مشمولات

Friday, 1 January 2016

تبصرہ: لفظیات غزل

نام کتاب            :           لفظیات غزل (از ابتدا تا عہد غالب)
مصنفہ                :           ڈاکٹر نفاست کمالی
قیمت                 :           تین سو روپے
صفحات               :           ۱۶۹
ملنے کا پتہ           :           ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ ، دربھنگہ
مبصر                  :           احتشام الحق
            فنون لطیفہ میں ادب کا ذریعہ اظہار زبان ہے۔اصوات، اشکال اور اشارات جو مخصوص معانی کی علامتیں ہوتی ہیں کسی خاص لسانی سماج میں زبان کی تشکیل کرتے ہیں۔معنی کے اظہار کا ذریعہ لفظ ہے۔ لفظ لفظ مل کر جملہ بنتا ہے اور ایک جملہ ایک خبر، ایک کیفیت ، ایک احساس اور ایک خیال کا اظہار کرتا ہے۔ شاعری در اصل ایسی لفظیات کا نظام ہے جو مخصوص نظام کو بروئے کار لاکر افکار وخیالات کے بہتر سے بہتر اظہار کا ذریعہ تلاش کرتی ہے۔ اس طرح ہم شاعری کو زبان کی سائنس کہہ سکتے ہیں اور پھر اس کے ذریعہ دریافت ذریعہ اظہار نثر میں بھی ڈھلتے ہیں جن کو زبان کی ٹیکنالوجی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لیکن لفظ ہر دور اور ہر تناظر میں اپنا معنی بدلتا رہتا ہے اور اس کی گرافک صورت میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ تناظر کے پس منظر میں لفظ کا ادراک اور استعمال شاعری کا خاص عمل ہے۔ لفظوں کے اسی عمل اور نظام کو” لفظیات غزل“ میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
            ”لفظیات غزل“ ڈاکٹر نفاست کمالی کی تازہ کتاب ہے جو ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے اردو غزل کی ابتدا سے لے کر غالب کے عہد تک کے غزل کی لفظیات کا مبسوط جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں لفظیات اور اس کے محتویات کا عمومی جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کس طرح الفاظ عہد بہ عہد اپنی شکلیں بدلتے ہیں۔ یا کس طرح تناظر کے لحاظ ایک لفظ اپنی صوتی اور شکلی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنی معنویت بدل لیتا ہے۔ دوسرے باب میں لفظیات غزل کے تحت غزل میں استعمال ہونے والی لفظیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں اولاً غزل کی ہیئت کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کے مخصوص معنیاتی نظام پر بحث کی ہے پھر غزل کی لفظیات کو پیش کیا ہے اور مصنفہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ لفظیات کے انتخاب میں مضامین کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تیسرے باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں قدیم شمالی ہند میں اور دوسرے حصے میں دکن میں اردو غزل کی لفظیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں” لفظیات غزل عبوری دور میں “کے تحت غزل کا جائزہ لیا گیاہے۔ ایہام گوئی کی تحریک کو عبوری دور سے موسوم کیا گیا ہے۔حالانکہ مصنفہ کو اس بات کی صراحت کرنی چاہئے تھی کہ ایہام گوئی کی تحریک کو عبور ی دور سے کیوں موسوم کیا گیا ہے جو وہ نہیں کرسکی ہیں۔ پانچویں باب میں میر تقی میر اور سودا کے عہد کی لفظیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹے باب ”لفظیات غزل دبستان لکھنؤ“کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں انشاء، مصحفی اور دیگر شعرا اور دوسر ے حصے میں ناسخ، آتش اور دیگر شعرا کے حوالے سے لفظیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ساتویں باب میں ”لفظیات غزل۔ دبستان دہلی میں“ کے تحت غالب، مومن، ذوق اور دیگر شعرا کے حوالے سے اردو شاعری کے عہد زریں کی لفظیات پر بحث کی گئی ہے۔ آٹھویں باب میں پوری بحث کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔
            مصنفہ نے اپنے پیش لفظ میں یوں تو اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ لفظیات کی اہمیت، وسعت اور محتویات پر بہت کم لکھا گیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اردو تنقید میں لفظ ومعنی کی بحث کے تحت لفظیات کے حوالے آتے رہے ہیں اور اس تحقیق میں مصنفہ نے بھی ان حوالوں سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔
            مختصر یہ کہ ڈاکٹر نفاست کمالی کی یہ تحقیق اردو غزل کے حوالے سے ایک نئی جہت کو پیش کرتی ہے اور شاعری کے حوالے سے زبان کے نظام کا مطالعہ کرنے والے طلبہ کے خاصہ کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔
٭٭٭
نوٹ: یہ تبصرہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵ تا جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ کے شمارے میں شائع ہوا۔



No comments: