مشمولات

Sunday, 10 March 2024

تعلیم میں میڈیا کا رول The Role of Media in Education

تعلیم میں میڈیا کا کردار

تعلیم و تعلم انسانی زندگی کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کا عمل ہے۔ تعلیم سے انسان دنیا کی ترقی اور دنیا میں جینے کے طریقے سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ خود کو سوسائٹی اور ماحول کے مطابق ڈھالنے کے لائق بناتا ہے۔ وہ معاشرہ کی سطح زندگی کو فکری، عملی ، تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھانے اور بہتر بنانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتا ہے ۔اس کے ذریعہ انسان اس کائنات کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے مسخر کرنے کا اہل بنتا ہے۔ دنیا کی یہ ساری ترقیاں جو ہماری نظروں کے سامنے ہیں؛ جن سے ہم انفرادی یا اجتماعی سطح پر فائدہ اٹھا رہے ہیں ؛ یہ سب زندگی کو سہل بنانے کی کوششیں ہیں۔ بلاشبہ یہ سبھی ہمیں آگاہی اور تسخیر کائنات کی کوششوں کے نتیجے میں ہی حاصل ہوئی ہیں۔

اس کے بالمقابل میڈیا بھی انسان کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کا ہی میڈیم یا ذریعہ ہے۔ میڈیا سے نہ صرف اپنے آس پاس بلکہ دنیا میں (حالانکہ انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کو آس پاس ہی کر دیا ہے) کہیں بھی ہونے والی چھوٹی موٹی واردات سے لے کر بڑے بڑے واقعات، حادثات، سانحات ، ایجادات، دریافتوں اور آنے والے دور میں انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے ان کے فوری اور دور رس اثرات سے فوری طور سے آگاہی ہوتی ہے۔ ان کو ہم کلاس روم میں بیٹھ کر یا نصاب کی کتابیں کھول کر اسی لمحے نہیں جان سکتے ہیں۔جبکہ میڈیا اسی لمحے ہمیں یہ جانکاری دیتا ہے۔ یہ چیزیں کتابوں میں اس وقت آتی ہیں جب ان کو اپڈیٹ کر کے نئے ایڈیشن میں شامل کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی دیر میں دنیا آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم ان معلومات کو حاصل کرنے کے لیے نصابی کتابوں کے بھروسے رہیں گے تو ہماری زندگی اپنے عہد سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتی ہے۔ کتابیں ہمیں ‘ماضی بعید ’سے ‘ماضی قریب ’ تک ؛جو ‘حال ’ کے آس پاس ہوتا ہے ، لے کر آتی ہیں، جبکہ میڈیا ہمیں ‘حال’ سے لے کر ‘مستقبل’ تک لے جاتا ہے اور یہی ‘حال’ آگے چل کر ‘ماضی’ بن جاتا ہے۔ ماضی’ کیا ہے؟ یہی تو تاریخ (History) ہے جس میں واقعات ترتیب اور تسلسل کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں جن کو کتابوں میں پڑھا جاتا ہے۔ گویا تعلیم اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ چند مثالوں سے اس کو مزید واضح کر کے سمجھا جاسکتا ہے۔

مثلا: آزادی ہند کی تاریخ ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس تاریخ کی تشکیل کے پرائمری سورس میں میڈیا بھی شامل ہے۔میڈیا عمومی طور پر بھی تاریخ کے پرائمری سورس میں شامل ہے۔ البتہ دور حاضر کے میڈیا کے اعتبار اور صداقت کے حوالے سے سوالات قائم کئے جاسکتے ہیں۔  میڈیا ہر دن کی تاریخ مرتب کرتا ہے اور ایک عرصہ کے بعد ایک تسلسل میں اس کو پرو دیا جائے تو مربوط تاریخ بن جاتی ہے۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کی ہر تاریخ - قدیم یا جدید - اگر وہ اخبارات کی اجرائی سے قبل کی نہیں ہے، تاریخ  بننے سے قبل وہ میڈیا کا حصہ بنی ہے۔ تاریخ کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ محض واقعات کا تسلسل و ترتیب میں اعادہ نہیں بلکہ اس سےقوموں کے عروج و زوال اور کشمکش کا ادراک ہوتا ہے۔ اس سے انسان کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کن اصولوں اور ضابطوں  کی بنیاد پر زندگی کی بنیاد رکھے جو اس کو داخلی اور خارجی خطرات سے بچاتے ہوئے سماج اور معاشرہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے اور سماج کے ہر فرد کو اس کی زندگی میں وقار بخشتے ہوئے مساوی مواقع فراہم کرے۔  بلا شبہ تعلیم کے جملہ مقاصد میں یہ ایک اہم اور مقدس مقصد ہے۔ ماضی یا تاریخ سے سبق لیتے ہوئے پیشگی طور پر کسی اقدام وعمل کے نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا جہاں روز مرہ کے واقعات، حادثات اور سانحات سے واقف کراتا ہے وہیں اس میں ایک جزو ایسا بھی ہوتا ہےجس میں واقعات کے پیچھے یا خبروں کے بین السطور کار فرما عوامل کی نشاندہی ہوتی ہے۔اس میں مستقبل کی طرف رہنمائی یا پیشین گوئی بھی ہوتی ہے جو کسی واقعہ یا سرگرمی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔ تجزیے اور اداریے اس کی مثالیں ہیں۔ تاریخ کی تدریس کے عمل میں طالب علم کو اپنے عہد سے جوڑنے کے لیے میڈیا کا یہ حصہ بہت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔

اسی طرح موجودہ وقت میں سائنسی دریافتیں یا ایجادیں جو بعد میں نصاب کا حصہ بنتی ہیں پہلی مرتبہ میڈیا ہی ان کو عوام کے سامنے لاتا ہے۔ ۲۳ ؍اگست ۲۰۲۳ کو ہندوستان نے ایک بڑی تاریخ رقم کی۔ چندر یان ۳ کو چاند پر کامیابی کے ساتھ لینڈ کرایا گیا۔ اس پورے عمل کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لوگوں، سائنس دانوں اور اہل علم نے دیکھا۔ یہ لائیو ٹیلی کاسٹ طلبہ کے لیے بھی دلچسپی کا مرکز تھا۔ ایک ایک چیز جس تفصیل اور باریکی سے بیان کی گئی وہ بچوں کی تعلیم کا حصہ بننے کے ساتھ عوام کی جانکاری کا ذریعہ بھی بنی۔ ظاہر ہے کہ ان کی معلومات اس تفصیل اور جزئیات کے ساتھ اسی لمحے کلاس روم اور کتابوں کے ذریعہ حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد انسان کو سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے جوڑے رکھنے میں بھی میڈیا مؤثر ذریعہ ہے۔

تعلیم کو فروغ دینے اور کلاس روم کے عمل کو سہل بنانے میں رسائل و جرائد کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ ہر زبان میں ایسے درجنوں رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں جو بچوں کی سطح معلومات اور عمر کو سامنے رکھ کر شائع کئے جاتے ہیں۔ ان میں معلومات عامہ کے ساتھ سائنس، ریاضی اور عمرانیات وغیرہ جیسے موضوعات پر مبنی کہانیاں اور مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ زبان کو سیکھنے اور زبان پر عبور حاصل کرنے میں بھی ان رسائل و جرائد کی اہمیت رہی ہے۔ ہندی اور انگریزی زبان میں چمپک اور انگریزی میں وزڈم جیسے رسائل سے تو اکثر طالب علم واقف ہیں۔اردو میں بھی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے نکلنے والا رسالہ‘ بچوں کی دنیا’ کے علاوہ ‘امنگ’،‘پیام تعلیم’، ‘نور’، ‘بتول’ اور غنچہ جیسے کئی رسالے ہیں جنہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف سائنس داں ڈاکٹر اسلم پرویز کی ادارت میں ماہنامہ سائنس تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس کا مقصد طلبہ میں سائنسی سوچ کو فروغ دینا ہے۔ اس رسالے میں بھی ایسے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن کے مطالعہ سے طالب علم اپنے سائنسی مضمون کے مختلف اسباق کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔  

کئی اچھے اخبارات بھی ہفتہ میں ایک دن ایسا ضمیمہ شائع کرتے ہیں جس میں بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے اور جو تدریسی اور تعلیمی اہمیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ روزنامہ انقلاب میں سنیچر کو ایسا ضمیمہ شائع ہوتا ہے جو بچوں کی کشش اور دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔ کئی اخبارات امتحانات کے وقت نمونہ سوالات شائع کرکے بچوں کی تعلیم کو اور امتحان کو سہل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

میڈیا کے ضمن میں ان کہانیوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بچوں کی تعلیم و تدریس کے مد نظر تحریر کئے جاتے ہیں۔ گرچہ موجودہ دور میں بچوں میں بھی بڑوں ہی کی طرح کتاب سے دلچسپی کا رجحان تیزی سے کم ہوا  ہے جو انتہائی تشویشناک  بات ہے۔ ایسے دور میں جبکہ کتاب سے بچوں کی دلچسپی ختم ہو رہی ہے، ایسے کئی ادارے سامنے آئے ہیں جو آن لائن ڈجیٹل کتابیں دستیاب کرا رہے ہیں تاکہ  بچے آن اسکرین کتابوں سے جڑ سکیں۔اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں بچوں کے لیے وقت اور جگہ کا مسئلہ نہیں رہتا۔ وہ کہیں بھی ہوں  اگر ان کے ہاتھ میں آن لائن مطالعہ کے لیے ڈیوائس موجود ہے تووہ اپنا مطالعہ جا ری رکھ سکتے ہیں۔

 اسی تناظر میں تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی رضاکار تنظیم پرتھم بکس کا ذکر بطور خاص کیا جاسکتا ہے جس نے اپنی اور مختلف پبلشروں کی تقریبا ۶۰ ہزار کتابیں اپنے پلیٹ فارم پر شائع کی ہیں اور جو تین سو اکیاون (۳۵۱) زبانوں میں موجود ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ گیارہ ہزار کتابیں سائنس اور نیچر کے موضوع پر ہیں۔ دو ہزار تیرہ کتابیں ریاضی کے موضوع پر ہیں۔ بتیس سو ترپن (۳۵۵۳) کتابیں سرگرمیوں پر مبنی ہیں۔ اس طرح کل اڑتیس (۳۸) زمروں میں کتابیں موجود ہیں جو درسیات کو مد نظر رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں اور یہ ساری کتابیں آن اسکرین مطالعہ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد میں مطبوعہ کتابیں بھی ہیں۔ ۔ حالانکہ اس سے مطبوعہ کتابوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔ ان  کی اہمیت ہر حال میں برقرار ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گی۔

تعلیم اور میڈیا کے حوالے سے ریڈیو کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ریڈیو کی ایجاد انسانی ترقی کو تیز کرنے میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ گرچہ دور حاضر میں ٹیلی ویژن اور میڈیا کے دیگر تیز اور آسان ذرائع کے فروغ کے بعد ریڈیو کا استعمال کم ہوگیا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں کو دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر کرنے اور سامان تفریح فراہم کرنے میں ریڈیو نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی دیہی علاقوں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان یہ میڈیم بہت کار گر ہے اور اس کا استعمال بھی ہورہا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دیگر کام کو انجام دیتے ہوئے بھی اس میڈیم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔  ریڈیو کے ذریعہ جہاں عوامی بیداری میں بھی اضافہ ہوا وہیں تعلیم کو فروغ دینے میں اس کا رول ناقابل فراموش ہے۔ ریڈیو پر کئی طرح کے تعلیمی پروگرام نشر  اور پسند کئے جاتے رہے ہیں۔ ریڈیو کو اچھی زبان سیکھنے میں بھی معاون سمجھاجاتا رہا ہے۔ پرانے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ماہرین انگریزی زبان تلفظ کی درست ادائیگی سیکھنے کے لیے طلبہ کو ریڈیو کی انگریزی خبروں کو سننے کا مشورہ دیتے تھے۔

زبان کے حوالے سے یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ وقت میں اساتذہ میں زبان کی خامیاں بہت زیادہ ہیں۔ نہ صرف تلفظ کی ادائیگی کی سطح پر بلکہ قواعد کی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر کمزوری پائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ کی اپنی زبان درست نہیں ہوگی تو طلبہ پر اس کے برے اثرات پڑنے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 

بچوں کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویزن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں یونسیف کی جانب سے نشریات اطفال کا بین الاقوامی دن(International Children's Day of Broadcasting) منانے کا اعلان کیا گیا۔ ۲۰۰۸ میں یہ دن مئی کے پہلے اتوار کو منایا گیا اور ۲۰۰۹ سے مارچ کے پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ براڈ کاسٹروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس دن بچے کے لیے زیادہ سے زیادہ نشریہ پیش کریں۔ اس دن کے موقع پر براڈ کاسٹنگ میں بچوں کی بھی شرکت ہوتی ہے ۔

براڈ کاسٹر بچوں کو اس کی اجازت دیتے رہے ہیں کہ وہ پروگرامنگ کے عمل میں شامل ہوں اور اپنے ساتھیوں اور ہمجولیوں سے اپنی امیدیں اور اپنے خواب سے متعلق معلومات شیئر کریں۔

          1994میں یونیسیف نے انٹرنیشنل چلڈرنس ڈے آف براڈ کاسٹنگ ایوارڈ دینے کے لیے انٹرنیشنل اکیڈمی آف ٹیلی ویزن اینڈ سائنس میں شرکت کی۔ یہ انعام ایسے ٹیلی ویزن ناشر کو دیا جاتا تھا جنہوں نے نشریات اطفال کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے بہترین پیشکش نشر کرتے ہوئے مشن کو آگے بڑھایاہو۔ 2008کے بعد یونیسیف نے خود ہی ٹیلی ویزن اور ریڈیو کی خدمات کے اعتراف میں آئی سی ڈی بی ایوارڈ دینا شروع کردیا ۔

          ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے عالمی مسائل کو اجا گر کرنے اور ان کا حل کی طرف رہنمائی کرنے  میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے اور بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ یونیسیف براڈ کاسٹروں سے یہ اپیل بھی کرتا ہے کہ وہ تمام بچوں کی ترقی میں اہم رول ادا کریں۔ ایسے دستاویزی پروگرام پیش کریں جن سے بچوں کے حالات اور ان کے امنگوں کی عکاسی ہوسکے۔ جنسی تعصب اور امتیازات کا خاتمہ ہوسکے اور ایسے پروگرام پیش کئے جائیں جو ان کے لیے سبق آموز ہونے کے ساتھ تفریح سے پر ہوں۔ ٹیلی ویزن اور ریڈیو بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک بامقصد اور مثبت ذریعہ ہیں۔

 فی الوقت ٹیلی ویژن پر ایسے بہیترے ٹیلی ویزن پروگرام موجود ہیں جن سے بچوں کی تعلیم وتدریس کا کام لیا جا رہا ہے۔

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ ہندوستان زراعت پر مبنی نظام کا حامل ملک ہے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا نے ملک کے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے واقف کرانے میں بھی بہت اہم کر دار ادا کیا ہے۔

 تعلیم میں میڈیا کے رول کے حوالے سے کرونا کے عہد کا ذکر بھی ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ جب تعلیم گاہوں میں تالے پڑے تھے یہ میڈیا ہی تھا جس نے بچوں سے لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے تعلیم کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح چھوٹے بچوں سے لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے ایسے کئی ایپ موجود ہیں جو کلاس روم کا متبادل بن چکے ہیں۔ یوٹیوب پر ہزاروں تعلیمی ویڈیو موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر طلبہ اپنی لیاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ آزادی کے ۷۵ برس گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارے ملک میں صد فیصد خواندگی کی شرح نہیں آ پائی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی مجموعی شرح خواندگی ۲۰۲۲ء تک ۷۷ ؍ اعشاریہ ۷۰ فیصد ہے جبکہ بہار کی شرح خواندگی ۶۱؍ اعشاریہ ۸۰ فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بلاشبہ مایوس کن ہیں۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ان لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں میڈیا اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جو تعلیم کی اہمیت سے نا واقف ہیں۔ دوسری طرف میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے علاقوں اور ایسے گھرانوں کا سروے کر کے حکومت کو باخبر کرائے جہاں کے بچے تمام سرکاری سہولیات کے باوجود اسکول نہیں جا رہے ہیں یا پھر ایسے بچوں کی نشاندہی بھی میڈیا کے ذریعہ کی جاسکتی ہے کہ جن کے لیے حکومت کی یہ سرکاری سہولیات ناکافی ہیں۔ آج بھی ایسے Slum Areas موجود ہیں جہاں کے بچے کوڑے چننے، گلیوں میں آوارہ پھرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے لوگوں  کے مسائل کو سامنے لانے میں میڈیا نے رول ادا کیا ہے تاہم مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔

میڈیا کی حیثیت تعلیم کے لیے ایک محتسب کی بھی ہے۔ چھوٹی یا مقامی سطح پر یہ کام میڈیا کے ذریعہ کیا بھی جاتا ہے۔لیکن اس کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس نام پر تعلیمی عمل کا احتساب کرنے کی بجائے کچھ اور چیزوں کی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر میڈیا ایمانداری سے احتساب کا عمل انجام دے اور اپنے کام میں مخلص ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی عمل پر اس کا مثبت اثر پڑے گا اور معیاری تعلیم کے فروغ میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہوگا۔

تعلیم کو بہتر، آسان اور تمام لوگوں تک اس کی رسائی کے لیے حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ آزادی کے بعد ۱۹۶۸، ۱۹۸۶ اور ۲۰۲۰ میں نئی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ بلاشبہ ان پالیسیوں کے مثبت اثرات ہندوستان کی تعلیم پر مرتب ہوئے ہیں ۔اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان پالیسیوں کے اہداف کی صد فیصد تکمیل نہیں ہوپائی ہے۔ ساتھ ہی ان پالیسیوں کے نتیجے میں نصاب تعلیم کی تشکیل میں کئی بار تہذیب اور تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے وقت میں منصفانہ جائزہ لیتے ہوئے ان پالیسیوں میں شامل ایسی کوششوں کی نفی کرے اور حکومت کو باور کرائے کہ یہ عمل ہندوستان کے لیے کتنا نقصاندہ ہے۔

 میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پالیسیوں کا زمینی حقائق سے موازنہ بھی کرے اور پالیسی سازوں،محکمہ تعلیم اور حکومت کے ساتھ عوام کو یہ بتائے کہ پالیسی کا کون سا جزو کتنا مؤثر یا غیر مؤثر ہے۔میڈیا میں ماہرین اس کا جائزہ لیتے بھی ہیں لیکن اسکولوں میں جا کر اور ان کا نزدیک سے مشاہدہ کر کے جائزہ لینے کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ تعلیم گاہوں میں جا کر ان کا محاسبہ کرے اور ایک سچا تجزیہ پیش کرے جو ہندوستان کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکے۔

الغرض میڈیا کا دائرہ کار بڑا وسیع ہے اور زمرہ کے اعتبار سے بھی اس میں بڑا تنوع ہے ۔ ان تمام قسموں اور تعلیم پر ان کے اثرات بھی کثیر الجہات ہیں۔ ایک طرف ان میں کئی ذرائع ایسے ہیں جن کو درس و تدریس کے لیے راست طور پر کام میں پر لایا جاسکتا ہے تو دوسری طرف تعلیم کے تئیں  عوامی بیداری لانے کی حیثیت سے بھی ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور ہوتا بھی رہا ہے۔ لیکن ان سب کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ تاہم میڈیا اور تعلیم کے مابین انسلاکات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ تعلیمی عمل میڈیا کے بغیر ناقص اور ادھورا ہے۔

***

 

 یہ مضمون اورینٹل کالج آف ایجوکیشن (شیشو)، دربھنگہ میں منعقد دو روزہ سیمینار بعنوان اکیسویں صدی کے لیے تعلیم کی تشکیل نو  بتاریخ  ۹؍ ۱۰ مارچ ۲۰۲۴  کے لیے کالج کی دعوت اور مطالبہ پر  لکھا گیا اور لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سیمینار میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ 

 

 

 

 

 

 


No comments: