نام
کتاب : دھند (افسانوی مجموعہ)
تصنیف : ڈاکٹر قیام نیر
ترتیب
وپیشکش : محمد علام الدین
سن
اشاعت : ۲۰۱۵
قیمت : ۸۹ روپے
صفحات : ۱۵۰
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
مبصر : احتشام الحق
”کہانی
کہنا اور سننا سب لوگوں کو پسند ہے کیونکہ زندگی کی ہر کڑی، ہر موڑ اورہر اتار چڑھاؤ
خود ایک کہانی ہے۔ جو کبھی خوشی دیتی ہے اور کبھی غم۔ “مذکورہ اقتباس دھند کے پیش لفظ
سے ماخوذ ہے۔ دھند ڈاکٹر قیام نیر کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر قیام نیر بہار
کے اہم افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔ اس سے قبل۱۹۸۴
میں
ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”تنہائی کا کرب“ اور ۲۰۰۰
میں
”تحفہ“ دوسرا افسانوی مجموعہ شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ وہ نہ صرف افسانہ نگار ہیں
بلکہ افسانہ نگاری کی تاریخ بطور خاص بہار میں افسانہ کی پیش رفت اور اس کی تاریخ پر
گہری نظر رکھتے ہیں اوراس پر ان کی گراں قدر دو تحقیقی کتابیں بھی آچکی ہیں۔ بحیثیت
افسانہ نگار، افسانہ کے فن ، اس کی روایت، اس کی تاریخ اور اس پر تنقیدی نگاہ رکھنے
کی وجہ سے وہ افسانہ کے مالہ وما علیہ سے پوری طرح واقف ہیں۔
دھند میں ۱۹
افسانوں
کو شامل کیا گیا ہے جن کو ان کے ۲۰۰۱سے ۲۰۱۵ تک پندرہ
سالوں کا سرمایہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ افسانے مختلف اوقات ملک اور بیرون ملک کے اہم رسالوں
اور روزناموں مثلاً ایوان اردو، دہلی، راشٹریہ سہارا، نوئیڈا، خیال وفن، لاہو، گل کدہ،
بدایوں، تعمیر، ہریانہ، یوجنا، دہلی، پاسبان، چنڈی گڑھ، نخلستان، راجستھان، پرواز ادب،
پٹیالہ، نئی سوسائٹی، مراد آباد اور پالیکا سماچار دہلی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
ان افسانوں کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے
اور موجودہ زندگی کے حقائق کو بڑی خوبصورتی سے کہانی کا لباس پہنایا گیا ہے۔ ان کہانیوں
کے بارے میں خود افسانہ نگار کی رائے اس کتاب میں شامل ان کے پیش لفظ میں اس طرح ملتی
ہے : ”ان افسانوں کے ذریعے میں نے معاشرے میں بکھرے ہوئے واقعات وحادثات، انسانی رشتوں
کی بے حرمتی، قول وفعل کے تضاد، شکست آرزو اور عام انسانوں کی مجبوری اور بے بسی کو
زبان دینے کی کوشش کی ہے۔“ مجموعہ میں شامل انیس افسانوں
کی اپنی اپنی جہتیں ہیں اور اس جہت میں اس کی معنویت بھی مسلم ہیں۔ مگر کچھ افسانے
قاری کو ٹھہر کر سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اور ان کے محولہ بالا بیان کی بڑی حد تک
تصدیق ہوتی نظر آتی ہے۔ ان افسانوں میں سے ایک ”مداوا“ نے پریم چند کے کفن کا مرتبہ
پانے میں کامیابی تو حاصل نہیں کی ہے لیکن انسان کی وہی بے بسی اور مجبوری جو کفن میں
ہے جس کے نتیجے میں انسان کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے، اس میں اس کی ایک جھلک ضرور نظر
آتی ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسے کرب کا اظہار ہے جو قاری کو جھنجھوڑتا ہے۔ افسانہ ”نئے
راستے“ حکومت کی اسکیموں سے مستفید ہونے اور دیہی زندگی میں تبدیلی لانے کی وکالت کرتا
ہے۔ لیکن اس راہ میں آسانی اتنی نہیں ہے جتنی آسانی سے افسانہ گذرا ہے۔ جس سہولت سے
نئے راستے تک پہنچا گیا ہے ایسا ہمیں صرف ٹی وی پر حکومت کے اشتہاروں میں دیکھنے کو
ملتا ہے۔ زمینی حقیقت ماسوا ہے۔ اگر حالات ایسے ہوتے جس طرح افسانہ میں بیان ہوا ہے
تو ہمارا ملک اتنا پیچھے نہیں ہوتا۔ یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ حکومت کی اسکیموں
سے واقف کاروں نے عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش نہیں کی یا بہت کم کی ہے۔ لیکن کوشش
کے باوجود اس راہ کی منزل آسان نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سرپنچ کیا جو کہانی کا ایک
کردار ہے خود بلاک ترقیات افسر بھی اپنے گاؤں کو بدلنا چاہیں تو اس تیزی نہیں بدل سکتے
ہیں۔البتہ کہانی تھوڑے کشمکش کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی تو شاید کچھ کامیابی مل سکتی
تھی لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد وحدت تاثر ختم ہوجاتا جس سے فن مجروح ہوجاتا۔” آگ
کی ٹھنڈک“ تقسیم کے بعد کے مسائل کو چھوتی ہوئی کہانی ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی گئی
ہے حالات کہیں بہتر نہیں ہے۔ ”دھوپ کا سایہ“ بھی کچھ اسی قسم کے موضوع کو چھوتا ہے۔
ان دونوں افسانوں کا عنوان جیسا کہ دو متضاد الفاظ کی ترکیب سے بنایا گیا ہے اور دھوپ
کی تمازت میں سایہ اور آگ میں ٹھنڈک سے شدت میں نرمی کا پہلو ظاہر ہے کہانی میں بھی
یہی کچھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس سے قاری میں زندگی کو ہر حال میں انگیز کرنے کا
حوصلہ اور نامساعد حالات کے تئیں کھڑے ہونی کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ کہانی ”ہم سفر“ بھی
سماج کی ایک خاص ذہنیت کی عکاس ہے۔ ہمارا سماج ہمیشہ ایسے لوگوں کو شکوک وشبہات کی
نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے جو کبھی غلط راہ پر تھے۔ رشتوں کے معاملے میں یہ رویہ اور
بھی محتاط ہوتا ہے۔ بسا اوقات سماج کے اس رویہ سے غلط راہ کو چھوڑ کر آنے والے لوگوں
کو توبہ شکنی کی راہ دکھائی دینے لگتی ہے۔” بھنور کا ساحل“ بھی تقسیم ہند کے المیے
کو بیان کرتا ہے۔جبکہ” راز دار“ زوجین کے درمیان رازداری کی حدوں کو سمجھنے کا موقع
فراہم کرتا ہے۔
کئی افسانوں میں جہیز کا ناسور ، اس کی
کسک اور درد کہانی کا حصہ بنے ہیں ہے۔ اس مسئلہ پر افسانہ نگار سنجیدہ ہوتا ہوا دکھائی
دیتا ہے اور کئی طرح کے مسائل کا سبب اسی جہیز کو تسلیم کرتا ہے۔ اوپر مذکور ”مداوا“
میں بے ضمیری کا سودا اسی جہیز کے سبب ہے۔ ”فرق“ میں بھی اس مسئلہ پر افسانہ نگار کو
سنجیدہ ہوتے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ” فرق“ رواداری کے مٹتے ہوئے جذبہ کا عکاس ہے جس
کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ”سمجھوتہ“ انسانی کی مجبوری کا
عکاس ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے مفلسی میں انسان کا ضمیر ملامت بھی کرتا ہے
تو حالات انسان کو سمجھوتہ کرلینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ موقع پرستی بھی ہمارے سماج
کا بڑا المیہ ہے۔ موقع پرست لوگوں کی ابن الوقتی محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے اور ایسے
حالات میں باعزت ا شخاص موقع پرست لوگوں کو دیکھ کر جز بز ہوکر رہ جاتے ہیںلیکن موقع
پرست لوگ اپنے مفاد کے لیے کسی بھی سطح پر جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ”موقع پرست“ اسی
خیال کا عکاس ہے۔
بیانیہ کی تکنیک میں کہے جانے والے یہ
افسانے اپنے اندر منفرد معنویت رکھتے ہیں۔ ان کہانیوں کو محمد علام الدین نے ترتیب
دے کر پیش کیا ہے جس کے لیے وہ لائق مبارکباد ہیں ۔ کہانیوں کے مطالعہ سے مرتب کے ذوق
نظر اور افسانوں پر ان کی گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب پر پروفیسر شہزاد انجم
نے بہت اختصار کے ساتھ تقریظ لکھی ہے اور ڈاکٹر قیام نیر کی افسانہ نگاری کا جامع انداز
میں جائزہ لیا ہے۔ حالانکہ بحیثیت مرتب محمد علام الدین کو بھی اس میں چند سطریں ضرور
تحریر کرنی چاہئے تھی تاکہ ان کے نگاہ انتخاب کے ساتھ افسانہ پر ان کے خیالات کا اندازہ
ہوتا۔ کتاب کی طباعت عمدہ ہے اور قیمت موزوں ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ مجموعہ طلبہ
اور اساتذہ کے درمیان مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
٭٭٭
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا
No comments:
Post a Comment