مشمولات

Friday, 1 January 2016

تبصرہ: نسخہ ہائے درد دل (شعری مجموعہ)۔

نام کتاب                 :               نسخہ ہائے درد دل (شعری مجموعہ)
شاعر                        :               فطین اشرف صدیقی
صفحات                    :               ۲۳۵
قیمت                       :               ۲۵۰ روپے
ملنے کا پتہ                :               ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
مبصر                        :               احتشام الحق
                محدود معنی؍ تناظر میں اردو شاعری اور غزل کو ایک دوسرے کا متبادل کہا جاسکتا ہے۔ اردوزبان سے واقف آشنا مگر اردو سے نابلد؍ ناخواندہ کسی شخص کے سامنے اردو شاعری کا نام لیجئے تو سب پہلے اس کا ذہن اردو غزل کی طرف جائے گا۔اردو غزل کا نام لیجئے تو تغزل کا تصور ذہن میں نہ آئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ گوکہ غزل نے” بازناں گفتن“ سے آگے قدم رکھتے ہوئے زندگی کے تقریبا تمام مسئلوں کا احاطہ کرلیا ہے۔ اب تو سائنسی اور طبی دریافتوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو غزل جیسی لطیف صنف میں ثقیل اصطلاحوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسے بھی بنظر استحسان دیکھا جارہا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کی نظر نظر کا کمال ہے۔ لیکن آج بھی کسی بڑے مشاعرہ کی محفل ہو یا اہل سخن اور اہل مذاق کا مختصر اجتماع، جب کوئی شاعر غزل پڑھتا ہے تو ایسے شعر پر ٹھہر کر سامعین کو متوجہ کرتا ہے جس میں تغزل موجود ہو۔ یہ کہتے ہوئے  کہ غزل کا ایک شعر ہوگیا ہے۔ غزل کے موضوعات کے تنوع کے باوجود تغزل پر شاعر کا یہ اصرار اس بات کا اثبات ہے کہ غزل آج بھی وہی سر دھننے کے لائق ہے جس میں بھر پور تغزل موجود ہو۔ تغزل کا یہی اصرار فطین اشرف صدیقی کے شعری مجموعے نسخہ ہائے درد دل میں ملتا ہے۔ اس مجموعے میں شامل غزلیں پڑھئے قدم قدم پر تغزل کا وفور قاری کو ٹھہرا لیتا ہے۔ کہیں سرور وکیف ، سرمستی اور جذبۂ دل قاری کو گنگناے اور بار بار دہرانے پر مجبور کرتا ہے تو کہیں اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور قاری گانے کے ساتھ جھومنے بھی لگتا ہے۔
                 فطین اشرف صوبہ بہار کے ضلع سیتا مڑھی کے قصبہ مادھو پور سلطانپور کے باشندہ ہیں اور ایک متوسط اور دینی وعلمی گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ تعلیم کے حصول کے بعد وہ عمان کے شہر صلالہ میں برسر روزگار ہیں۔اچھے کاتب ؍ خطاط ہیں۔ خطاطی کی مہارت یہ ہے کہ انہوں نے چاول پر قل ہوا للہ لکھنے کے ہنر کا اعجاز بھی دکھلایا ہے۔ دینی گھرانے میں پیدائش، پرورش اور دینی تعلیم کے حصول نے ان کے مزاج کو بھی دینی سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ وہ پاکیزہ خیالات اور سچے جذبات کے حامل ہیں۔
                نسخہ ہائے در دل فطین اشرف کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں سو سے زائد غزلوں کے علاوہ نظمیں، حمد، نعت، قطعات ، سہرا اور دعا وغیرہ شامل ہیں۔
                فطین اشرف بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل میں بھی کلاسیکی برتاؤ ان کے شعری رویے کا بنیادی وصف ہے۔ شعری رجحان رومانی ہے لیکن خیال کی پاکیزگی جذبات کی سادگی اور تہذیب نفس ان کی رومانی غزلوں کا امتیازی پہلو ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ قدم قدم پر تغزل کا احساس ہوتا ہے لیکن رومانیت کو ان کی کل کمائی نہیں قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان کی غزلوں میں زندگی کا گہرا مشاہدہ بھی ہے، کمزور ہوتی ہوئی انسانیت، ٹوٹتے بکھرتے رشتے، لوگوں میں تصنع اور ملمع سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان،ابن الوقتی اور مفاد پرستی کے خلاف احتجاج اور بے امنی اور بے چینی کی فضا کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ دیکھیں یہ اشعار:
پرندے خوف زدہ گھونسلوں میں دبکے ہیں
کہ ان کی گھات میں کوئی عقاب لگتا ہے
وہ جو کہتے ہیں کہ ہے فکر ہماری ان کو
ان کی جانب چلیں دانستہ پھل کر دیکھیں
کون دیتا ہے جاں کسی کے لیے
ہے یہ قصہ فقط فسانے تک
اب کہاں ہے خلوص رشتوں میں
رسم باقی ہے آنے جانے تک
کیا میں نے نہ خود داری کا سودا
سبھی کہتے رہے مغرور ہوں میں
فتوے لگائے سب نے کوئی سن سکا نہ حق
زیر عتاب دار پہ منصور ہی رہا
راہِ الفت میں مقام آتے ہیں ایسے اکثر
لاکھ محتاط ہوں ہم پاؤں پھسل جاتا ہے
دریائے علم وفن سے، میں سیراب کب ہوا
بس پی کے چند قطرے، مچلتا رہتا ہوں
اگر تاب تم میں نظارے کی ہے تو
نظر سے نظر ملاؤ تو جانوں
آگے ہے جان کی بازی
جس کو جانا ہے گھر جائے
کرسی اپنی سلامت ہے
قوم مرتی ہے مر جائے
                غزل کی ایک صفت ریزہ خیالی ہے۔ فطین اشرف غزل کی اس صفت کو برتنے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔حالانکہ کئی غزلیں غزل مسلسل کے ضمن بھی آتی ہیں لیکن فرد خیال کا احساس بہر حال باقی رہتا ہے۔ فطین اشرف نے چھوٹی چھوٹی بحروں میں بھی غزلیں کہی ہیں اور کچھ بڑی بحروں میں غزلیں ہیں۔ایک دو غزلوں میں سالم مضاعف بحر بھی استعمال کی گئی ہے۔ ان سے یقینا شاعری پر ان کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ غزل کا فن رمز اور ایمائیت کا فن ہے۔ فطین اشرف نے نئے استعارے تو نہیں تراشے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اساتذہ کے کلام کا انہوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اورقدیم استعاروں سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ انہوں نے تشبیہ کے عمل سے اپنے کلام کو مزین کرنے کی خوب کوشش کی ہے۔
                 اس مجموعے میں ان کی تقریبا سترہنظمیں بھی شامل ہیں۔ غزل کے برعکس نظم کی صفت تسلسل بیان ہے۔ انہوں نے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں بیشتر نظمیں اپنی اس صفت میں کامیاب نظر آتی ہیں’’کس چہرہ کو کعبہ بنائیں گے ہم“ ان کی ایک طویل نظم ہے جو ماں پر لکھی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اپنی ماں کی موت سے متاثر ہوکر یہ نظم ہوگئی ہے۔ یہ نظم ماں بیٹے کے رشتوں کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کامیابی کے ساتھ کرتی ہے۔ ”یاسیت“ ، ”تقدیس ایفا“ اور”حسن تمنا“ آزاد نظمیں ہیں۔ نظم کے خیالات اعلی ہیں لیکن ایک نظم کے اندر قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے کی جو صلاحیت ہونی چاہئے وہ ان میں کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ”اردو میں ہے“ ایک نظم ہے جس میں اردو شیریں بیانی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کہہ سکتے ہیں یہ نظم بھی نظم کی شرطوں پر کھری اترنے میں بہت کامیاب نہیں ہے۔
                فطین اشرف نے اس مجموعے میں مختلف ہئیتوں کا استعمال کیا ہے۔ مختلف شعری ہئیتوں کا استعمال ان کی قادر الکلامی کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن پورے مجموعے کے مطالعے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل کے شاعر ہیں جس میں تغزل اور نغمگی بھری ہوئی ہے اور اس لائق ہیں کہ ان کو عالم رنج میں بھی پڑھا جائے تو نشاط کی کیفیت قاری پر طاری ہوسکتی ہے۔ نغمگی اس قدر ہے کہ ان کو مشہور مغنیوں کے ذریعہ گواکر ان کی صدا بندی کرائی جاسکتی ہے۔رومان اور نغمگی سے پر غزلوں سے کچھ اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:
لفظ بے معنی ہیں سارے، حرف بے تاثیر سب
قامت جاناں کے آگے سر نگوں ہے شاعری
سنا ہے لوگ کہتے ہیں، بہت نازک رگ جاں ہے
ذرا تیر نظر دل پر چلا آہستہ آہستہ
سر محفل، سنا ہے! جلوۂ جاناں کی دعوت ہے
چلو! کس کس کی آئی ہے قضا آہستہ آہستہ
تمہاری مست نظروں میں سنا ہے ایک جادو ہے
مرے دل پر بھی یہ جادو چل جائے تو پھر جانا
شوخی تو ذرا دیکھئے، اس شوخ طبع کی
دل میں ہی مرے رہ کے یہ پوچھے ہے کہاں ہوں
                کتاب کی طباعت عمدہ ہے۔ گٹ اپ بھی بڑا خوبصورت ہے۔ ایسی توقع ہے کہ ان کا یہ پہلا مجموعہ اہل نقد ونظر کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگا۔

٭٭٭

No comments: