مشمولات

Tuesday, 22 July 2025

ووٹر لسٹ جامع نظر ثانی مہم : نام ہٹانے کی نئی ترکیب

ہوشیار ، خبر دار رہئے!!

ووٹر لسٹ نظر ثانی مہم میں اصل اب امتحان شروع ہونے والا ہے۔

احتشام الحق

بہار اسمبلی انتخاب سے قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جاری ہدایت کے مطابق بہار میں چل رہا ووٹر لسٹ کی نظر ثانی  کا کام تقریبا مکمل ہوچکا ہے۔ بی ایل او (بوتھ لیول افسر) اور محکمہ کی جانب سے متعین ان کے رضاکاروں کی مدد سے ہر بوتھ کے ہر ووٹر کی انفرادی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیو آر کوڈ والا فرد شماری (enumeration) فارم آن لائن یا آف لائن کاغذ کے ساتھ یا بغیر کاغذ کے داخل کیا جاچکا ہے۔ اب اس میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے۔ باوثوق ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق جس بوتھ کے لیے 95 فیصد فارم داخل کر دئیے گئے ہیں، ان کے بی ایل او پر ان کے اعلی حکام کی جانب سے زبانی طور پر سختی کی جا رہی ہے کہ ان کے بوتھ پر اتنے فارم کیسے داخل کر دئیے گئے۔ خبر ہے کہ کئی اضلاع میں اس کی وجہ سے چند بی ایل او کو کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اس لیے اب بہت سے ووٹروں کا نام کاٹنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور اس کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مثلا:  ایک معلوم کیس میں بی ایل او کی جانب سے  فزیکل اپیئرنس کی بات کہی گئی ۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو فلاں ذمہ دار  نے کہا ہے۔ پتہ  کرنے پر معلوم ہوا کہ  فلاں ذمہ دار کی حیثیت ایک اہلکار سے زیادہ نہیں ہے۔  گویا اسی طرح اور بھی دوسرے حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ایسے میں سبھی ووٹر بالخصوص با شعور افراد کو ہوشیار اور خبر دار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسی کوئی بات کہی جاتی ہے یا کسی کاغذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو ووٹر کی جانب سے تحریری حکم نامے یا ہدایت نامے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ یا پھر متعلقہ افسر مثلا بی ڈی او یا ڈی ایم کو بذریعہ میل یا دستی طور پر شکایت بھی درج کرانی چاہیے۔ اس کام لیے اس علاقہ کے پڑھے لکھے افراد کو سرگرم ہونا ہوگا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ووٹر لسٹ سے نام اسی صورت میں کا ٹا جاسکتا ہے کہ کوئی آدمی مر گیا ہو یا کسی اور جگہ منتقل ہو کر وہاں کا ووٹر ہوگیا ہو یا کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لی ہو، یا کسی کے نام کا دو جگہ اندراج ہو۔ دوہرے اندراج کی صورت ایک ہی بوتھ پر بھی ہوسکتی ہے اور ملک کے کسی بھی دیگر بوتھ کے ووٹر لسٹ میں نام ہونے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔  اگر کسی کا نام ۱۸ سال کی عمر سے قبل ووٹر لسٹ میں کسی طرح بھی درج ہوگیا ہے تو ایسی صورت میں بھی ووٹر لسٹ میں اس کا نام رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ نظر ثانی مہم بھی اسی نام پر ہے کہ کسی نا اہل ووٹر کا نام فرضی طور پر ووٹر لسٹ میں نہ رہے اور کسی اہل شہری کا نام ووٹر لسٹ سے بے جا طور پر کٹے بھی نہیں۔ ایماندارانہ جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ لیکن اصل مقصد اس کے پیچھے کچھ اور کارفرما ہے جس کو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے اور ا س کا تجربہ دیگر ریاست کے انتخاب میں اس سے قبل  کیا بھی جا چکا ہے۔ دوسری جگہوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم اس کے پیچھے کی منفی ذہنیت  کو ناکام یا اس کے برے اثرات کو کم کرسکتے ہیں۔

نظر ثانی مہم کے تحت کسی ووٹر کا نام مذکورہ صورتوں میں کاٹنے سے قبل ہر بی ایل او کو اپنے بوتھ کے بی ایل اے (بلاک لیول ایجنٹ) کے ساتھ میٹنگ کرنا ہے جس میں ان سے فوت شدہ ووٹر، مستقل طور سے دوسری جگہ منتقل ہو کر وہاں کا ووٹر ہو جانے یا کسی ووٹر کا نام دو جگہ پر درج ہونے  وغیرہ کی تصدیق کرلینا لازمی ہے۔ اس کے لیے ضلع الیکشن کمیشن افسر کی جانب سے ہدایتیں بھی جاری کی گئی ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے بی ایل اے سے رابطہ رکھنا چاہیے اور انہیں یہ تاکید کرنی چاہیے کہ کسی اہل ووٹر کا نام ووٹر لسٹ سے کٹنے نہ پائے۔ واضح رہے کہ ہر بوتھ کے لیے سرگرم اور فعال سیاسی پارٹیوں نے مقامی سرکردہ افراد میں سے کسی کو بی ایل اے (بلاک لیول ایجنٹ) نامزد کر رکھا ہے۔ ہم ذرا سی تفتیش اور بی ایل او (BLO) کی مدد سے یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے بوتھ پر کون کس پارٹی کا بی ایل اے (BLA) نامزد ہے۔ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ ہر بوتھ کے سرکردہ افراد کو چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر سے اپنے اپنے بوتھ کا 2025 کا فائنل ووٹر لسٹ ڈاؤن لوڈ کر کے موبائل میں یا پرنٹ کرا کر رکھ لیں۔ سیاسی طور پر سرگرم افراد اس کی تصدیق بھی کریں کہ اب تک کتنے اہل افراد نے نظر ثانی مہم کے لیے فارم داخل نہیں کیا ہے۔ اگر نہیں داخل کیا ہے اور وہ وہاں کے لیے اہل ہے تو ان کا فارم داخل کرائیں۔ بی ایل اے سے رابطہ کر کے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ کسی بوتھ پر کام مکمل ہونے کے بعد بی ایل او کے ذریعہ کتنے لوگوں کا نام کاٹنے کی سفارش کی گئی ہے اور وہ کون لوگ ہیں جن کا نام کاٹا جا رہا ہے اور اس کا جائز سبب کیا ہے؟

معلوم رہے کہ یکم اگست 2025 کو نیا ووٹر لسٹ جاری ہونا ہے۔ لسٹ جاری ہوتے ہی دوبارہ ڈاؤن لوڈ کرکے تصدیق کریں کہ کسی اہل ووٹر کا نام تو نہیں کٹا ہے۔ اگر کٹتا ہے تو پھر اعتراض عائد کریں۔ اس درمیان ایک کام یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے پاس کاغذات کی کمی ہوسکتی ہے سیاسی طور پر متحرک افراد ان کے کاغذات تیار کروانے کی کوشش بھی کریں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قاعدے کے مطابق دوسری جگہ مستقل طور سے رہائش پذیر اور وہاں کا ووٹر ہو جانے والوں اور اسی طرح دو جگہ نام ہونے پر یا فوت ہو جانے پر نام کو حذف کیا جانا ہے۔ اگر ایسی کوئی حالت ہے تو خود ہی نام کاٹنے کا فارم داخل کر کے شفاف انتخاب کے انعقاد میں انتظامیہ کی مدد کریں۔ 

Sunday, 22 December 2024

نبی اکرم ﷺ کی سماجی زندگی : مکی دور کے تناظر میں


ھذا الامین رضینا ،  ھذا محمد ﷺ

(نبی ﷺ کی سماجی زندگی : مکی دور  کے تناظر میں)

 

                اسلام کے بنیادی عقائد میں رسالت و نبوت کے ساتھ عبدیت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن  میں  اس حقیقت پر مختلف پیرائے میں اور مختلف مقامات پر گفتگو کی گئی ہے۔ خود قرآن مجید کے علاوہ فقہی کتابوں اور اسلامی فلسفہ میں یہ بحث بڑی تفصیل سے موجود ہے کہ رسالت کے ساتھ عبدیت کا تصور اور اس عقیدہ  پر ایمان کا لزوم کیوں ضروری ہے؟  یہ ایک فقہی اور علمی بحث ہے جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ قرآن نے کئی جگہوں پر عبدیت اور نبوت کے رشتہ کو واضح کیا ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے:

قل انما انا بشر میں مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم اله و احد

ترجمہ: (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سا انسان ہوں ۔( امتیاز یہ ہے کہ ) میری طرف وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود معبود واحد ہے۔ 

عبدیت کے تصور کےساتھ  پیدائش و وفات، خانگی و سماجی زندگی اور دیگر انسانی ضروریات اور حوائج بشریہ بھی جزو لا ینفک کے طور پر منسلک ہوجاتے ہیں۔ قرآن نے آپ کی ہونے والی موت کو بھی آپ کی عبدیت کی وضاحت کے لیے پیش کیا ہے۔

انک میت و انھم میتون

آپ ﷺ نے بھی اپنے آپ کو کبھی انسانی مرتبہ اور احتیاجات و ضروریات سے بالاتر قرار نہیں دیا ہے۔ اس سلسلےمیں یہ حدیث بہت مشہور ہے:

عن انس : ان نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم سالوا ازواج النبي صلى الله عليه وسلم عن عمله في السر، فقال بعضهم: لا اتزوج النساء، وقال بعضهم: لا آكل اللحم، وقال بعضهم: لا انام على فراش، فحمد الله واثنى عليه، فقال: " ما بال اقوام قالوا: كذا وكذا لكني اصلي، وانام، واصوم، وافطر، واتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي، فليس مني ".

‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو پتہ چلا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے۔ لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، حدیث نمبر ۳۴۰۳، بحوالہ موسوعۃ القرآن و الحدیث)

ہر زمانہ میں انسان کامل کی حیثیت سے وہی شخص پہچانا گیا ہے جس کے ساتھ عائلی اور سماجی زندگی بھی منسلک رہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی کار نبوت کے ساتھ  ساتھ عائلی اور سماجی زندگی سے مربوط رہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تعلیمات معاش و معاشرت کی اصلاح سےہی عبارت ہے۔یہ خصوصیت اسلام کو  دیگر مذاہب  اور افکار عالم میں امتیاز بخشتی ہے کہ  یہ محض چند رسوم عبادت اور مجرد روحانیت کا تصور نہ بن کر ہر شعبہ حیات میں زندگی گزارنے کا  ایک عمدہ اور صالح نمونہ بن  گیا ہے۔جس میں انسان کی فطرت سلیم  اور تقاضائے حیات و بشریت کا مکمل لحاظ  موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ چند ایک عبادت کے ماسوا  تمام اہم عبادات کو معاشرت سے جوڑ کر رکھا گیا ہے۔اسلام کے جو بنیادی فرائض ہیں: نماز، روزہ،، زکوۃ  اور حج ان سب کی ادائیگی میں سماجی ہم آہنگی موجود ہے۔ نماز کی ادائیگی جماعت کے ساتھ مسجد میں، روزہ کے ساتھ فطرہ کا تصور، امیروں سے لے کر غریبوں میں زکوۃ  کی تقسیم اور حکومت کے نظام میں اس کا استعمال اور اسی طرح حج ہے  جو  ایک عظیم عالمی اجتماع ہی ہے۔  

اہل سیر نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پیدائش سے لے کر ہجرت مدینہ تک  کی زندگی کو مکی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ آپ ﷺ کی زندگی میں قمری مہینوں کے لحاظ سے تقریبا ترپن (۵۳) برسوں پر محیط ہے۔جبکہ ہجرت سے لے کر آپ ﷺ کی وفات تک کے عرصہ کو مدنی زندگی قرار دیا گیا ہے جس کی مدت دس برس ہے۔  

زیر نظر  مقالے میں نبی اکرم ﷺ کے ترپن برسوں کی زندگی یعنی عہد مکی کا مطالعہ سماجی زندگی کے تناظر میں مقصود ہے۔

اس تناظر میں آپ کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا  دور پیدائش سے لے کر اعلان نبوت تک کے عرصے کو شامل ہے اور دوسرے دور میں  اعلان نبوت سے لے کر ہجرت مدینہ تک کی زندگی شامل ہے۔

آپ ﷺ  کی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک فطرت انسانی کے مطابق رہی ہے۔ انسان کی  پیدائش جس حیاتیاتی عمل کے تحت ہوتی ہے نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کا مرحلہ بھی اسی عمل سے ہو کر گزرا ہے۔ آپ کی پرورش و پرداخت بھی عام انسانی معمولات کے مطابق ہوئے ہیں۔ اس درمیان کچھ غیر معمولی نشانیاں بھی ظاہر ہوئی ہیں جو خرق عادت کے زمرہ میں آتی ہیں، اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی پرورش و پرداخت کے عرصے اور حیاتیاتی عمل کے ساتھ بچپن کے حالات پر گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ سماجی زندگی میں یہ عہد انسان کی فعالیت کا نہیں ہوتا  ہے۔ لہذا بے جا طوالت سے بچنے کے لیے اس سے گریز  کیا گیا ہے۔ البتہ اردو کا یہ محاورہ کہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ‘‘ آپ ﷺ پر بچپن سے ہی صادق آتا تھا۔ اہل سیر نے آپ ﷺ کی زندگی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کو ابن ہشام کے حوالے سے صاحب الرحیق المختوم نے ذکر کیا ہے: وہ لکھتے ہیں:

‘‘عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں فرچ بچھایا جاتا، ان کے سارے لڑکے فرش کے ارد گرد بیٹھے جاتے۔ عبد المطلب تشریف لاتے تو فرش پر بیٹھتے، ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا لیکن رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو فرش پر ہی بیٹھ جاتے۔ ابھی آپ ﷺ کم عمر بچے تھے۔ آپ ﷺ کے چچا حضرات آپ ﷺ کو پکڑ کر اتار دیتے۔ لیکن جب عبد المطلب انہیں ایسا کرتے دیکھتے تو فرماتے: میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو۔ بخدا اس کی شان نرالی ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بیٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل و حرکت دیکھ کر خوش ہوتے۔’’

(الرحیق المختوم: صفحہ ۱۰۶، مطبوعہ دار السلام، سن اشاعت غیر موجود)

یہ واقعہ آپ کی عمر کے ۶ برس سے لے کر ۸ برس کی عمر تک کا ہے۔ ۸ برس کی عمر میں جب آپ ﷺ کے شفیق دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوگیا تو آپ اپنے شفیق چچا حضرت ابو طالب کی کفالت میں چلے گئے۔ اہل سیر نے اس دور میں بھی ان کی سعادت اور برکت کے ایک  واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جس صفی الرحمن مبارکپوری نے ‘‘روئے مبارک سے فیضان باراں کی طلب’’  کا عنوان دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘ابن عساکر نے جلہمہ بن حرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ میں آیا۔ لوگ قحط سے دو چار تھے۔ قریش نے کہا : ابو طالب! وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے کال کی زد میں ہیں۔ چلئے بارش کی دعا کیجئے۔ ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے۔ بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ جس سے گھنا بادل ابھی ا بھی چھٹا ہو۔ اس کے اردو گرد اور بھی بچے تھے۔ ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی۔ بچے نے ان کی انگلی پکڑ   رکھی تھے (تھی) اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن (دیکھتے دیکھتے) ادھر ادھر سے بادلوں کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر و بیاباں شاداب ہوگئے۔

بعد میں ابو طالب نے اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد ﷺ کی مدح میں کہا تھا۔

 وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بوَجْهِهِ

 ثِمَالُ اليَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ 

 وہ خوبصورت ہیں ۔ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماوی اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔

(الرحیق المختوم: صفحہ ۱۰۶- ۱۰۷ ، مطبوعہ دار السلام، سن اشاعت غیر موجود)

اس شعر میں جہاں آپ ﷺ کے حسن و جمال کی تعریف موجود ہے وہیں اس آپ کے دیگر اوصاف کا بھی علم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ ﷺ کے تعلق سے سماجی زندگی   میں اہم سمجھے جانے والے درج ذیل دو  اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے :

۱۔  یتیموں کے ساتھ اظہار یکجہتی

۲۔ محتاجوں اور بیواؤں کا تحفظ

اس  سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ میں بچپن سے ہی ایسی عادتیں موجود تھیں جو سماجی زندگی میں قابل تعریف سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وہ اوصاف ممیزہ ہیں جن سے آپ ﷺ کی ذات والا  صفات زندگی کے ہر دور میں ممتاز ہوتی رہی ہے۔

اس حوالے سے وہ یادگار جملے بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی نے آپ سے اس وقت کہے تھے  جب آپ ﷺ پر وحی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ ﷺ گھبرائے ہوئے  اپنے گھر تشریف لائے اور آپﷺ  کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ شاید آپ کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق  ہے ۔ آپ ﷺ نے اپنی زوجہ  سے ساری تفصیلات بیان کیں تو انہوں نے برجستہ کہا :

‘‘قطعا نہیں، بخدا آپ ﷺ کو اللہ تعالی رسو ا نہ کرےگا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بند و بست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔ ’’

(الرحیق المختوم ص ۱۱۷)

ایک صالح معاشرت کے حوالے سے  اس واقعہ میں درج ذیل اوصاف کا ذکر موجود ہے:

۱۔      صلہ رحمی

۲۔  درماندوں کا بوجھ اٹھانا

۳۔  تہی دستوں کا بند و بست کرنا

۴۔  مہمان کی میزبانی کرنا

۵۔  حق کی مصیبت پر امداد

 حضرت خدیجہ آپ ﷺ کی پہلی بیوی تھیں اور انہوں نے آپ سے دوسرا نکاح آپ کے اخلاق  و کردار کے مشاہدہ اور امتحان کے بعد ہی کیا تھا اس لیے ان کی یہ گواہی یقینا سچی اور بلا مبالغہ تھی۔

صالح معاشرہ کی تشکیل کرنے والے یہ وہ اعمال ہیں جو ہر عہد میں مہذب سماج کی خوبیوں میں شمار ہوتی رہی ہے۔  اسلام نے نہ صرف ان کو باقی رکھا بلکہ اس کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے۔ یہ اعمال اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادی پہچان ہے۔

آپ ﷺ کے ان اوصاف کا اظہار  حلف الفضول کے واقعہ میں بھی ہوتا ہے جس  پر آپ ﷺ ہجرت کے بعد بھی پابند عہد تھے اور فرماتے تھے کہ اگر اب بھی کوئی مجھے اس عہد کے حوالے سے یاد کرے تو میں اس میں حاضر ہوں گا۔

سماجی زندگی کے  ضمن میں  خانہ کعبہ کی تعمیر کا وہ واقعہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب حجر اسود کو اپنی جگہ پر نصب کرنے کے معاملے میں قبائل کے درمیان تنازعہ  ہوگیا  اور بہت قریب تھا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے تلواریں نکل پڑیں جیسا کہ  ان قبائل میں اس طرح کی جنگوں کا رواج بھی تھا۔ لیکن اس سے پہلے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کل جو سب سے پہلے احاطہ حرم میں داخل ہوگا وہ اس  قضیہ کا فیصلہ کرے گا۔ خدا کی مرضی سے یہ شرف آپ ﷺ کو حاصل ہوا اور پہلا فرد جو وہاں پہنچا وہ آپ ﷺ تھے۔ صفی الرحمن مبارکپوری نے ذکر کیا ہے کہ مختلف قبائل کے لوگوں نے جب آپ کو دیکھا کہ وہاں موجود ہیں تو وہ چیخ(  اچھل ) پڑے اور بے ساختہ کہا کہ ھذا الامین رضینا ھذا محمد ﷺ۔ یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، یہ محمد ﷺ ہیں۔ ’’

 آپ کی موجودگی پر تمام قبائل نے اطمینان کا اظہار کیا اور پھر آپ نے تمام قبائل کو لے کر حجر اسود کو اپنے مقام پر نصب کیا۔ آپ ﷺ کی موجودگی پر لوگوں کا اطمینان بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ ہجرت سے قبل اعلی اخلاقی اقدار کی حامل زندگی جی رہے تھے۔ آپ کی صداقت و امانت پر لوگوں کے اعتماد کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا ذات يوم، فقال:" يا صباحاه، فاجتمعت إليه قريش، قالوا: ما لك؟ قال: ارايتم لو اخبرتكم ان العدو يصبحكم او يمسيكم اما كنتم تصدقوني؟ قالوا: بلى، قال: فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد"، فقال ابو لهب: تبا لك الهذا جمعتنا

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا: یا صباحاہ! (لوگو دوڑواس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب (دوزخسے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ ابولہب (مردودبولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لیے ہمیں بلایا تھا۔

(صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۴۸۰۱)  

          صداقت اور امانت آپ ﷺ کی ایسی شناخت تھی کہ اس سے پہلے اہل عرب کے یہاں  اس طرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صداقت اور امانت کی جو مثال آپ ﷺ نے پیش کی وہ نہ تو آپ سے پہلے ملتی ہیں اور نہ آپ کے بعد اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ مولانا نصیر الدین ہاشمی  حیدر آبادی اپنے مضمون انسان کامل میں لکھتے ہیں:

‘‘رسول اکرم ﷺ نے نبوت سے پہلے جس طرح اپنی صداقت اور راست گوئی سے امین کا لقب حاصل کرلیا تھا وہ تاریخ اسلام کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ نبوت کے بعد بھی کفار کو آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ نصر بن حارث نے اکابرین قریش سے کہا کہ محمد (ﷺ) تمہارے سامنے بچے سے جوان ہوئے ہیں ۔ وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور صادق القول اور امین تھا۔

اب جبکہ اس کے بالوں میں سفیدی آچکی  اور تمہارے سامنے یہ باتیں پیش کیں تو کہتے ہو یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے، واللہ محمد (ﷺ) میں یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ابو جہل بھی کہا کرتا تھا کہ محمد میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا البتہ تم جو کہتےہو ان کو صحیح نہیں سمجھتا۔

(بحوالہ: اہل حدیث گزٹ ، اگست ۳۸)

آپ ﷺ کی صداقت و امانت  اور ان کی بہترین سماجی زندگی کا اس سےبڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ جب مکہ کے میں آپ ﷺ کا عرصہ حیات تنگ ہوگیا اور کسی طرح بھی زندگی محفوظ نہ رہی تو اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو ہجرت کی اجازت دی۔ یہ وہ عرصہ ہے جب آپ ﷺ کے ساتھ  مکہ لوگوں کی دشمنیاں شباب پر تھیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سردران مکہ اپنے تمام اصحاب الرائے کے ساتھ دار الندوہ میں جمع ہو کر اس فیصلہ پر متفق ہوگئے تمام قبائل کے لوگ بیک وقت آپ ﷺ  پر حملہ آور ہوں تاکہ ہاشمی قبیلہ کسی سے بدلہ نہ لے سکے اور دیت پر راضی ہوجائے۔ لیکن ایسے وقت میں بھی انہی لوگوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو آپ کی صداقت و امانت پر اتنا یقین رکھتے تھے کہ اپنی قیمتی چیزیں آپ کے یہاں بطور امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ چنانچہ جب آپ ﷺ  ہجرت کرنے لگے تو آپ نے وہ سامان حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے حوالے کئے کہ ہجرت کے بعد وہ ان کے مالکوں تک پہنچا دی جائیں۔

                یہ آپ ﷺ کی مکی دور میں سماجی زندگی کے چند درخشاں پہلو ہیں۔ آپ کی سیرت مبارکہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے سن شعور کے سنبھالنے کے ساتھ ہی ایک مصفی و مجلیٰ زندگی اختیار کی اور سماج کی فلاح و بہبود کے کاموں کے ساتھ اخلاق و کردار کا اعلی نمونہ پیش کیا جس نے آپ کی نبوت کے سچے دعوے  کو جھٹلائے  جانے کے باوجود آپ کے کردار اور صداقت و امانت پر حرف نہ آنے دیا۔

آپ ﷺ کے ان اخلاق حمیدہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم ہر شعبہ میں اور عمر کے ہر عہد میں  اپنی زندگی کو اخلاقی نہج پر استوار کریں اور اپنی شخصیت  کو اتنا مستحکم بنائیں کہ ہمارا وجود اپنے ملک اور اپنی زمین کے لیے بابرکت ثابت ہو اور ہمارا کردار  ہی داعیانہ ہوجائے جیسا کہ آپ ﷺ نے مکہ کہ اپنی ترپن (۵۳)  سالہ زندگی میں  کر کے دکھایا کہ غیر موافق حالات میں بھی  آپ کے سماج کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ھذا الامین رضینا، ھذا محمد (ﷺ)

***


Thursday, 28 November 2024

دارجلنگ کی سیر کی سیر

 


’دارجلنگ کی سیر‘  کی سیر

نظام زندگی کو سمجھنے کے لیے زمین کی سیر کرنا اور تدبیر کائنات کا مشاہدہ کرنا ذی نظر انسان کی تقریبا جبلت میں شامل رہا ہے۔  یہ انسانوں کے لیے اتنا اہم  ہے کہ  قرآن نے بھی کئی مقامات پر  ’’سیروا فی الارض فانظروا‘‘  کا درس دیا ہے۔ تسخیر کائنات کی کاوش اسی مشاہدہ و معائنہ  کا نتیجہ رہا ہے۔ اپنی زمین سے نکل کر دوسرے خطہ ارض میں جانے کے بعد انسان کو  نہ صرف فطرت کی صناعی اور قدرت کی کاریگری کا معائنہ کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ قدرتی وسائل کو انسانی ہاتھوں نے  جس خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے دیکھنے والوں کی فکر مہمیز ہوتی ہے۔ دیگر  خطہ ارض کے باشندوں کی بود و باش، بول چال، رہن سہن، اشیائے خورد ونوش  اور ان کا طریقہ استعمال، پہننا اوڑھنا گویا جملہ اطوار زندگی سے متعارف ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس سے دیکھنے والوں کی طرز حیات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ معیشت میں بہتری آتی ہے۔روزگار اور  اقتصادیات کے بھی نئے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ قوموں کے ساتھ میل جول کے باعث خوب و زشت کی پرکھ ہوتی ہے اور انسان کی  فکر میں لچک اور توسع پیدا ہوتا ہے۔ الغرض ان سب سے انسان اعلی طرز زندگی کی طرف پیش رفت کرتا ہے۔

                لیکن یہ دنیا اتنی کشادہ ہے کہ راہ نوری اور جادہ پیمائی کے جدید ترین جملہ وسائل کی دستیابی کے باوجود اس عالم رنگ و بو کی دشت پیمائی کے لیے انسان کی حیثیت  اب بھی پا پیادہ کی ہے۔ لہذا اب تک کی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے جنہوں نے  پوری دنیا تو دور دنیا کے قابل ذکر حصوں کی زمین کو ہی اپنے پاؤ ں سے  آلودہ   کیا ہو۔ اہل نظر نے  اس کی تلافی سفرناموں اور سیر و سیاحت کی روداد سے کی ہے۔ سفر اور اس کی روداد اتنی دلچسپ ہوتی ہے کہ گمان غالب یہ ہے کہ جب تحریر کا وجود نہیں رہا  تھا  تب بھی سفر کرنے والے لوگ واپسی پر اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے درمیان چٹخارے لے لے کر  روداد سفر بیان کرتے رہے ہوں گے اور لوگ بھی انہماک سے سنتے رہے ہوں گے۔  یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں سفرناموں کو اہمیت حاصل رہی ہے۔  دنیا تیزی سے بدلتی رہی ہے ۔ آج سے ہزاروں سال قبل کوئی خطہ جیسا رہا ہوگا اس میں اب بڑی تبدیلی آچکی ہوگی ، اس کے باوجود ہزاروں سال قبل کے سفرناموں کا آج بھی   لوگ شوق  سے مطالعہ کر کے تصور کی آنکھوں سے  سیر فی الارض کا لطف لیتے ہیں۔ ابن بطوطہ  اور البیرونی وغیرہ کا مطالعہ آج بھی بڑے شوق سے کیا جاتا ہے۔ اس وقت لوگ کس طرح سوچتے تھے، کس طرح رہتے تھے، علم و معرفت کی سطح کیا تھی، معیشت کے  کیا ذرائع تھے، خواتین کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا تھا، غلاموں اور باندیوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، یہ سب چیزیں پڑھ کر لوگ بصیرت و آگہی حاصل کرتے ہیں۔

زیر نظر کتاب دارجلنگ کی سیر ڈاکٹر مجیر احمد آزاد کی نئی تصنیف ہے  جس کو انہوں نے سفرنامہ کا نام دیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ انہوں نے دار جلنگ کی سیر کے بعد یہ سفر نامہ تحریر کیا ہے۔ جس طرح ان کا یہ سفر مختصر رہا ہے اسی طرح محض  اڑتالیس صفحات پر مشتمل  یہ سفر نامہ  مختصر ہے۔

زیر نظر سفرنامہ گرچہ مختصر ہے لیکن کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑی گہرائی سے چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ مقام مذکور میں کون کون سی جگہیں سیر کرنے کی ہیں اور کس جگہ کی کیا خصوصیات ہیں اس کو بڑی باریکی سے پیش کیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے جزویات  کو بیان کرنے  سے  کسی حد تک گریز کیا ہے لیکن جہاں بھی انہوں نے جزویات کو شامل کیا ہے بڑی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔چنانچہ  ٹائیگر ہل کے بیان میں انہوں  نے نمود صبح کے شاعرانہ منظر کی جو خوبصورت عکاسی کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے گرچہ موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ اس منظر کو دیکھنے سے محروم رہے۔

ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے ایک مقام سے دوسرے مقام کی دوری، گھومنے والی جگہوں پر کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی، ٹکٹ، گاڑیوں کی دستیابی، ان کا کرایہ، گھومنے کا  مناسب اور موزوں وقت وغیرہ کی طرف بہت اچھی رہنمائی کی ہے۔  سیر و سیاحت میں ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ مصنف نے کفایتی سفر کیا ہےا ور پڑھنے والے اس کے ذریعہ کفایتی سفر کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ انہوں نے مختلف جگہوں کی تاریخی حیثیت کو بھی بتانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کا دوسرا سفر تھا۔ پہلے سفر اور دوسرے سفر کے درمیان جو تبدیلیاں نظر آئی ہیں ان کی طرف بھی انہوں نے اشارہ کیا ہے۔ چائے باغان کے سلسلے میں بھی ان کے جو تجربات ہیں وہ بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔

کتاب میں زبان تکلف اور تصنع سے پاک اور بیان میں بے ساختگی اور روانی ہے۔ حالانکہ چند ایک مقامات پر وہ تکلف کی زحمت گوارا کرلیتے تو بے جا نہیں تھا۔ بالکل بول چال کی زبان میں انہوں نے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ شاید اسی وجہ سے کتاب قاری کو ابتدا سے انتہا تک جوڑے رہتی ہے۔ انہوں نے کتاب میں کئی جگہوں کی تصویریں بھی شامل کی ہیں۔ تصویریں رنگین ہوجاتی تو شاید لطف اور بھی بڑھ جاتا۔  بہر کتاب لطف سے خالی نہیں ہے۔ مختصر ہونے کی وجہ سے ایک نشست میں پڑھی جاسکتی ہے اور دارجلنگ کی سیر کا تصور کی آنکھوں سے لطف لیا جاسکتا ہے۔  طباعت عمدہ ہے اور قیمت فی صفحہ  فوٹو اسٹیٹ سے زیادہ نہیں ہے۔

Sunday, 10 March 2024

تعلیم میں میڈیا کا رول The Role of Media in Education

تعلیم میں میڈیا کا کردار

تعلیم و تعلم انسانی زندگی کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کا عمل ہے۔ تعلیم سے انسان دنیا کی ترقی اور دنیا میں جینے کے طریقے سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ خود کو سوسائٹی اور ماحول کے مطابق ڈھالنے کے لائق بناتا ہے۔ وہ معاشرہ کی سطح زندگی کو فکری، عملی ، تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھانے اور بہتر بنانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتا ہے ۔اس کے ذریعہ انسان اس کائنات کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے مسخر کرنے کا اہل بنتا ہے۔ دنیا کی یہ ساری ترقیاں جو ہماری نظروں کے سامنے ہیں؛ جن سے ہم انفرادی یا اجتماعی سطح پر فائدہ اٹھا رہے ہیں ؛ یہ سب زندگی کو سہل بنانے کی کوششیں ہیں۔ بلاشبہ یہ سبھی ہمیں آگاہی اور تسخیر کائنات کی کوششوں کے نتیجے میں ہی حاصل ہوئی ہیں۔

اس کے بالمقابل میڈیا بھی انسان کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کا ہی میڈیم یا ذریعہ ہے۔ میڈیا سے نہ صرف اپنے آس پاس بلکہ دنیا میں (حالانکہ انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کو آس پاس ہی کر دیا ہے) کہیں بھی ہونے والی چھوٹی موٹی واردات سے لے کر بڑے بڑے واقعات، حادثات، سانحات ، ایجادات، دریافتوں اور آنے والے دور میں انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے ان کے فوری اور دور رس اثرات سے فوری طور سے آگاہی ہوتی ہے۔ ان کو ہم کلاس روم میں بیٹھ کر یا نصاب کی کتابیں کھول کر اسی لمحے نہیں جان سکتے ہیں۔جبکہ میڈیا اسی لمحے ہمیں یہ جانکاری دیتا ہے۔ یہ چیزیں کتابوں میں اس وقت آتی ہیں جب ان کو اپڈیٹ کر کے نئے ایڈیشن میں شامل کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی دیر میں دنیا آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم ان معلومات کو حاصل کرنے کے لیے نصابی کتابوں کے بھروسے رہیں گے تو ہماری زندگی اپنے عہد سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتی ہے۔ کتابیں ہمیں ‘ماضی بعید ’سے ‘ماضی قریب ’ تک ؛جو ‘حال ’ کے آس پاس ہوتا ہے ، لے کر آتی ہیں، جبکہ میڈیا ہمیں ‘حال’ سے لے کر ‘مستقبل’ تک لے جاتا ہے اور یہی ‘حال’ آگے چل کر ‘ماضی’ بن جاتا ہے۔ ماضی’ کیا ہے؟ یہی تو تاریخ (History) ہے جس میں واقعات ترتیب اور تسلسل کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں جن کو کتابوں میں پڑھا جاتا ہے۔ گویا تعلیم اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ چند مثالوں سے اس کو مزید واضح کر کے سمجھا جاسکتا ہے۔

مثلا: آزادی ہند کی تاریخ ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس تاریخ کی تشکیل کے پرائمری سورس میں میڈیا بھی شامل ہے۔میڈیا عمومی طور پر بھی تاریخ کے پرائمری سورس میں شامل ہے۔ البتہ دور حاضر کے میڈیا کے اعتبار اور صداقت کے حوالے سے سوالات قائم کئے جاسکتے ہیں۔  میڈیا ہر دن کی تاریخ مرتب کرتا ہے اور ایک عرصہ کے بعد ایک تسلسل میں اس کو پرو دیا جائے تو مربوط تاریخ بن جاتی ہے۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کی ہر تاریخ - قدیم یا جدید - اگر وہ اخبارات کی اجرائی سے قبل کی نہیں ہے، تاریخ  بننے سے قبل وہ میڈیا کا حصہ بنی ہے۔ تاریخ کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ محض واقعات کا تسلسل و ترتیب میں اعادہ نہیں بلکہ اس سےقوموں کے عروج و زوال اور کشمکش کا ادراک ہوتا ہے۔ اس سے انسان کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کن اصولوں اور ضابطوں  کی بنیاد پر زندگی کی بنیاد رکھے جو اس کو داخلی اور خارجی خطرات سے بچاتے ہوئے سماج اور معاشرہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے اور سماج کے ہر فرد کو اس کی زندگی میں وقار بخشتے ہوئے مساوی مواقع فراہم کرے۔  بلا شبہ تعلیم کے جملہ مقاصد میں یہ ایک اہم اور مقدس مقصد ہے۔ ماضی یا تاریخ سے سبق لیتے ہوئے پیشگی طور پر کسی اقدام وعمل کے نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا جہاں روز مرہ کے واقعات، حادثات اور سانحات سے واقف کراتا ہے وہیں اس میں ایک جزو ایسا بھی ہوتا ہےجس میں واقعات کے پیچھے یا خبروں کے بین السطور کار فرما عوامل کی نشاندہی ہوتی ہے۔اس میں مستقبل کی طرف رہنمائی یا پیشین گوئی بھی ہوتی ہے جو کسی واقعہ یا سرگرمی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔ تجزیے اور اداریے اس کی مثالیں ہیں۔ تاریخ کی تدریس کے عمل میں طالب علم کو اپنے عہد سے جوڑنے کے لیے میڈیا کا یہ حصہ بہت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔

اسی طرح موجودہ وقت میں سائنسی دریافتیں یا ایجادیں جو بعد میں نصاب کا حصہ بنتی ہیں پہلی مرتبہ میڈیا ہی ان کو عوام کے سامنے لاتا ہے۔ ۲۳ ؍اگست ۲۰۲۳ کو ہندوستان نے ایک بڑی تاریخ رقم کی۔ چندر یان ۳ کو چاند پر کامیابی کے ساتھ لینڈ کرایا گیا۔ اس پورے عمل کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لوگوں، سائنس دانوں اور اہل علم نے دیکھا۔ یہ لائیو ٹیلی کاسٹ طلبہ کے لیے بھی دلچسپی کا مرکز تھا۔ ایک ایک چیز جس تفصیل اور باریکی سے بیان کی گئی وہ بچوں کی تعلیم کا حصہ بننے کے ساتھ عوام کی جانکاری کا ذریعہ بھی بنی۔ ظاہر ہے کہ ان کی معلومات اس تفصیل اور جزئیات کے ساتھ اسی لمحے کلاس روم اور کتابوں کے ذریعہ حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد انسان کو سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے جوڑے رکھنے میں بھی میڈیا مؤثر ذریعہ ہے۔

تعلیم کو فروغ دینے اور کلاس روم کے عمل کو سہل بنانے میں رسائل و جرائد کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ ہر زبان میں ایسے درجنوں رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں جو بچوں کی سطح معلومات اور عمر کو سامنے رکھ کر شائع کئے جاتے ہیں۔ ان میں معلومات عامہ کے ساتھ سائنس، ریاضی اور عمرانیات وغیرہ جیسے موضوعات پر مبنی کہانیاں اور مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ زبان کو سیکھنے اور زبان پر عبور حاصل کرنے میں بھی ان رسائل و جرائد کی اہمیت رہی ہے۔ ہندی اور انگریزی زبان میں چمپک اور انگریزی میں وزڈم جیسے رسائل سے تو اکثر طالب علم واقف ہیں۔اردو میں بھی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے نکلنے والا رسالہ‘ بچوں کی دنیا’ کے علاوہ ‘امنگ’،‘پیام تعلیم’، ‘نور’، ‘بتول’ اور غنچہ جیسے کئی رسالے ہیں جنہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف سائنس داں ڈاکٹر اسلم پرویز کی ادارت میں ماہنامہ سائنس تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس کا مقصد طلبہ میں سائنسی سوچ کو فروغ دینا ہے۔ اس رسالے میں بھی ایسے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن کے مطالعہ سے طالب علم اپنے سائنسی مضمون کے مختلف اسباق کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔  

کئی اچھے اخبارات بھی ہفتہ میں ایک دن ایسا ضمیمہ شائع کرتے ہیں جس میں بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے اور جو تدریسی اور تعلیمی اہمیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ روزنامہ انقلاب میں سنیچر کو ایسا ضمیمہ شائع ہوتا ہے جو بچوں کی کشش اور دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔ کئی اخبارات امتحانات کے وقت نمونہ سوالات شائع کرکے بچوں کی تعلیم کو اور امتحان کو سہل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

میڈیا کے ضمن میں ان کہانیوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بچوں کی تعلیم و تدریس کے مد نظر تحریر کئے جاتے ہیں۔ گرچہ موجودہ دور میں بچوں میں بھی بڑوں ہی کی طرح کتاب سے دلچسپی کا رجحان تیزی سے کم ہوا  ہے جو انتہائی تشویشناک  بات ہے۔ ایسے دور میں جبکہ کتاب سے بچوں کی دلچسپی ختم ہو رہی ہے، ایسے کئی ادارے سامنے آئے ہیں جو آن لائن ڈجیٹل کتابیں دستیاب کرا رہے ہیں تاکہ  بچے آن اسکرین کتابوں سے جڑ سکیں۔اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں بچوں کے لیے وقت اور جگہ کا مسئلہ نہیں رہتا۔ وہ کہیں بھی ہوں  اگر ان کے ہاتھ میں آن لائن مطالعہ کے لیے ڈیوائس موجود ہے تووہ اپنا مطالعہ جا ری رکھ سکتے ہیں۔

 اسی تناظر میں تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی رضاکار تنظیم پرتھم بکس کا ذکر بطور خاص کیا جاسکتا ہے جس نے اپنی اور مختلف پبلشروں کی تقریبا ۶۰ ہزار کتابیں اپنے پلیٹ فارم پر شائع کی ہیں اور جو تین سو اکیاون (۳۵۱) زبانوں میں موجود ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ گیارہ ہزار کتابیں سائنس اور نیچر کے موضوع پر ہیں۔ دو ہزار تیرہ کتابیں ریاضی کے موضوع پر ہیں۔ بتیس سو ترپن (۳۵۵۳) کتابیں سرگرمیوں پر مبنی ہیں۔ اس طرح کل اڑتیس (۳۸) زمروں میں کتابیں موجود ہیں جو درسیات کو مد نظر رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں اور یہ ساری کتابیں آن اسکرین مطالعہ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد میں مطبوعہ کتابیں بھی ہیں۔ ۔ حالانکہ اس سے مطبوعہ کتابوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔ ان  کی اہمیت ہر حال میں برقرار ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گی۔

تعلیم اور میڈیا کے حوالے سے ریڈیو کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ریڈیو کی ایجاد انسانی ترقی کو تیز کرنے میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ گرچہ دور حاضر میں ٹیلی ویژن اور میڈیا کے دیگر تیز اور آسان ذرائع کے فروغ کے بعد ریڈیو کا استعمال کم ہوگیا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں کو دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر کرنے اور سامان تفریح فراہم کرنے میں ریڈیو نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی دیہی علاقوں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان یہ میڈیم بہت کار گر ہے اور اس کا استعمال بھی ہورہا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دیگر کام کو انجام دیتے ہوئے بھی اس میڈیم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔  ریڈیو کے ذریعہ جہاں عوامی بیداری میں بھی اضافہ ہوا وہیں تعلیم کو فروغ دینے میں اس کا رول ناقابل فراموش ہے۔ ریڈیو پر کئی طرح کے تعلیمی پروگرام نشر  اور پسند کئے جاتے رہے ہیں۔ ریڈیو کو اچھی زبان سیکھنے میں بھی معاون سمجھاجاتا رہا ہے۔ پرانے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ماہرین انگریزی زبان تلفظ کی درست ادائیگی سیکھنے کے لیے طلبہ کو ریڈیو کی انگریزی خبروں کو سننے کا مشورہ دیتے تھے۔

زبان کے حوالے سے یہ ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ وقت میں اساتذہ میں زبان کی خامیاں بہت زیادہ ہیں۔ نہ صرف تلفظ کی ادائیگی کی سطح پر بلکہ قواعد کی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر کمزوری پائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ کی اپنی زبان درست نہیں ہوگی تو طلبہ پر اس کے برے اثرات پڑنے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 

بچوں کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویزن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۱ میں یونسیف کی جانب سے نشریات اطفال کا بین الاقوامی دن(International Children's Day of Broadcasting) منانے کا اعلان کیا گیا۔ ۲۰۰۸ میں یہ دن مئی کے پہلے اتوار کو منایا گیا اور ۲۰۰۹ سے مارچ کے پہلے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ براڈ کاسٹروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس دن بچے کے لیے زیادہ سے زیادہ نشریہ پیش کریں۔ اس دن کے موقع پر براڈ کاسٹنگ میں بچوں کی بھی شرکت ہوتی ہے ۔

براڈ کاسٹر بچوں کو اس کی اجازت دیتے رہے ہیں کہ وہ پروگرامنگ کے عمل میں شامل ہوں اور اپنے ساتھیوں اور ہمجولیوں سے اپنی امیدیں اور اپنے خواب سے متعلق معلومات شیئر کریں۔

          1994میں یونیسیف نے انٹرنیشنل چلڈرنس ڈے آف براڈ کاسٹنگ ایوارڈ دینے کے لیے انٹرنیشنل اکیڈمی آف ٹیلی ویزن اینڈ سائنس میں شرکت کی۔ یہ انعام ایسے ٹیلی ویزن ناشر کو دیا جاتا تھا جنہوں نے نشریات اطفال کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے بہترین پیشکش نشر کرتے ہوئے مشن کو آگے بڑھایاہو۔ 2008کے بعد یونیسیف نے خود ہی ٹیلی ویزن اور ریڈیو کی خدمات کے اعتراف میں آئی سی ڈی بی ایوارڈ دینا شروع کردیا ۔

          ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے عالمی مسائل کو اجا گر کرنے اور ان کا حل کی طرف رہنمائی کرنے  میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے اور بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ یونیسیف براڈ کاسٹروں سے یہ اپیل بھی کرتا ہے کہ وہ تمام بچوں کی ترقی میں اہم رول ادا کریں۔ ایسے دستاویزی پروگرام پیش کریں جن سے بچوں کے حالات اور ان کے امنگوں کی عکاسی ہوسکے۔ جنسی تعصب اور امتیازات کا خاتمہ ہوسکے اور ایسے پروگرام پیش کئے جائیں جو ان کے لیے سبق آموز ہونے کے ساتھ تفریح سے پر ہوں۔ ٹیلی ویزن اور ریڈیو بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک بامقصد اور مثبت ذریعہ ہیں۔

 فی الوقت ٹیلی ویژن پر ایسے بہیترے ٹیلی ویزن پروگرام موجود ہیں جن سے بچوں کی تعلیم وتدریس کا کام لیا جا رہا ہے۔

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ ہندوستان زراعت پر مبنی نظام کا حامل ملک ہے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا نے ملک کے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے واقف کرانے میں بھی بہت اہم کر دار ادا کیا ہے۔

 تعلیم میں میڈیا کے رول کے حوالے سے کرونا کے عہد کا ذکر بھی ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ جب تعلیم گاہوں میں تالے پڑے تھے یہ میڈیا ہی تھا جس نے بچوں سے لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے تعلیم کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح چھوٹے بچوں سے لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے ایسے کئی ایپ موجود ہیں جو کلاس روم کا متبادل بن چکے ہیں۔ یوٹیوب پر ہزاروں تعلیمی ویڈیو موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر طلبہ اپنی لیاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ آزادی کے ۷۵ برس گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارے ملک میں صد فیصد خواندگی کی شرح نہیں آ پائی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی مجموعی شرح خواندگی ۲۰۲۲ء تک ۷۷ ؍ اعشاریہ ۷۰ فیصد ہے جبکہ بہار کی شرح خواندگی ۶۱؍ اعشاریہ ۸۰ فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بلاشبہ مایوس کن ہیں۔ ایسے حالات میں میڈیا کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ان لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں میڈیا اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جو تعلیم کی اہمیت سے نا واقف ہیں۔ دوسری طرف میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے علاقوں اور ایسے گھرانوں کا سروے کر کے حکومت کو باخبر کرائے جہاں کے بچے تمام سرکاری سہولیات کے باوجود اسکول نہیں جا رہے ہیں یا پھر ایسے بچوں کی نشاندہی بھی میڈیا کے ذریعہ کی جاسکتی ہے کہ جن کے لیے حکومت کی یہ سرکاری سہولیات ناکافی ہیں۔ آج بھی ایسے Slum Areas موجود ہیں جہاں کے بچے کوڑے چننے، گلیوں میں آوارہ پھرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے لوگوں  کے مسائل کو سامنے لانے میں میڈیا نے رول ادا کیا ہے تاہم مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔

میڈیا کی حیثیت تعلیم کے لیے ایک محتسب کی بھی ہے۔ چھوٹی یا مقامی سطح پر یہ کام میڈیا کے ذریعہ کیا بھی جاتا ہے۔لیکن اس کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس نام پر تعلیمی عمل کا احتساب کرنے کی بجائے کچھ اور چیزوں کی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر میڈیا ایمانداری سے احتساب کا عمل انجام دے اور اپنے کام میں مخلص ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی عمل پر اس کا مثبت اثر پڑے گا اور معیاری تعلیم کے فروغ میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہوگا۔

تعلیم کو بہتر، آسان اور تمام لوگوں تک اس کی رسائی کے لیے حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ آزادی کے بعد ۱۹۶۸، ۱۹۸۶ اور ۲۰۲۰ میں نئی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ بلاشبہ ان پالیسیوں کے مثبت اثرات ہندوستان کی تعلیم پر مرتب ہوئے ہیں ۔اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان پالیسیوں کے اہداف کی صد فیصد تکمیل نہیں ہوپائی ہے۔ ساتھ ہی ان پالیسیوں کے نتیجے میں نصاب تعلیم کی تشکیل میں کئی بار تہذیب اور تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے وقت میں منصفانہ جائزہ لیتے ہوئے ان پالیسیوں میں شامل ایسی کوششوں کی نفی کرے اور حکومت کو باور کرائے کہ یہ عمل ہندوستان کے لیے کتنا نقصاندہ ہے۔

 میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پالیسیوں کا زمینی حقائق سے موازنہ بھی کرے اور پالیسی سازوں،محکمہ تعلیم اور حکومت کے ساتھ عوام کو یہ بتائے کہ پالیسی کا کون سا جزو کتنا مؤثر یا غیر مؤثر ہے۔میڈیا میں ماہرین اس کا جائزہ لیتے بھی ہیں لیکن اسکولوں میں جا کر اور ان کا نزدیک سے مشاہدہ کر کے جائزہ لینے کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ تعلیم گاہوں میں جا کر ان کا محاسبہ کرے اور ایک سچا تجزیہ پیش کرے جو ہندوستان کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکے۔

الغرض میڈیا کا دائرہ کار بڑا وسیع ہے اور زمرہ کے اعتبار سے بھی اس میں بڑا تنوع ہے ۔ ان تمام قسموں اور تعلیم پر ان کے اثرات بھی کثیر الجہات ہیں۔ ایک طرف ان میں کئی ذرائع ایسے ہیں جن کو درس و تدریس کے لیے راست طور پر کام میں پر لایا جاسکتا ہے تو دوسری طرف تعلیم کے تئیں  عوامی بیداری لانے کی حیثیت سے بھی ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور ہوتا بھی رہا ہے۔ لیکن ان سب کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ تاہم میڈیا اور تعلیم کے مابین انسلاکات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ تعلیمی عمل میڈیا کے بغیر ناقص اور ادھورا ہے۔

***

 

 یہ مضمون اورینٹل کالج آف ایجوکیشن (شیشو)، دربھنگہ میں منعقد دو روزہ سیمینار بعنوان اکیسویں صدی کے لیے تعلیم کی تشکیل نو  بتاریخ  ۹؍ ۱۰ مارچ ۲۰۲۴  کے لیے کالج کی دعوت اور مطالبہ پر  لکھا گیا اور لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سیمینار میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ 

 

 

 

 

 

 


Monday, 5 September 2022

क्या शिक्षकों अपने कार्य से संतुश्ट हैं?

क्या शिक्षक अपने कार्य से संतुष्ट हैं?

 

आज 5 सितम्बर है। शिक्षक दिवस। शिक्षकों के प्रति सम्मान का दिन। इस अवसर पर सभी शिक्षकों को बधाई! इस विशेष अवसर पर छात्रों ने हमें सम्मान दिया। राष्ट्रपति, राज्यों के राज्यपालों और जिलों के जिला मजिस्ट्रेटों ने भी शिक्षण के क्षेत्र में हमारी मूल्यवान सेवाओं को स्वीकार किया।  हम आज ही नहीं हर दिन और हर पल अपने छात्रों द्वारा सम्मान के पात्र हैं। सरकार और समाज की ओर से सम्मान के पात्र हैं। आज के दिन सम्मान को स्वीकार करते हुए हमें अपनी समीक्षा करने की आवश्यकता है कि हम अपने कार्य से कितने संतुष्ट हैं? क्या हमें संतुष्टि है कि हम पूरी निष्ठा से अपने कर्तव्यों का निर्वहन कर रहे हैं? सादा दिल छात्रों ने आज जिस प्रकार से हमें सम्मानित किया, वही छात्र जब इस लायक हो जाएगा कि वह अपने भले-बुरे को समझ सके और अपने पिछले दिनों की समीक्षा करे तब भी वह हमें इसी सम्मान के साथ याद करे और कहे कि वह जो कुछ है हमारे ही एहसान और प्रयासों का परिणाम है? यदि हमे यह संतुष्टि है और हमारा दिल अपने कार्यशैली पर संतुष्ट है तो इस दिवस की बधाई! बारंबार बधाई।

परंतु अगर हम आज स्वयं अपने कार्यशैली से संतुष्ट नहीं हैं और अगर अभी हमारे सीने में दिल हम से यह कह रहा है कि हमने उस गीली मिट्टी को बिगाड़ दिया है जिसमें कुछ बनने की क्षमता थी, उस के अंदर मौजूद बल-शक्ति को हम बर्बाद कर रहे हैं और जो हम उनके साथ कर रहे हैं वही अगर हमारे साथ होता तो हम उस पर क्या करते, तो हम अपने कार्यशैली में बदलाव ले आएं क्योंकि यह भोले-भाले छात्र आज हमारा चाहे जितना सम्मान करें, जब यह बड़े होजाएंगे और इनका भविष्य तबाह हो चुका होगा तो वे हमें मुआफ नहीं करेंगे। वे हमारे सामने से गुजरेंगे हैं और उनकी नजर हमारे एहसान से झुकेगी नहीं बल्कि उनका सीना अकड़ा हुआ होगा और हमारी ओर घृणा की दृष्टि से देखेंगे। सोचिए उस समय हमारे दिल पर क्या बीतेगी। हमें यह भी बताने की आवश्यक्ता नहीं कि चीजों को बेकार छोड़देने का नुकसान केवल यह नहीं है कि वह काम में नहीं लाई गई बल्कि इसके अंदर जो बल-शक्ति मौजूद थी वह नष्ट हो गई और उस बल शक्ति से स्वयं उसके साथ मानव जीवन को जो लाभ होता एवं विश्व के विकास की गति को तेज करने में जो मदद मिलती वह भी नष्ट हो गई।

क्षमा चाहते हैं, अगर हम इस लायक नहीं है कि गीली मिट्टी को सुंदर रूप दे सकें तो अपने पेशे को छोड़ दें। कोई और काम ढूंढ लें मगर दुनिया में खराब उत्पाद कर देश और समाज के सौंदर्यबोध को नष्ट न करें।

हमारी स्थिति एक कुम्हार की है। हमारे सामने मिट्टी है। हमेंइस मिट्टी से बर्तन बनाना है तो खराब बर्तन तैयार होने से बेहतर है कि न बने। यदि हम खराब बर्तन बनाकर बाजार में उतारेंगे तो यह न बिकेंगे। यदि हमें बनाना ही है तो खराब बनाने  से बेहतर है कि अच्छा बनाएं। इससे हमारे दिल को संतोष होगा। हम अपने हाथ से बनाई हुई चीजों को देखकर खुश होंगे और हमारा दिल हमें संतुष्टि देगा। लेकिन बेहतर तब होगा जब हम चाहेंगे और जब हम में बेहतर बनाने का कौशल होगा। कौशल या हुनर कोई माँ के पेट से लेकर नहीं आता है। वह सीखता है अपने अंथक प्रयासों से। हम प्रयास करेंगे तो हुनरमन्द हो जाएंगे। और जब हुनरमन्द नहीं होंगे तो हम बेहतर नहीं बना सकते हैं।

मिट्टी भी अलग अलग प्रकार की होती है। कौन मिट्टी कितनी गीली होगी और कितनी गोदी जाएगी तो बर्तन अच्छे होंगे यह तभी पता चलेगा जब हम हुनरमन्द होंगे। बच्चे भी कच्ची मिट्टी के समान हैं जो कुछ बन्ने की क्षमता रखते हैं। उन्हें हम चाहें तो संवार दें और चाहें तो बिगाड़ दें। अगर संवार देंगे तो हमारे दिल को संतोष होगा और अपने उत्पाद पर प्रसन्न होंगे और अच्छे उत्पाद के लिए हमको ग्राहकों से अच्छा मुल्य प्राप्त होगा वहीं समाज की ओर से पुरस्कृत भी होगें।

                छात्र भी सभी प्रकार के होते हैं। अलग-अलग प्रकार के छात्र के लिए अलग-अलग प्रकार की कौशल की आवश्यक्ता है। हमें उनकी खूबियों और खामियों और उनकी क्षमताओं को पहचानना होगा तभी हम उन्हें उनकी क्षमता के अनुसार ढाल सकते हैं।

मुझे एक कहानी याद आ रही है। एक शिक्षक थे। बड़े ज्ञानी और दार्शनिक। वह अपने छात्रों का बहुत सम्मान करते थे। एक बार उनके मित्रों ने कहा कि भाई तुम बच्चों को इतना सम्मान क्यों देते हो? उस ने एक ठंडी सांस भरी और कहा कि तुम नहीं जानते कि मेरे सामने अपने समय के अपने विषयों के विशेषज्ञ बैठे हैं। उनमें कोई विज्ञानिक होगा। कोई बड़ा फलास्फर होगा। कोई दक्ष शिक्षक होगा और कोई बड़ा चिकत्सक तो कोई बड़ा इंजीनियर। कोई किसी चीज का आविष्कारक होगा। जिस से मानव जीवन को लाभ होगा। उस समय शायद मैं जीवित न रहूं कि उनका सम्मान कर सकूं। इसलिये मैं आज ही उनका सम्मान कर लेता हूँ।

इस कहानी में सामने की बात यह है कि अपने विद्यार्थियों का सम्मान किया जाए ताकि हम उन्हें दूसरों का सम्मान करना सिखाएं। जब वे दूसरों का सम्मान करेंगे तो हमारा भी सम्मान करेंगे और स्वयं अपना सम्मान करना भी सीख जाएंगे। क्योंकि कोई व्यक्ति अपना सम्मान किये बिना समाज में सम्मानित व्यक्ति के रूप में अपनी जगह नहीं बना सकता। यह हमारे लिए भी गर्व की बात होगी कि हमारा विद्यार्थी समाज और देश का प्रतिष्ठित नागरिक है। लेकिन सबसे महत्वपूर्ण बिंदु यह है कि शिक्षक के सामने लक्ष्य क्या था? वह अपने बच्चों को बनाना क्या चाहता था? और वास्तव में वह जो चाहता था और जिस का वह प्रयास भी करता था वही अपने बच्चों में समय से पूर्व देखता भी था। वह अपने जिस बच्चे में जो गुण देखता था उसको वह मर्तबा भी देता था। ऐसा इसलिये था कि वे अपने प्रयासों से संतुष्ट था, उसने अपनी गलतियों पर काबू पालिया था और निरंतर प्रयासों से अपने काम में दक्ष हो चुका था। अब वह हर छात्र की छिपी क्षमताओं का सही आकलन कर लेता था और उसी के अनुसार उस पर मेहनत करता था। उसे विश्वास था कि वह जो बनाना चाहता है वह बनेगा ही।

जब तक हम अपने बच्चों के प्रति उच्च लक्ष्य निर्धारित नहीं करेंगे तब तक बड़े या अच्छे परिणाम की आशा कैसे की जासकती है? अगर हम अभी से अपने बच्चों से निराश होंगे तो कैसे उम्मीद कर सकते हैं कि हमारे छात्र अपने विषय के विशेषज्ञ होंगे। जब हम किसी वृक्ष से निराश हो जाते हैं तो उसमें पानी देना छोड़ देते हैं। जब जड़ ही सूख जाएगी तो उसकी शाखाएं कहाँ हरी होंगी। हम अपने बच्चों से कभी निराश न हों। हम निराश हो जाएंगे तो उसका दिल पराजित हो जाएगा और फिर वह कहाँ से सफल हो पाएगा।

प्रायः देखा जाता है कि बच्चों के अंदर उबलती हुई बल-शक्ति उसकी रचनात्मकता से मिलकर जब कोई सकारात्मक रूप धारण नहीं करती है तो नित-नई शरारतों में तब्दील हो जाती है। शिक्षक उससे झिल्ला जाता है और भविष्य में इसकी विफलता का अंतिम फैसला दे देता है। कभी हमने सोचा कि इससे क्या हो सकता है? इस से छात्र के भीतर अपनी कमी के संदेह का आधार पड़ जाता है। उसका हौसला पस्त हो जाता है। उसमें आत्मविश्वास की कमी आजाती है और वह पौधा जो घना एवं मजबूत और तनावर  होने की क्षमता रखता था शुरुआत में ही सूख जाता है। हम उन्हें शरारत से जरूर बचाएं लेकिन हम उसको प्रोत्साहित करें कि वह अपनी बल-शक्ति और रचनात्मकता के सकारात्मक उपयोग से कोई नया काम करे। यह सकारात्मक उपयोग उच्च उद्देश्य को पाने के लक्ष्य के साथ सामने लाया जा सकता है।

हमने देखा होगा कि कुम्हार की चाक पर कभी कभी कुछ मिट्टी बेकाबू होती रहती है। कुम्हार उन्हें उठाकर फेंक नहीं देता बल्कि वह निरंतर उसे काबू मे लाकर प्रस्तावित रूप देने का प्रयास करता रहता है। इसके बाद भी अगर वह मिट्टी वह नहीं बन पाती जो कुम्हार चाहता था तब भी कुछ न कुछ बन ही जाती है। छात्रों में भी हमें यह अनुभव होगा और कुम्हार से अधिक होगा। क्योंकि कुम्हार के सामने बेजान वस्तु है जिसमें कोई इच्छा नहीं हैं जबकि हमारे सामने जावित और अपने अनूठे लक्षण एवं इच्छा शक्ति रखने वाली हस्ती मौजूद है जिसे हम से कोई सीख लेने से अधिक अपनी स्वतंत्रता और स्वायत्तता प्रिय है। ऐसी स्थिति के बावजूद हमें उन्हें कुछ बनाने का लक्ष्य रखने का लगातार प्रयास करते रहना है। ताकि वे वह न बन सकें जिसका प्रयास किया गया है तब भी कुछ तो बन ही जाएं।

इसलिये जरूरी है कि हम अपने बच्चों के लिए उच्च लक्ष्य निर्धारित करें। लक्ष्य तब निर्धारित होगा जब हमारे मन में यह विचार हो कि अपने पेशे से केवल रोटी नहीं कमानी है बल्कि हमारे हाथ में जो कच्चा या खाम माल है उस से कोई नई और अनोखी चीज बनानी है जो मेरे मरने के बाद मेरी निशानी होगी। लेकिन इसकी प्राप्ति तभी होगी जब हम खुद को इन्हीं बच्चों में गुम करदें। हम समझें कि बेहतर परिणाम हमारी महनतों का फल है। लेकिन इस के साथ हमें माहिर बनना होगा और माहिर बनने के लिए आवश्यक है कि हमें अपनी कमियों का एहसास हो। जब तक हम अपनी कमियों का एहसास नहीं करेंगे तब तक हम अपनी गलतियों में सुधार नहीं ला सकते हैं और जब तक गलतियों में सुधार नहीं होगा हम माहिर नहीं हो सकते।

अपनी कमियों को दूर करने के लिए हमको अपने काम की समीक्षा करनी होगी। जब एक वर्ग से निकल कर दूसरे वर्ग में प्रवेश कर रहे हों इस समय को मानसिक आराम में बिताने के बजाय अपनी समीक्षा करें कि हमने वर्ग में कहां चूक की। या यदि हमारी याददाश्त कमजोर न हो तो हम ऐसा भी कर सकते हैं कि जब स्कूल से घर चले जाएं या जब स्कूल के काम से फुर्सत मिल गई हो तो उस समय हम पूरे दिन के कार्य की समीक्षा करें। हम महसूस करेंगे कि कौन सा काम कैसे करते तो ज्यादा बेहतर परिणाम सामने आता। जब हम समीक्षा करेंगे तो हमें अपनी कमियों का एहसास होगा। कमियों का एहसास खामियों को दूर करेगा और खामियों की दूरी हमें माहिर बनादेगी तो देर मत करें और माहिर बन जाएं। अच्छा उत्पाद तैयार करें और अपने मन को संतुष्ट करें और जब दुनिया से जाएं तो इस संतोष के साथ कि हमारे ज़िम्मे जो काम दिया गया था उसे हम ने पूरा किया।

शिक्षक बंधूओ! समीक्षा के लिए समय, दिन और तारीख़ कोई मायने नहीं रखते जब एहसास होजाए रुख बदलने के लिए वही समय शुभ है। इसके बावजूद आज जब हमारा सम्मान हो रहा है अपनी जिम्मेदारियों के प्रति समीक्षा का अच्छा अवसर है। इसलिये हमें समीक्षा करना चाहिए और जब हमें एहसास हो जाएगा तो व्यवहार में परिवर्तन बहुत आसान होगा तो समीक्षा करें और अपने व्यवहार में परिवर्तन ले आएं।

***

रा0. बनियादी विद्यालय मझौलिया, दरभंगा