہوں نے فرضی کہانیاں گھر لی ہیں اور چونکہ کہیں سے خفیہ ایجنسیوں
کوان گاڑیوں کے چوری کے ہونے کا سراغ مل گیا ہوگا اس لیے اسی پر پوری کہانی گھرنے
میں آسانی ہوئی ہے۔ کہانی گھرنے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب اے ٹی ایس کی ٹیم نے
ان کے آبائی گاؤں میں گھر پر چھاپہ مارا اس وقت ایک نوجوان کی گاڑی اس کے گاؤں کا
ایک رشتہ دار کسی ضرورت سے مانگ کر لے گیا تھا اور دوسرے کی گاڑی گھر میں کھلی ہی
رکھی تھی۔ لیکن راکیشن ماریا نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ گاڑیا ں کھر
پتوار سے چھپاکر رکھی گئی تھیں۔ اسی کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ معاملہ کا اصل ملزم
یسین بھٹکل ان کے گاؤں میں ہومیو پیتھک پریکٹس کرتا تھا جب کہ گاؤں والوں کی اطلاع
کے مطابق اس گاؤں میں دوسرے گاؤں کے سوائے ایک غیرمسلم کے کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر نے
آج تک پریکٹس ہی نہیں کی۔ وہ غیر مسلم ڈاکٹر آج بھی پریکٹس کررہا ہے۔
دہشت گردی کے نام پر گذشتہ چند مہینوں سے دربھنگہ اور
مدھوبنی کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ان کے بارے میں
اخباروں میں بہت متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ کبھی معاملہ فرضی پاسپورٹ کا ہوتا ہے
اور گرفتاری کے بعد اس پردہشت گردی کے الزامات عائد کردئے جاتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں
جب گاڑی برآمد ہوئی تھی تو ایک ہندی اخبار نے لکھا کہ ہوسکتا ہے کہ ان گاڑیوں کا
استعمال ممبئی دھماکہ کے لیے بھی کیا گیا ہوگا اور پولس اس سلسلہ میں چھان بین کرے
گی۔ اسی دن دوسرے اخبار نے یہ سرخی لگائی کہ ممبئی بم دھماکہ میں ملوث گاڑی برآمد
۔ گذشتہ دنوں پکڑے گئے چند نوجوان کسی تفتیش کی غرض سے اپنے اپنے گاؤں لائے گئے
واپسی پر سمستی پور کے ایک علاقہ دھرم پور میں ندی کے ایک باندھ کے کنارے انہیں
کھڑا کرکے ان کی تصویر لی گئی اور جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا
کہ وہ ایک پروجکٹ پر نکلے ہوئے ہیں۔ جب فائل پر قریب کی مسجد کے امام کو آئی بی
لکھا نظر آیا اور پولس والوں سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ گرفتار نوجوانوں
کو لے کر بھاگ نکلے۔
اس طرح کے واقعات سے لوگ مشتبہ ہوکر رہ گئے ہیں اور ملک کی
خفیہ ایجنسیوں پر ان کا یقین ختم ہورہا ہے جو قومی سلامتی کے لیے یقینا نقصاندہ
ثابت ہوگا۔ ایسے حالات میں ملک کے عزت مآب وزیر اعظم سے میری گزارش ہے کہ وہ اس
سلسلہ میں اپنی سطح سے خصوصی جانچ کرائیں تاکہ حقیقت سامنے آئے ، فرضی کہانی پر
مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ بند ہواور اصل مجرمین سامنے آئیں۔ اس سے پہلے
عزت مآب وزیر اعظم کی دخل اندازی سے ایسے کئی معاملوں میں حقیقت سامنے آئی ہے اور
خفیہ ایجنسیوں کی قلعی کھلی ہے۔ کیوں کہ اگر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ
طول پکڑ گیا اور اسی طرح بے قصور مسلم نوجوان پکڑے جاتے رہے تو ایک طرف ہندوستانی
مسلمان پچھڑتے چلے جائیں گے تو وہیں ملک کو بھی نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ
جب عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس بڑھ جاتا ہے، زندگی پر موت کا خطرہ ،خطرہ
نہیں رہ جاتا بلکہ یقین میں بدل جاتا ہے تو انسان کو جان کی بازی ہارتے دیر نہیں
لگتی۔ تب وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو ایک انسان کے لیے نامناسب ہے۔ جب کہ ابھی ملک
کو الفا، ماؤ نواز اور نکسل جیسی شدت پسند تنظیموں سے چھٹکارا نہیں ملا
ہے۔اور آئے دن ان کے افراد ایسے واقعات انجام دیتے ہیں جن سے ہمارے ملک کا قیمتی
اثاثہ ضائع ہوتا ہے۔ ملک میں حفاظتی خدمات پر مامور سرکاری ملازمین ہلاک ہوتے ہیں۔
شدت پسندی کی راہ کوئی اچھی نہیں ہے ۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور عوام
کو دہشت کا نشانہ بنانا ایک غیر انسانی حرکت ہے۔ ایسا کوئی شخص خواہ وہ جس مذہب
اور جس ذات سے ہو اگر یہ راہ اختیار کرتا ہے اس کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں ۔
تشدد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر یہ بھی
لازم ہے کہ حقیقت کی تلاش میںانصاف سے کام لیا جائے نہ کہ اپنی ناکامی پر کوئی نرم
نوالہ اٹھاکر اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ ہمارے یہاں یہ ہورہا کہ مسلم
نوجوانوں کو پکڑ کر اس پر انڈین مجاہدین کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں
آتا کہ یہ انڈین مجاہدین ہے کیا؟ آخر کسی حادثہ سے قبل اس طرح کی تنظیم کا پتہ
کیوں نہیں چلایا جاتا اور اگر یہ خفیہ ایجنسیوں کے اپنے ذہن کی اختراع نہیں ہے تو
خفیہ ایجنسیوں کو اس کا سراغ کیوں نہیں مل رہا ہے کہ اس کی بنیاد کہاں ہے اور کیسے
کام کرتا ہے ،اس کا چینل کیسے تیار ہوتا ہے؟؟؟
مذکورہ دونوں نوجوان پر اے ٹی ایس کا یہ الزام بھی ہے کہ
معاملہ کے اصل ملزم یاسین بھٹکل سے ان کے پرانے مراسم تھے ۔میں نے اپنے ایک دوسرے
مضمون میں پہلے بھی لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غیر ملکی دہشت گرد آتا کیسے ہے؟
اور آتا ہے تو فورا اس کی خبر خفیہ ایجنسیوں کو کیوں نہیں ہوتی؟ جب تک وہ ملک میں
رہ رہا ہوتا ہے اس کی اطلاع انہیں کیوں نہیں ہوپاتی؟ اور جیسے ہی وہ ملک سے
چلاجاتا ہے اس کی اطلاع انہیں مل جاتی ہے۔ یا کوئی ملک کافرد ملک میں امن کا ماحول
بگاڑتا کس طرح ہے ۔ ابتدا ہی میں اس کی خبر ایجنسیوں کو کیوں نہیں ہوتی۔ کوئی چینل
دوچار روز میں تیار نہیں ہوسکتا ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ملزم ان ایجنسیوں کا ہی
ایجنٹ ہو؟ غور کرنے کی بات ہے کہ آخر اے ٹی ایس سربراہ راکیش ماریا کو اتنی جلد
بازی کی ضرورت کیوں آپڑی کہ اصل ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا؟
میں پھر کہتاہوں کہ ہمیں قومی سلامتی جان سے زیادہ عزیز ہے۔
مجرمین کو سخت ترین سزائیں دی جائیں لیکن اس سلسلہ میں انصاف سے بھی کام لیا جائے
نہ کہ محض قیاس آرائی کرتے ہوئے بے قصوروں کو نشانہ بنایا جائے اور جب معاملہ کورٹ
پہنچے اور حقیقت سامنے آئے تو دنیا بھر میں ہمارے ملک کی شبیہ خراب ہو۔ اس لیے میں
ایک بار پھر وزیر اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی سطح سے جانچ
کرائیں ۔ یہ بات ان کی نظر سے مخفی نہیں کہ کوئی عہد تاریخ میں اپنے حکمراں سے یاد
کیا جاتا ہے اور ایک اچھی شبیہ رکھنے والے وزیر اعظم کا عہد محض چند فرقہ پرست
افسران کے تعصب کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ظلم وجبر کا عہد شمار ہو کسی طرح یہ
مناسب نہیں ہے۔
اور اگر پکڑے گئے یہ نوجوان واقعی مجرم ہیں اور یہ سب کے سب
ملک میں دہشت گردانہ کاروائی انجام دے رہے تھے یا قریب تھا کہ انجام دیتے تو کئی
اہم سوالات اور بھی اٹھتے ہیں ۔ سب سے زیادہ ملک کے نظام تعلیم پر سوال اٹھتا ہے
کہ کیا وہ انسانیت، انسانیت کی اعلی قدروں، انسانی ہمدردی، بھلائی اور برائی سے
دور رہنے، انسانی جان کی قدر قیمت پہچاننے نیز رواداری کی تعلیم دینے میں ناکام
ہے؟
نوٹ: یہ مضمون سہ روزہ
دعوت اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکا ہے۔
No comments:
Post a Comment