مشمولات

Sunday, 22 December 2024

نبی اکرم ﷺ کی سماجی زندگی : مکی دور کے تناظر میں


ھذا الامین رضینا ،  ھذا محمد ﷺ

(نبی ﷺ کی سماجی زندگی : مکی دور  کے تناظر میں)

 

                اسلام کے بنیادی عقائد میں رسالت و نبوت کے ساتھ عبدیت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن  میں  اس حقیقت پر مختلف پیرائے میں اور مختلف مقامات پر گفتگو کی گئی ہے۔ خود قرآن مجید کے علاوہ فقہی کتابوں اور اسلامی فلسفہ میں یہ بحث بڑی تفصیل سے موجود ہے کہ رسالت کے ساتھ عبدیت کا تصور اور اس عقیدہ  پر ایمان کا لزوم کیوں ضروری ہے؟  یہ ایک فقہی اور علمی بحث ہے جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ قرآن نے کئی جگہوں پر عبدیت اور نبوت کے رشتہ کو واضح کیا ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے:

قل انما انا بشر میں مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم اله و احد

ترجمہ: (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سا انسان ہوں ۔( امتیاز یہ ہے کہ ) میری طرف وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود معبود واحد ہے۔ 

عبدیت کے تصور کےساتھ  پیدائش و وفات، خانگی و سماجی زندگی اور دیگر انسانی ضروریات اور حوائج بشریہ بھی جزو لا ینفک کے طور پر منسلک ہوجاتے ہیں۔ قرآن نے آپ کی ہونے والی موت کو بھی آپ کی عبدیت کی وضاحت کے لیے پیش کیا ہے۔

انک میت و انھم میتون

آپ ﷺ نے بھی اپنے آپ کو کبھی انسانی مرتبہ اور احتیاجات و ضروریات سے بالاتر قرار نہیں دیا ہے۔ اس سلسلےمیں یہ حدیث بہت مشہور ہے:

عن انس : ان نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم سالوا ازواج النبي صلى الله عليه وسلم عن عمله في السر، فقال بعضهم: لا اتزوج النساء، وقال بعضهم: لا آكل اللحم، وقال بعضهم: لا انام على فراش، فحمد الله واثنى عليه، فقال: " ما بال اقوام قالوا: كذا وكذا لكني اصلي، وانام، واصوم، وافطر، واتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي، فليس مني ".

‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو پتہ چلا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے۔ لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۰۳، بحوالہ موسوعۃ القرآن و الحدیث)

ہر زمانہ میں انسان کامل کی حیثیت سے وہی شخص پہچانا گیا ہے جس کے ساتھ عائلی اور سماجی زندگی بھی منسلک رہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی کار نبوت کے ساتھ  ساتھ عائلی اور سماجی زندگی سے مربوط رہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تعلیمات معاش و معاشرت کی اصلاح سےہی عبارت ہے۔یہ خصوصیت اسلام کو  دیگر مذاہب  اور افکار عالم میں امتیاز بخشتی ہے کہ  یہ محض چند رسوم عبادت اور مجرد روحانیت کا تصور نہ بن کر ہر شعبہ حیات میں زندگی گزارنے کا  ایک عمدہ اور صالح نمونہ بن  گیا ہے۔جس میں انسان کی فطرت سلیم  اور تقاضائے حیات و بشریت کا مکمل لحاظ  موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ چند ایک عبادت کے ماسوا  تمام اہم عبادات کو معاشرت سے جوڑ کر رکھا گیا ہے۔اسلام کے جو بنیادی فرائض ہیں: نماز، روزہ،، زکوۃ  اور حج ان سب کی ادائیگی میں سماجی ہم آہنگی موجود ہے۔ نماز کی ادائیگی جماعت کے ساتھ مسجد میں، روزہ کے ساتھ فطرہ کا تصور، امیروں سے لے کر غریبوں میں زکوۃ  کی تقسیم اور حکومت کے نظام میں اس کا استعمال اور اسی طرح حج ہے  جو  ایک عظیم عالمی اجتماع ہی ہے۔  

اہل سیر نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پیدائش سے لے کر ہجرت مدینہ تک  کی زندگی کو مکی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ آپ ﷺ کی زندگی میں قمری مہینوں کے لحاظ سے تقریبا ترپن (۵۳) برسوں پر محیط ہے۔جبکہ ہجرت سے لے کر آپ ﷺ کی وفات تک کے عرصہ کو مدنی زندگی قرار دیا گیا ہے جس کی مدت دس برس ہے۔  

زیر نظر  مقالے میں نبی اکرم ﷺ کے ترپن برسوں کی زندگی یعنی عہد مکی کا مطالعہ سماجی زندگی کے تناظر میں مقصود ہے۔

اس تناظر میں آپ کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا  دور پیدائش سے لے کر اعلان نبوت تک کے عرصے کو شامل ہے اور دوسرے دور میں  اعلان نبوت سے لے کر ہجرت مدینہ تک کی زندگی شامل ہے۔

آپ ﷺ  کی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک فطرت انسانی کے مطابق رہی ہے۔ انسان کی  پیدائش جس حیاتیاتی عمل کے تحت ہوتی ہے نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کا مرحلہ بھی اسی عمل سے ہو کر گزرا ہے۔ آپ کی پرورش و پرداخت بھی عام انسانی معمولات کے مطابق ہوئے ہیں۔ اس درمیان کچھ غیر معمولی نشانیاں بھی ظاہر ہوئی ہیں جو خرق عادت کے زمرہ میں آتی ہیں، اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی پرورش و پرداخت کے عرصے اور حیاتیاتی عمل کے ساتھ بچپن کے حالات پر گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ سماجی زندگی میں یہ عہد انسان کی فعالیت کا نہیں ہوتا  ہے۔ لہذا بے جا طوالت سے بچنے کے لیے اس سے گریز  کیا گیا ہے۔ البتہ اردو کا یہ محاورہ کہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ‘‘ آپ ﷺ پر بچپن سے ہی صادق آتا تھا۔ اہل سیر نے آپ ﷺ کی زندگی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کو ابن ہشام کے حوالے سے صاحب الرحیق المختوم نے ذکر کیا ہے: وہ لکھتے ہیں:

‘‘عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں فرچ بچھایا جاتا، ان کے سارے لڑکے فرش کے ارد گرد بیٹھے جاتے۔ عبد المطلب تشریف لاتے تو فرش پر بیٹھتے، ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا لیکن رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو فرش پر ہی بیٹھ جاتے۔ ابھی آپ ﷺ کم عمر بچے تھے۔ آپ ﷺ کے چچا حضرات آپ ﷺ کو پکڑ کر اتار دیتے۔ لیکن جب عبد المطلب انہیں ایسا کرتے دیکھتے تو فرماتے: میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو۔ بخدا اس کی شان نرالی ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بیٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل و حرکت دیکھ کر خوش ہوتے۔’’

(الرحیق المختوم: صفحہ ۱۰۶، مطبوعہ دار السلام، سن اشاعت غیر موجود)

یہ واقعہ آپ کی عمر کے ۶ برس سے لے کر ۸ برس کی عمر تک کا ہے۔ ۸ برس کی عمر میں جب آپ ﷺ کے شفیق دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوگیا تو آپ اپنے شفیق چچا حضرت ابو طالب کی کفالت میں چلے گئے۔ اہل سیر نے اس دور میں بھی ان کی سعادت اور برکت کے ایک  واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جس صفی الرحمن مبارکپوری نے ‘‘روئے مبارک سے فیضان باراں کی طلب’’  کا عنوان دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘ابن عساکر نے جلہمہ بن حرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ میں آیا۔ لوگ قحط سے دو چار تھے۔ قریش نے کہا : ابو طالب! وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے کال کی زد میں ہیں۔ چلئے بارش کی دعا کیجئے۔ ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے۔ بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ جس سے گھنا بادل ابھی ا بھی چھٹا ہو۔ اس کے اردو گرد اور بھی بچے تھے۔ ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی۔ بچے نے ان کی انگلی پکڑ   رکھی تھے (تھی) اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن (دیکھتے دیکھتے) ادھر ادھر سے بادلوں کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر و بیاباں شاداب ہوگئے۔

بعد میں ابو طالب نے اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد ﷺ کی مدح میں کہا تھا۔

 وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بوَجْهِهِ

 ثِمَالُ اليَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ 

 وہ خوبصورت ہیں ۔ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماوی اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔

(الرحیق المختوم: صفحہ ۱۰۶- ۱۰۷ ، مطبوعہ دار السلام، سن اشاعت غیر موجود)

اس شعر میں جہاں آپ ﷺ کے حسن و جمال کی تعریف موجود ہے وہیں اس آپ کے دیگر اوصاف کا بھی علم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ ﷺ کے تعلق سے سماجی زندگی   میں اہم سمجھے جانے والے درج ذیل دو  اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے :

۱۔  یتیموں کے ساتھ اظہار یکجہتی

۲۔ محتاجوں اور بیواؤں کا تحفظ

اس  سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ میں بچپن سے ہی ایسی عادتیں موجود تھیں جو سماجی زندگی میں قابل تعریف سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وہ اوصاف ممیزہ ہیں جن سے آپ ﷺ کی ذات والا  صفات زندگی کے ہر دور میں ممتاز ہوتی رہی ہے۔

اس حوالے سے وہ یادگار جملے بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی نے آپ سے اس وقت کہے تھے  جب آپ ﷺ پر وحی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ ﷺ گھبرائے ہوئے  اپنے گھر تشریف لائے اور آپﷺ  کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ شاید آپ کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق  ہے ۔ آپ ﷺ نے اپنی زوجہ  سے ساری تفصیلات بیان کیں تو انہوں نے برجستہ کہا :

‘‘قطعا نہیں، بخدا آپ ﷺ کو اللہ تعالی رسو ا نہ کرےگا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بند و بست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔ ’’

(الرحیق المختوم ص ۱۱۷)

ایک صالح معاشرت کے حوالے سے  اس واقعہ میں درج ذیل اوصاف کا ذکر موجود ہے:

۱۔      صلہ رحمی

۲۔  درماندوں کا بوجھ اٹھانا

۳۔  تہی دستوں کا بند و بست کرنا

۴۔  مہمان کی میزبانی کرنا

۵۔  حق کی مصیبت پر امداد

 حضرت خدیجہ آپ ﷺ کی پہلی بیوی تھیں اور انہوں نے آپ سے دوسرا نکاح آپ کے اخلاق  و کردار کے مشاہدہ اور امتحان کے بعد ہی کیا تھا اس لیے ان کی یہ گواہی یقینا سچی اور بلا مبالغہ تھی۔

صالح معاشرہ کی تشکیل کرنے والے یہ وہ اعمال ہیں جو ہر عہد میں مہذب سماج کی خوبیوں میں شمار ہوتی رہی ہے۔  اسلام نے نہ صرف ان کو باقی رکھا بلکہ اس کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے۔ یہ اعمال اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادی پہچان ہے۔

آپ ﷺ کے ان اوصاف کا اظہار  حلف الفضول کے واقعہ میں بھی ہوتا ہے جس  پر آپ ﷺ ہجرت کے بعد بھی پابند عہد تھے اور فرماتے تھے کہ اگر اب بھی کوئی مجھے اس عہد کے حوالے سے یاد کرے تو میں اس میں حاضر ہوں گا۔

سماجی زندگی کے  ضمن میں  خانہ کعبہ کی تعمیر کا وہ واقعہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب حجر اسود کو اپنی جگہ پر نصب کرنے کے معاملے میں قبائل کے درمیان تنازعہ  ہوگیا  اور بہت قریب تھا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے تلواریں نکل پڑیں جیسا کہ  ان قبائل میں اس طرح کی جنگوں کا رواج بھی تھا۔ لیکن اس سے پہلے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کل جو سب سے پہلے احاطہ حرم میں داخل ہوگا وہ اس  قضیہ کا فیصلہ کرے گا۔ خدا کی مرضی سے یہ شرف آپ ﷺ کو حاصل ہوا اور پہلا فرد جو وہاں پہنچا وہ آپ ﷺ تھے۔ صفی الرحمن مبارکپوری نے ذکر کیا ہے کہ مختلف قبائل کے لوگوں نے جب آپ کو دیکھا کہ وہاں موجود ہیں تو وہ چیخ(  اچھل ) پڑے اور بے ساختہ کہا کہ ھذا الامین رضینا ھذا محمد ﷺ۔ یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، یہ محمد ﷺ ہیں۔ ’’

 آپ کی موجودگی پر تمام قبائل نے اطمینان کا اظہار کیا اور پھر آپ نے تمام قبائل کو لے کر حجر اسود کو اپنے مقام پر نصب کیا۔ آپ ﷺ کی موجودگی پر لوگوں کا اطمینان بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ ہجرت سے قبل اعلی اخلاقی اقدار کی حامل زندگی جی رہے تھے۔ آپ کی صداقت و امانت پر لوگوں کے اعتماد کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا ذات يوم، فقال:" يا صباحاه، فاجتمعت إليه قريش، قالوا: ما لك؟ قال: ارايتم لو اخبرتكم ان العدو يصبحكم او يمسيكم اما كنتم تصدقوني؟ قالوا: بلى، قال: فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"، فقال ابو لهب: تبا لك الهذا جمعتنا

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑواس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخسے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردودبولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔

(صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۴۸۰۱)  

          صداقت اور امانت آپ ﷺ کی ایسی شناخت تھی کہ اس سے پہلے اہل عرب کے یہاں  اس طرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صداقت اور امانت کی جو مثال آپ ﷺ نے پیش کی وہ نہ تو آپ سے پہلے ملتی ہیں اور نہ آپ کے بعد اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ مولانا نصیر الدین ہاشمی  حیدر آبادی اپنے مضمون انسان کامل میں لکھتے ہیں:

‘‘رسول اکرم ﷺ نے نبوت سے پہلے جس طرح اپنی صداقت اور راست گوئی سے امین کا لقب حاصل کرلیا تھا وہ تاریخ اسلام کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ نبوت کے بعد بھی کفار کو آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ نصر بن حارث نے اکابرین قریش سے کہا کہ محمد (ﷺ) تمہارے سامنے بچے سے جوان ہوئے ہیں ۔ وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور صادق القول اور امین تھا۔

اب جبکہ اس کے بالوں میں سفیدی آچکی  اور تمہارے سامنے یہ باتیں پیش کیں تو کہتے ہو یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے، واللہ محمد (ﷺ) میں یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ابو جہل بھی کہا کرتا تھا کہ محمد میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا البتہ تم جو کہتےہو ان کو صحیح نہیں سمجھتا۔

(بحوالہ: اہل حدیث گزٹ ، اگست ۳۸)

آپ ﷺ کی صداقت و امانت  اور ان کی بہترین سماجی زندگی کا اس سےبڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ جب مکہ کے میں آپ ﷺ کا عرصہ حیات تنگ ہوگیا اور کسی طرح بھی زندگی محفوظ نہ رہی تو اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو ہجرت کی اجازت دی۔ یہ وہ عرصہ ہے جب آپ ﷺ کے ساتھ  مکہ لوگوں کی دشمنیاں شباب پر تھیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سردران مکہ اپنے تمام اصحاب الرائے کے ساتھ دار الندوہ میں جمع ہو کر اس فیصلہ پر متفق ہوگئے تمام قبائل کے لوگ بیک وقت آپ ﷺ  پر حملہ آور ہوں تاکہ ہاشمی قبیلہ کسی سے بدلہ نہ لے سکے اور دیت پر راضی ہوجائے۔ لیکن ایسے وقت میں بھی انہی لوگوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو آپ کی صداقت و امانت پر اتنا یقین رکھتے تھے کہ اپنی قیمتی چیزیں آپ کے یہاں بطور امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ چنانچہ جب آپ ﷺ  ہجرت کرنے لگے تو آپ نے وہ سامان حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے حوالے کئے کہ ہجرت کے بعد وہ ان کے مالکوں تک پہنچا دی جائیں۔

                یہ آپ ﷺ کی مکی دور میں سماجی زندگی کے چند درخشاں پہلو ہیں۔ آپ کی سیرت مبارکہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے سن شعور کے سنبھالنے کے ساتھ ہی ایک مصفی و مجلیٰ زندگی اختیار کی اور سماج کی فلاح و بہبود کے کاموں کے ساتھ اخلاق و کردار کا اعلی نمونہ پیش کیا جس نے آپ کی نبوت کے سچے دعوے  کو جھٹلائے  جانے کے باوجود آپ کے کردار اور صداقت و امانت پر حرف نہ آنے دیا۔

آپ ﷺ کے ان اخلاق حمیدہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم ہر شعبہ میں اور عمر کے ہر عہد میں  اپنی زندگی کو اخلاقی نہج پر استوار کریں اور اپنی شخصیت  کو اتنا مستحکم بنائیں کہ ہمارا وجود اپنے ملک اور اپنی زمین کے لیے بابرکت ثابت ہو اور ہمارا کردار  ہی داعیانہ ہوجائے جیسا کہ آپ ﷺ نے مکہ کہ اپنی ترپن (۵۳)  سالہ زندگی میں  کر کے دکھایا کہ غیر موافق حالات میں بھی  آپ کے سماج کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ھذا الامین رضینا، ھذا محمد (ﷺ)

***


No comments: