مشمولات

Friday, 1 January 2016

تبصرہ: آؤ کہانی سنتے ہیں

نام کتاب            :           آؤ کہانی سنتے ہیں
مصنف               :           ڈاکٹر مجیر احمد آزاد
قیمت                 :           ۴۰
صفحات               :           ۵۶
ملنے کا پتہ           :           ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ ، دربھنگہ
مبصر                  :           احتشام الحق
کہانی اور بچہ لازم وملزوم چیز ہے۔ ہر بچے کو کہانی سننا پسند ہے۔ لیکن تفریح کے برقی ذرائع نے ہماری جن پرانی قدروں کو چھینا ہے ان میں وہ کہانیاں بھی جو کبھی دادی، نانی، پھوپھی، خالہ، ماں اور گلی محلہ کی کچھ مخصوص خواتین سناتی تھیں لیکن آج بھی بچے کہانیاں پسند کرتے ہیں البتہ یہ انہیں ٹی وی میں کارٹون کی شکل میں مل جاتی ہیں ۔ کہانی کو ایکشن کے ساتھ سننے اور دیکھنے میں مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود کہانیوں کے پڑھنے سے بچوں کے ذہن میں جو سبق محفوظ ہوتے ہیں اور زبان دانی کا جو فائدہ حاصل ہوتاہے اس کا متبادل ٹی وی کی کہانی کو نہیں کہا جاسکتا ہے۔اس طرح کی توجیہ کو اس دور میں کہانی کی تخلیق کا جواز تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ کہانی کہنا ہوسکتا ہے تخلیق کار کی مجبوری بھی ہو لیکن بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانی میں مجبوری نہیں شعور کام کرتا ہے۔اور پھراسے شائع کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کونئے نظام کے خلاف ایک جنگ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے گیارہ کہانیوں پر مشتمل کتاب ”آؤ کہانی سنتے ہیں“ کو شائع کرکے یہ جنگ کی ہے ۔
             کہانیاں یوں بھی مختصر ہی ہوتی ہیں۔ لیکن بچوں کی کہانیوں میں اس بات کا پورا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس میں ہر حال میں اختصار برقرار رہے۔ بچوں کی کہانی میں بچوں کی فطرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دلچسپی پیدا کرنی پڑتی ہے۔ بچوں کی کہانی میں سبق آموزی کا ہونا بھی ضروری ہے جو کہانی پڑھ کر وضاحت کے ساتھ بچوں کے ذہن میں آجائے۔انہیں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔اعلی انسانی قدروں کے تئیں بچوں میں شعور پیدا ہو اور خود بچوں کی شخصیت بلند کردار ہوسکے۔ اس میں زبان کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔معیاری زبان کے سانچے کو بھی ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ الفاظ کے استعمال میں بھی بہت سوچ سمجھ سے کام لینا پڑتا ہے۔ بچوں کے ذہنی استعداد اور عمر کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے بچوں میں ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو۔ محاورہ اور روز مرہ کو بھی کہانی میں جگہ دی جاتی ہے۔ ”آؤ کہانی سنتے ہیں“ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نہ صرف ایک کہانی کار ہیں بلکہ بچوں کی فطرت سے واقف بھی ہیں اور اعلی اقدار کے حامل ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ وہ جس پیشہ سے وابستہ ہیں اس میں اس میں بیک وقت یہ تمام چیزیں مجتمع ہوجاتی ہیں اور ان چیزوں کے اجتماع کے بعد ہی ایک اچھے استاد کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ بچوں کی کہانیوں کے سلسلہ میں خود ان کا اپنا خیال یہ ہے کہ ” ان کہانیوں کی تخلیق کا مقصد بچوں کی تعلیم وتربیت میں معاونت کے ساتھ ان کے اندر اعلی انسانی قدروں کی پاسداری کا جذبہ فزوں تر کرنا ہے۔ کہانیاں بچوں کے لئے اخلاق اور کردار سازی کا ایک مؤثر ذریعہ ہوسکتی ہیں۔ ایسا میرا ماننا ہے۔ کہانیوں کے توسط سے زبان وادب کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ بچوں کے اندر محبت، بھائی چارہ، ہمدردی، بھلائی، خیر خواہی، دست گیری جیسی صفتیں بہ آسانی پیدا کی جاسکتی ہیں“ان کہانیوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے ان کہانیوں کی تخلیق میں مندرجہ بالا خیالات کو ہر ممکن برتنے کی کوشش کی ہے۔ ہر کہانی بچے کو  زندگی گذارنے کا ایک سبق دیتی ہے۔
اس کتاب میں ”خالد کی عید“، ”خالہ کا گھر“، ”دوستی“، ”نیک کام“، ”نصیحت“، ”مراد کی سمجھ داری“، ”نانی کی بکری“، ”اچھی لڑکی“، ”پنڈت گوپی ناتھ“،” آخری کوشش“ اور ”مرجھائے پھول“ کل گیارہ کہانیاں ہیں۔کہانیوں کا عنوان جس طرح بالکل عام سا اور گھر کے آس پاس کا ہے اسی طرح کہانیوں کا تانا بانا بھی ہے جس سے بچوں کی دلچسپی قائم ہوتی اور کہانی کے مطالعہ سے بچے کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ موضوع کے لحاظ سے بالکل سہل اور سادہ زبان استعمال کی گئی ہے جس میں بچوں کی عمر اور علمی لیاقت کا خیال رکھنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ البتہ جو نسل ہمارے درمیان بڑھ رہی ہے وہ کچھ الفاظ پڑھ کر شاید ان کا معنی مطلب نہ سمجھ سکے ۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ نہیں ہے کہ بچے جس رخ پر بہے جارہے ہیں کہانی کار بھی اس رخ پر بہہ جائے ۔ کیونکہ کہانی کار کا مقصد بچوں کو معیاری زبان سے واقف بھی کرانا ہے۔ ان میں سے بعض کہانیاں مختلف اوقات میں بچوں کے رسالوں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
            ”خالد کی عید“ اس کتاب کی پہلی کہانی ہے جو پریم چند کی کہانی ”عید گاہ“ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے۔ لیکن اس میں وہ بات پیدا نہیں ہوسکی ہے جو عید گاہ کا خاصہ ہے۔ پریم چند میں حامد کے تئیں ہمدردی کا جو جذبہ پید اہوتا ہے وہ اس میں نہیں ہوپاتا ہے لیکن حامد کے کردار میں دادی کے لیے جو جذبہ ہے وہ خالد میں ماجد کے لیے پیدا کرنے کی کوشش میں کسی حد تک ضرور کامیابی ملی ہے۔ ”نانی کی بکری“ کی بھی اچھی کہانی ہے لیکن کیا جائے کہ جن بچوں کی نانی کے پاس بکریاں ہوں گی وہاں شاید کہانی نہ پہنچ پائے اور جہاں کہانی پہنچے گی وہاں بکریاں نہ ہوں گی۔” پنڈت گوپی ناتھ“ سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کوشش ہے۔ ”خالہ کا گھر“ رشتہ داریوں کے درمیان ہونے والے تنازعات میں بچوں کی شریک کرنے کی فطرت پر کہانی کار کا تیکھا طنز ہے۔ اس طرح ساری کہانیاں ایک مخصوص اور منفرد تناظر رکھتی ہیں۔
             بعض کہانیوں میں پروف ریڈنگ کی کمی نظر آتی ہے۔ چھوٹے بچو ں کی کتابوں میں اس طرح کی خامیوں کا در آنا اچھی بات نہیں ہے۔ مجموعی طور پر کتاب بہت عمدہ ہے اور بچوں کو ایسی کتاب فراہم کی جانی چاہئے تاکہ انہیں بہتر تفریح کا ذریعہ حاصل ہونے کے ساتھ ان کی شخصیت سازی بھی ہو اور زبان وبیان پر بھی قدرت حاصل ہوسکے۔


٭٭٭
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا

No comments: