مشمولات

Saturday, 21 October 2017

ڈاکٹر ارشد جمیل اور اظہار حیات (داستاں میری کے حوالے سے )

ڈاکٹر ارشد جمیل اور اظہار حیات

                تاریخ کوروڈیہہ ڈاکٹر ارشد جمیل کی دو جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ پہلی جلد کو یادوں کے چراغ، ذکر ہم نفساں، داستاں میری، کاروان شوق، زائرین حرم، سرچشمہ ہدایت، کوروڈیہہ جلوہ گاہ عارفاں ، نقشہائے دگر اور رشتوں کی تلاش جیسے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
                 اس کتاب کا تیسرا باب”داستاں میری“ ہے۔ نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے ذاتی زندگی کے احوال وکوائف کے اظہار کے لیے اس باب کو مختص کیا ہے۔ یہ باب صفحہ ۲۱۱ سے ۲۸۲ یعنی بہتر (۷۲) صفحات پر مشتمل ہے۔ تاریخ کوروڈیہہ ۲۰۱۱ میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس وقت مصنف کی عمر تقریبا انسٹھ (۵۹) سال تھی۔ مصنف نے اپنی پیدائش سے لے کر کتاب کی اشاعت کے وقت تک کے حالات کو قلم بند کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس طرح ہم اس باب کو ان کی خود نوشت کا نام دے سکتے ہیں۔
                اپنی زندگی پیدائش سے لے کر کتاب مضمون کی اشاعت تک کے حالات کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے قلم کار جو نثری پیرایہ بیان اختیار کرتا ہے وہ خود نوشت سوانح عمری کہلاتی ہے۔ حالانکہ اس کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کو ملکہ شعری پر دسترس حاصل ہو تو شعری پیرایہ بیان میں بھی خود نوشت لکھی جاسکتی ہے۔ انگریزی زبان میں خود نوشت کے لیے Autobiographyکی اصطلاح رائج رہی ہے۔ اردو میں اس کے لیے خود نوشت سوانح عمری اور آپ بیتی کی اصطلاح رائج ہے۔ البتہ ماہرین نے دونوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے کہ آپ بیتی کے لیے پوری زندگی کا بیان ضروری نہیں ہے بلکہ محدود عرصہ میں غیر معمولی اور متاثر کن حالات وواقعات سے گذرنے اوراس سے متعلق مشاہدہ وتجربات کا بیان آپ بیتی کے ضمن میں آتا ہے۔ اس حیثیت سے آپ بیتی خود نوشت سوانح عمری کا ایک جزو قرارپاتی ہے۔ البتہ اس کا پھیلاؤ وسعت اختیار کرسکتا ہے۔ خیر ان فنی موشگافیوں سے قطع نظر خود نوشت سوانح کی تعریف پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
اپنی زندگی کے حالات پیدائش سے لے کر اپنے وجود تک انسان خود اپنی تحریر میں لکھنے کی روایت کو فروغ دے تو اس قسم کی نثر خود نوشت سوانح عمری کہلائے گی۔
(خود نوشت ، ص۸۰۲، اردو کی شعری ونثری اصناف، مجید بیدار)
                مجید بیدار نے اپنی کتاب میں خود نوشت کی چند خصوصیات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
اسے تحریر کرنے والا اپنی زندگی کے حالات بیان کرنے کے معاملہ میں پیدائش سے لے کر بچپن، لڑکپن، جوانی اور ملازمت کے علاوہ سرگرمیوں اور اولادوں کی تفصیل درج کرتا ہے۔ اس کے دوست احباب اور زندگی میں داخل ہونے والے اہم اونچ نیچ کے علاوہ نرم اور گرم رویے کی تفصیلات سے لے کر اس کے اس دنیا میں زندہ رہنے تک کے حالات اور اس کی وجوہات کا ذکر خود نوشت سوانح عمری میں ہی ممکن ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔خود نوشت سوانح عمری میں زندگی کے مختلف ادوار میں انسان سے سرزد ہونے والے کارناموں اور اس سے وابستہ شخصیات کے احوال اور واقعات کو بھی ذیلی طور پر خود نوشت سوانح عمری میں شامل کیا جاتا ہے۔
                                                                                ( خود نوشت ، ص ۰۱۲، اردو کی شعری ونثری اصناف، مجید بیدار)
انہوں نے گزشتہ خود نوشت تحریروں کی کچھ کمزوریوں کو اس طرح اجاگر کیا ہے:
               ”سرسید کے بعد ہر دور میں مصنّفین نے خود نوشست تحریروں کی طرف توجہ دی لیکن انہوں نے خاندانی کوائف اور اس دور کے حالات کے علاوہ معاصر اشخاص کے ذکر کی جانب خود نوشت تحریروںمیں توجہ نہیں دی ہے۔
                                                                                                ( خود نوشت ، ص۱۱۲، اردو کی شعری ونثری اصناف، مجید بیدار)
                یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ارشد جمیل نے خود اس باب کو خود نوشت کا نام نہیں دیا ہے۔ لہٰذا ایک بہتر خود نوشت میں جو اوصاف پائے جانے چاہئیں ان کا تقاضا مصنف سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔تاہم انہوں نے جس طرح اپنے احوال وکوائف درج کئے ہیں اس سے ان کی کتاب کا یہ باب خود نوشت کی سرحد میں قدم رکھتا نظر آتا ہے۔ ارشد جمیل نے اپنے پیش لفظ میں داستاں میری کی جو تفصیلات اور جواز فراہم کئے ہیں ان پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ وہ لکھتے ہیں:
اس فہرست میں”داستاں میری“ میں راقم الحروف کے احوال وکوائف، ادارے جہاں تعلیم پائی، ان اداروں کے تذکرے، اس وقت کا ماحول اور چند مشہور اساتذہ کے مختصر حالات درج ہیں۔ اس کا دوسرا حصہ دربھنگہ میں میری مدت ملازمت پر محیط ہے۔ اس میں ان روحانی، علمی اور ادبی شخصیتوں پر میرے ذاتی تاثرات ہیں جن سے میرے تعلقات تھے یا میں ان سے متعارف تھا اور اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اس میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ کسی واقعہ یا شخص کے ذیل میں محض ضمنا آیا ہے اور ابھی وہ حیات سے ہیں۔
                                                                                (پیش لفظ داستاں میری ص ۰۲)
                مذکورہ بالا اولین اقتباسات کو نظر میں رکھتے ہوئے پیش لفظ میں اس باب کے تعلق سے پروفیسر ارشد جمیل کے محولہ بیان اور توضیح کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ انہوں نے جن مشمولات کو ذکر کرنے کا دعوی کیا ہے ان سے ایک خود نوشت مرتب ہوتی ہے۔ لہٰذا خود نوشت کی حیثیت سے اس باب کا مطالعہ بالکل بیجا نہیں ہوگا اور کم از کم اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ اگر مزید زندگی کے ان حصوں کو شامل کردیا جاتا جن کا ذکر نہیں ہوسکا یا جن سے گریز کیا گیا تو ایک بہتر خود نوشت سامنے آسکتی تھی۔
                اس باب کی ابتدا مصنف کی پیدائش سے ہوتی ہے۔ رسم بسم اللہ خوانی اور ابتدائی تعلیم کے بعد انتہائی اختصار کے ساتھ خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالی گی ہے۔ چونکہ ابتدائی تعلیم ان کے چچا نے ہی دی تھی اس لیے خاندانی پس منظر کو اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ اس کا احساس نہیں ہوتا ہے۔کتاب کی دوسری جلد میں والد ، والدہ اور دیگر قریبی رشتہ داروں کی تفصیلات موجود ہیں۔ اگر وہ حصے یہاں درج ہوجاتے تو داستاں میری کا باب روشن ومنور ہوجاتا۔ والدہ کا تذکرہ جس جذباتی انداز سے کیا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ تھوڑی تشنگی کا احساس یہ بھی ہوتا ہے کہ اس وقت کے علاقائی حالات اور پس منظر پر سرسری نظر کیوں نہیں ڈالی گئی۔ حالانکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس عمر میں انسان کے مشاہدہ کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم گاہوں؛مدرسہ اعزازیہ پتھنا اور محمودیہ سمریا، بھاگلپور ضلع اسکول سے میٹریکولیشن، پھر ادارہ تحقیقات عربی وفارسی (Arabic & Persian Research Institute)پٹنہ ، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ سے فاضل فارسی، فاضل اردو،ادارہ عربی وفارسی سے دکتور العلم، پٹنہ یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ، گریجویشن، پی جی، ڈاکٹریٹ، ایل ایل بی کی ڈگری لینے کی معلومات سن کی وضاحت کے ساتھ دی ہیں۔ تمام تفصیلات کے مطالعے سے ان کی زندگی کے ارتقا اور تعلیم کے مراحل وغیرہ کا عمومی خاکہ ذہن میں اتر جاتا ہے۔ لیکن کہنے دیا جائے کہ اس میں ان کی مکمل زندگی سامنے نہیں آتی ہے۔
                کیونکہ زندگی جس جد وجہد اور اتار چڑھاؤسے عبارت ہے مصنف نے ان کو پیش کرنے میں صرف نظر سے کام لیا ہے۔ ایک کامیاب انسان کو زندگی میں مختلف مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ کبھی کامیابی قدم بوس ہوتی ہے تو کبھی زندگی کی دوڑ میں رخنے آتے ہیں۔ جس طرح ایک تیار کھیت میں بعض عوامل کے پیدا ہوجانے یا ناوقت بارش سے کھیتی غارت ہوجاتی ہے اسی طرح زندگی میں بھی کئی بار سب کچھ مساعد ہوتے ہوئے بھی عین وقت پر سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے اور موافق حالات نامساعد صورتحال میں بدل جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مایوس کن اور نامساعد حالات میں بھی عین وقت پر حالات استوار ہوجاتے ہیں اور انسان کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی بہت اعتماد کے ساتھ انجام دیئے جانے والا کام بے نتیجہ اور کبھی اس کے برعکس تذبذب میں کام کرتے ہوئے بھی مسرت انگیز نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
                پھر یہ کہ لڑکپن، بچپن اور نوجوانی اور جوانی کے مراحل سے جب انسان دوچار ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دور میں شخصیت بنتی اور بگڑتی ہے۔ بننے اور بگڑنے ، کھونے اور پانے کے کچھ اسباب وعوامل ہوتے ہیں۔
                جب یہ عناصر کسی خود نوشت میں شامل ہوتے ہیں تو وہ قارئین کے لیے تجربات بن جاتے ہیں اور ان کوکسی دوسرے کی زندگی پڑھنے کا جواز بھی ملتا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں عظیم شخصیات نے اپنی جو خود نوشتیں لکھی ہیں ان کے پڑھنے کا جواز یہی ہے کہ ان کی آپ بیتی دوسروں کی سبق آموزی کا ذریعہ ہے۔ قاری ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی کو سہل بناسکتا ہے۔ ترقی کی طرف گامزن ہونے کے لیے ان راستوں اور عوامل سے گریز کرے گا جن سے دوچار ہونے کے سبب مصنف کو سب کچھ درست ہوتے ہوئے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
                تاریخ کوروڈیہہ کے باب داستاں میری میں بھی زندگی کے ایسے واقعات کو مصنف نے پیش نہیں کیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے مدرسہ اعزازیہ کی تعلیم کے درمیان ساتھیوں کے ساتھ مدرسہ آتے جاتے وقت بچوں کی شرارتوں کے ضمن میں دو دلچسپ واقعات کا ذکر کیا ہے۔ لڑکپن اور تعلیم کی حصولیابی کے دنوں میں اس طرح کے واقعات بچوں سے سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ بعد میں بھی ممکن ہے اس طرح کے کچھ واقعات پیش آئے ہوں۔ کالج کے زمانے میں طلبہ کے درمیان آپس میں کئی ایسے معاملات اور واقعات پیش آتے ہیں جن کا زندگی کے بننے اور بگڑنے میں رول ہوتا ہے۔ اساتذہ کی محبت اور ان کی ہمدردیاں بھی مستقبل کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے لیے بھاگ دوڑ اور تگ ودو بھی انسان کو کرنی پڑتی ہے۔ ان سب کا بیان قارئین کے لیے بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ داستاں میری اس طرح کی دلچسپیوں سے خالی نظر آتی ہے۔
                ادارہ عربی وفارسی کا ذکر کرتے ہوئے ارشد جمیل نے لکھا ہے کہ ”شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں اس ادارہ کے بڑے احسانات ہیں جو آگے چل کر برگ وبار لائے“ ۔ یہ باب بڑا منور ہوجاتا اگر اس مدت کے شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں کار فرما اور اثر انداز عوامل کی وضاحت کردیتے اور اس وقت کے کچھ ایسے واقعات درج کردیتے جن سے مصنف کی زندگی متاثر ہوئی اور اس کے نتائج بعد کی زندگی میں کس طرح سامنے آئے۔
                خود ڈاکٹریٹ کا مرحلہ بھی ایک آپ بیتی سے کم نہیں ہوتا۔ مصنف کی دختر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ان کے زمانے میں ان کے گاؤں میں فاضل تک کی تعلیم ہی سب سے اونچی تعلیم سمجھی جاتی تھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کو اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ مصنف نے اس روایت کو توڑکر جدید تعلیم حاصل کی اور لوگوں کے دلوں کو جیتنے اور جدید تعلیم کے تئیں پیدا شکوک وشبہات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے اس درمیان انہیں رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
                ۲۱ جون ۱۹۸۳ کو مصنف رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ان کی شادی گاؤں کے ہی ایک شریف خاندان میں ہوئی۔انہوں نے بھر پور زندگی گذاری۔ چار بیٹے اور تین بیٹیوں کا تولد ہوا۔
                عام طور پر شادی کے لیے کئی جگہوں سے رشتے آتے ہیں۔ کبھی ایک ہی جگہ سے رشتہ آتا ہے اور شادی طے پاجاتی ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے انتخاب میں بھی ہمارے یہاں بڑی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ عرصہ قبل تک شادی میں اکثر والدین کی پسند کو ہی دخل حاصل ہوتا تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں نہ چاہتے ہوئے بھی والدین کی پسندیدگی پر اپنی خواہش کو قربان کردیتے تھے۔ بچوں کی پیدائش پر گھر خاندان میں ایک الگ سی خوشی ہوتی ہے۔ تسمیہ اور عقیقہ کی سنت کی ادائیگی وغیرہ کا بیان بھی کم دلچسپ نہیں ہوتا ہے۔
                داستاں میری شادی اور بچوں کے تولد کے ذکر سے ہی خالی ہے۔ اگر حج کے موقع پر پٹنہ کے سفر کے درمیان کا ذکر چھوڑ دیا جائے تو پتہ بھی نہیں چل پائے گا کہ انہوں نے شادی کی یا تجرد کی زندگی گذاری۔ انہوں نے دوسرے مقام پر اپنے خسر عیاض الدین مرحوم کا بڑی محبت اور احترام کے ساتھ تذکرہ کیا ہے لیکن اس میں بھی رشتے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ یہ تذکرہ بھی اس باب کا حصہ بن سکتا تھا۔
                مصنف نے داستاں میری میں حج کا ذکر کیا ہے۔ حج کے مقدس سفر کے درمیان کئی طرح کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ مصنف بہت اختصار سے حج کا ذکر کے گذر گئے اورسفر کی ابتدا اور واپس پہنچنے کے علاوہ اس کی روداد بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔سفر حج میں کن حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ جب انسان زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے اس وقت ایک مومن اس کو کس طرح دیکھتا ہے۔ مکہ ومدینہ پہنچنے کے بعد ایک مسلمان کے دل پر جو کیفیت گذرتی ہے اس کا بیان بھی بڑا پر کیف ہوتا ہے۔
                باب ”داستاں میری“ کے دوسرے حصے میںدربھنگہ کی ملازمت کے درمیان سے کتاب کی تحریر کے وقت تک کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیش لفظ میں اس باب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ : ”اس کا دوسرا حصہ دربھنگہ میں میری مدت ملازمت پر محیط ہے۔ اس میں ان روحانی، علمی اور ادبی شخصیتوں پر میرے ذاتی تاثرات ہیں جن سے میرے تعلقات تھے یا میں ان سے متعارف تھا اور اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اس میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ کسی واقعہ یا شخص کے ذیل میں محض ضمنا آیا ہے اور ابھی وہ حیات سے ہیں۔ “انہوں نے جو دعوی کیا ہے باب کے مطالعہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ساتھ ہی محولہ اقتباس میں مجید بیدار کے ذریعہ گذشتہ خود نوشتوں میں معاصر کے ذکر کی کمی کی جو شکایت کی گئی ہے یہ باب اس کمی سے پاک نظر آتا ہے۔ اس حصے میں دربھنگہ، پٹنہ، کوروڈیہہ اور ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے بہت سے مشہور معاصرین ذکر موجود ہے۔ اس باب میں ۲نومبر ۱۹۸۲ سے۲۰۱۱ تک سوائے گھریلو حالات کے وہ جن حالات سے گذرے یا جن علمی اور سماجی شخصیات سے ان کا رابطہ ہوا اور ان سے متاثر ہوئے ان کا عہد بعہد ذکر کیا گیا ہے۔جن شخصیات کا ذکر کیا ہے ان کی ملی وسماجی خدمات کا بھی اجمالی تعارف مصنف نے پیش کیا ہے۔ دربھنگہ کا بہت ہی خوبصورت اور جذباتی تعارف اس باب میں موجود ہے اور اس شہر کو شہر نگاراں کا نام انہوں دے دیا ہے۔ اس باب میں دربھنگہ کے تعلیمی اداروں ، ادبی اور سماجی سرگرمیوں کا بھی تذکرہ موجود ہے۔
                ۱۹۸۹ میں بھاگلپور کے فساد اور اس کی تباہ کاریوں، ۱۹۹۵ میں بھاگلپور اور ان کے گاؤں کے بڑے سیلاب کی زد میں آنے، ۲۰۰۴ میں دربھنگہ کے سیلاب اور ان حالات میں خلق خدا کی پریشانیوں کا ذکر بھی اسی باب میں موجود ہے۔ ان تمام حالات کا سامنا مصنف کو بھی کرنا پڑا۔ ان حالات میں ان پر جو گذری اور انہوں نے جو اقدامات کئے ان تفصیلات کو بھی پیش کیا گیاہے۔
                مذکورہ مقدمات کو پیش کرنے کے بعد یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اگر تھوڑی وسعت اختیار کرلی گئی ہوتی تو یہ باب ایک مستقل خود نوشت کی شکل میں سامنے آتا۔لیکن یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس باب کو کتاب میں داخل کرنے کا ارادہ مصنف کا نہیں تھا ۔ پیش لفظ کی وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ اخیر میں اس باب کو داخل کیا گیا۔ الغرض پورے باب کے مطالعہ سے اس نتیجے تک پہنچا جاسکتا ہے جس کا اظہار میر نے اپنے اس شعر میں کیا ہے 
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
٭٭٭

No comments: